ہمارے گھر میں بہشتی زیور پڑھنا منع تھا: زاہدہ حنا


س۔ آپ کی تخلیقات کے کن کن زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں،اور آپ کے خیال میں کس زبان میں آپ کی تخلیقات کے ترجمے نے حق ادا کیا ہے؟

ج۔ دیکھیں یہ تو میں نہیں کہہ سکتی کہ کس زبان نے ترجمے کا حق ادا کیا ہے۔ سب سے زیادہ سندھی ہے اور پھر ہندی میں اور انگریزی میں یعنی میں اُسی ترتیب سے بیان کر رہی ہوں۔ جرمن زبان میں بھی ہوا ہے اور بنگلہ میں بھی ہوا ہے نیپالی میں ہوا ہے تو ظاہر ہے میں نہیں کہہ سکتی کہ کس زبان میں حق ادا ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ میرے جو افسانے ترجمہ ہوئے ہیں وہ سندھی میں ہوئے ہیں، ہندی میں ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ انگریزی میں ہوئے ہیں اور پھر کئی اور زبانوں میں ہوئے ہیں۔

س۔ ایک زمانہ تھا کہ خواتین کے مطالعے کے لئے بھی خصوصی جریدے جیسے اخبار خواتین، حور، زیب النسا، بتول سمیت دیگر جرائد شائع ہوتے تھے اسی طرح ادب کے فروغ میں ”سب رنگ“ ڈائجسٹ کا بڑا اہم کردار تھا آپ خود بھی اخبار خواتین سے وابستہ رہیں لیکن آج کل ہمیں خواتین کے لئے کوئی خصوصی علیحدہ اعلیٰ معیار کا جریدہ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح سب رنگ کی بندش کے بعد اس معیار کا ادبی جریدہ بھی آج تک شائع نہیں ہو سکا اس کی کیا وجوہات ہیں؟

ج۔ دیکھئے ایسا ہے کہ جب اخبار خواتین نکلا تھا تو حیران کن حد تک اس نے چھلانگ لگائی تھی اور وہ 56 ہزار فی ہفتہ چھپتا تھا جو اُس وقت ایک ناقابل یقین اشاعت تھی اس نے بہت کامیابیاں حاصل کیں اور میں بہت خوش نصیب ہوں کہ اس کے کامیاب ترین زمانے میں، میں اس سے وابستہ رہی۔ اس کے بعد روزنامہ مشرق کے لئے میں نے کالم لکھے۔ اس زمانے میں 20 برس کی عمر میں روزانہ کالم لکھنا وہ بھی آدھا صفحہ اخبار کا وہ بہت مشکل کام تھا لیکن خیر وہ میں نے کیا اور جہاں تک آپ خواتین کا پوچھ رہے ہیں تواب جو خواتین کے ڈائجسٹ نکلتے ہیں ایک عرصے سے۔ وہ خواتین کے لئے ہیں۔ اور اس میں کہانیاں چھپتی ہیں ان کی پسند کی چیزیں ہوتی ہیں بلکہ بہت سی تو خواتین کی جو پسندیدہ لکھنے والیاں ہیں وہ اب ٹیلی ویژن کے لئے لکھ رہی ہیں اور بہت کامیاب ہیں۔ تو خواتین کا تو یہ ایک مسئلہ ہے۔ جہاں تک ڈائجسٹوں کا سوال ہے تو ڈائجسٹ ایک زمانے میں عروج پر تھے اور انہوں نے بہترین ادب ڈائجسٹ کیا۔ میں عالمی ڈائجسٹ کو ایڈٹ کر رہی تھی تو میں نے الگ سے خصوصی طور پر نگارشات لکھوائیں بلکہ میں نے جو بہترین ہمارے ادیب تھے ان کی تحریریں اس میں ڈائجسٹ کیں۔ لیکن اب وہ ماحول نہیں رہا۔

س۔ آپ کی اولاد میں سے بھی کسی کو فنون لطیفہ کی مختلف اصناف سے شغف ہے؟

ج۔ بالکل دراصل میری تو خیربہت خواہش تھی کہ یہ لوگ لکھیں اور بڑی بیٹی میری جو ہے فینانہ فیرنام۔ اس نے کچھ چیزیں لکھی بھی TV پر بھی کام کیا اورپی ٹی وی کے ٹاک شوز کو اینکر کیا لیکن وہ سنجیدہ نوعیت کے موضوعات ہوتے تھے۔ چھوٹی بیٹی جو ہے سحینا اس نے بھی PTV کے لئے سنجیدہ پروگرام کو Moderate کیا۔ لیکن اس کا رجحان فائن آرٹس کی طرف ہے۔ اوراس نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم فل کیا ہے۔ اور بیٹا زریون جو ہے اس کو بالکل دلچسپی نہیں ہے۔ اسکی مادری زبان انگریزی ہے۔ میں نے کہا کہ بھئی مادری زبان میں ہی لکھ لو لیکن اسے لکھنے سے دلچسپی نہیں ہے ہاں البتہ اسے سائنسی موضوعات سے دلچسپی خاص طور پر ماحولیات  کے مسائل سے ہے لیکن یہ دونوں جو میری بیٹیاں ہیں ان کو لکھنے سے دلچسپی ہے اور سحینا کو تو خیر بہت ہے چونکہ وہ آرٹس سے وابستہ ہے۔

س۔ ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں یہ فرمائیے کہ نصف صدی قبل آپ نے بچپن میں اپنے آس پاس کیسا علمی و ادبی ماحول پایا؟

ج۔ دیکھیں جہاں تک علمی اور ادبی ماحول کا تعلق ہے وہ تو ہمارے گھر کا بہت مضبوط تھا اور ماضی سے مضبوط چلاآرہا تھا تو اس میں ہمارے اوپر کوئی پابندی نہیں تھی۔ جیسے لوگوں کے بارے میں سنتی ہوں پڑھتی ہوں کہ بھئی انہیں پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمارے یہاں الماریاں بھری ہوتیں تھی کتابوں سے اور ہمیں کوئی قدغن نہیں تھی کہ کیا پڑھیں ہم اور کیا نہ پڑھیں،صرف ایک کتاب منع تھی اور وہ تھی بہشتی زیور کہ یہ نہیں پڑھنی تو وہ تالے میں رکھی جاتی تھی لیکن ہم نے خیر وہ بھی پڑھ لی۔

س۔ بہشتی زیور کے کچھ ابواب کے آغاز میں تحریر ہے کہ یہ ابواب بچوں کو نہ پڑھنے دئیے جائیں تاوقتیکہ وہ جوان نا ہو جائیں۔ تو آپ نے وہ ابواب اپنے بچپن میں پڑھے یا جوانی میں پڑھے؟

ج۔ (ہنستے ہوئے ) نہیں نہیں وہ میں نے تو نو برس کی عمر میں پڑھ لی تھی۔ تو یہ ہے کہ کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں تھی۔ والد کا فارسی اور اردو کے بہت اچھا ذوقِ مطالعہ تھااور ان کے پاس کتابوں کا بہت وسیع ذخیرہ تھا اور والدہ کے پاس کہانیوں کے بہت سے مجموعے تھا طلسم ہوش ربا کے تو ہمارے گھر میں مکمل 48 جلدیں موجود تھیں۔ طلسم ہوش ربا، داستانِ امیر حمزہ، اس کے علاوہ الف لیلٰی پھر مرزا عظیم بیگ چغتائی کا پورا سیٹ اور اس کے بعد کے تو سارے ہی لکھنے والے مصنفین کی کتب موجود تھیں۔

س۔ آپ کو بچپن سے ہی اعلٰی علمی وادبی ماحول ملا جب آپ نے خود لکھنا شروع کیا تو آپ کا رول ماڈل کون بنا؟

ج۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ کوئی میں نے معیاربنایا تھا۔ لیکن معیار تو ہوتا ہے نا۔ وہ تو ہمیں معلوم ہے کہ کلاسکس کیا ہوتے ہیں؟ عظیم ادب کیا ہوتا ہے؟ بڑے لکھنے والے کون ہوتے ہیں۔ تو میری خواہش ہمیشہ رہی آج بھی ہے کیونکہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا جتنا کرنا چاہئے تھا۔ اس کے باوجود آج بھی میں جیسے نئے لفظوں کی تلاش میں رہتی ہوں۔ یا لفظوں کے شیڈز ہیں ان کی تلاش میں رہتی ہوں۔ ہمارے گھر یعنی والد کے گھر میں بھی متعدد لغتیں تھیں لیکن بھئی میں نے تو بطورِ خاص لغتیں جمع کیں اور آج بھی لغت خریدتی ہوں تو یہ سارے وہ معاملات ہیں جو آپ کو لکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے اب میں برسوں سے دیکھ رہی ہوں۔ 35 برس سے کہ لوگ لکھتے ہیں اور اس کی املاء بھی درست نہیں کرتے اور اسے لے کر یا تو کسی رسالے کے دفتر پہنچ جاتے ہیں یا اسے Post کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بڑا کام کیا۔ کام ایسے نہیں ہوتا کام کے لئے تو آنکھوں کا تیل جلانا پڑتا ہے۔

س۔ آج کل آپ کی ادبی مصروفیات کیا ہیں؟

ج۔ اب میرا خیال ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ میں اپنا سامان سمیٹوں تو میں اپنی کچھ چیزیں اکھٹا کر رہی ہوں مضامین اور کچھ افسانے ایک، ایک دو ناول اور ایک چیز جو میں آغاز کرنے والی ہوں وہ ہے خود نوشت۔ اور وہ خود نوشت عام طور پر تو لوگ اس طور لکھتے ہیں نا کہ بھئی ہم نے کتنے بڑے ادیبوں سے ملاقات کی اور کتنے بڑے ادیبوں کے ساتھ وقت گذارا، میں اپنی جو ساری یادیں ہیں جو کہ حقیقت ہے کہ میری زندگی کتابوں کے ساتھ گذری۔ مطلب یعنی اگر مجھ سے کوئی کہے کہ بھئی آپ نے عشق کیا؟ جی صاحب کیا۔ آج تک کر رہے ہیں اورعشق بدلتا رہتا ہے۔ تو میں توکتابوں سے عشق کرتی تھی اور آج بھی کرتی ہوں۔ تو ظاہر ہے کہ کبھی ارحان پاموک سے کرتی ہوں کبھی قرةالعین حیدر سے کرتی ہوں۔ کبھی ٹالسٹائی سے کرتی ہوں تو یہ ہے صورتحال۔ کتابوں سے زیادہ میرے لئے کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی۔

س۔ تو گویا کتاب آپ کی بہترین ساتھی ہے؟

ج۔ نہیں کتاب میری بہترین ساتھی نہیں کتاب میری بہترین محبوب ہے۔ آپ یہ صحیح کہہ رہے ہیں کہ کسی کتاب کو بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے بیشتر جو میری پسندیدہ کتابیں ہیں وہ تاریخ سے متعلق ہیں یا اب جیسے میں نے ارحام پاموک کی کچھ کتابیں پڑھیں، ”My Name Is Red “اور snow اور دیگر چیزیں ”My Name Is Red “ کمال کتاب ہے۔ کمال ناول ہے اس کا۔ قرةالعین کی چیزین میں نے بار بار پڑھیں ہیں اسی طرح عظیم بیگ چغتائی جن کا ہمارے ہاں کوئی ذکر نہیں کرتا ان کو بہت ہی محبت سے پڑھا ہے۔ ان کی ایک کہانی تھی ” مہارانی کا خواب “۔ اچھا آج شائد میرا یہ خیال ہے کہ اس کا کوئی نام بھی نہیں جانتا لیکن کیا قیامت کی کہانی انہوں نے راجھستان کے پس منظرمیں لکھی ہے اسی طرح” سوانا کی روحیں“ ہے۔ اچھا اس کے بعد اگر آپ مغربی ادیبوں پر آئیں۔ تو ٹالسٹائی ہے چیخوف ہے اور اسی طرح فرانسیسی ادیب ہیں اطالوی ہیں تو جب آپ پڑھتے ہیں نا کتابیں تو اس میں یہ نہیں ہوتا کہ کوئی ایک کتاب ہوتی ہے یا ایک شاہکارہوتا ہے دوسروں کے لئے ہوتا ہوگا میرے لئے نہیں ہے۔

س۔ کچھ ایسی یادیں جن کو آج بھی بھول نہ پاتی ہوں؟

ج۔ نہیں یادیں تو نہیں نکلتیں آپ کے ساتھ دفن ہو جاتی ہیں یاد کیسے نکالیں گے آپ؟۔ اس لئے کہ وہ آپ کی ذات کا حصہ ہوتی ہیں۔ یعنی مثال کے طور پر تین برس کی جو چیزیں مجھے یاد ہیں میں انہیں کیسے نکال سکتی ہوں۔ یا تیس برس کی عمر کی چیزیں۔ یاد نہیں نکلتی۔ یاد آپ کے ساتھ رہتی ہیں۔ اس کا رنگ چوکھا ہو سکتا ہے اس کا رنگ ہلکا ہو سکتا ہے۔

س۔ چاہے یادیں خوشگوار ہوں یا نا خوشگوار؟

ج دیکھیں نا خوشگوار یادیں بھی میری ہی ہیں۔ خوشگوار یادیں بھی میری ہی ہیں اور دونوں مجھے عزیز ہیں۔

س۔ موسیقی سے کتنی دلچسپی ہے آپ کو؟

ج۔ بے حد اس لئے کہ میرے والد نے اس کی تربیت کی تھی۔ ہمارے گھر میں اس زمانے میں گراموفون ہوتا تھا اور میرا جو کام تھا وہ یہ تھا کہ اس کو بہت نرم کپڑا ہوتا تھا پیلے رنگ کا اب بھی ہوتا ہے تو اس سے پالش کر کے رکھوں اور سوئی بدلوں اور اس میں چابی بھر دوں تا کہ ابا بھی سُنیں اور ان کے صدقے میں بھی سن لوں۔

س۔ اُس دور کی معروف اور نایاب آوازیں جو آج بھی آپ کے کانوں میں رس گھولتی ہوں؟

ج۔ دیکھئے اسی زمانے میں تو کملا جھریا کوسنتے تھے۔ ملکہ پکھراج سنتے تھے اور دیگر چیزیں سنتے تھے یہ میں آپ سے بات کر رہی ہوں 1954ء یا 1955ء کی۔ اس کے بعد بھی سنتی رہی ہوں غزلیں بھی سنیں مجھے تو وہ سلیم چشتی بھی جو ریڈیو پاکستان سے مثنوی پڑھتے تھے ترنم کے ساتھ مجھے وہ بھی بہت پسند ہیں۔ ایسی تو کئی ہیں بہزاد لکھنوی صاحب کی ہے ”اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے، منزل کے لئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے “یہ ہے اور بے مثال غزلیں ہیں۔ مثال کے طور پر آپ یہ سمجھیں کہ وہ ”چلی سمت غیب سے اک ہوا، کہ چمن ظہور کا جل گیا“ سراج اورنگ آبادی کی ڈھائی سو برس پرانی غزل ہے ”نہ جنوں رہا نہ پری رہی“ تو یہ ہے اور بے شمار غزلیں ہیں اور غالب ہے۔

س۔ سنا ہے کہ آپ کو کھانا پکانے میں بھی بڑی مہارت حاصل ہے اور خاص طور پر بہت لذیز دال بناتی ہیں؟ اسی طرح کیا یہ بات درست ہے کہ اگر آپ کسی الجھن کا شکار ہوں یا اداس ہوں تو برتن دھونا شروع کر دیتی ہیں؟

ج۔ بالکل صحیح ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کھانا پکانا بھی ایک بڑا محبت کا عمل ہے کھانا آپ ان کے لئے پکاتے ہیں کہ ایک تو یہ ہوتا ہے ناکہ ہانڈی جھونکنا ایک ہوتا ہے کھانا پکانا دونوں میں بنیادی فرق ہے کہ کھانا میں اپنے بچوں کے لئے پکاتی ہوں یا اپنے دوستوں کے لئے پکاتی ہوں تو اس میں مجھے بڑا لطف آتا ہے اور اس عمل سے اگر میں اداس ہوں اس اداسی میں کمی ہوتی ہے اگر میں کسی الجھن میں ہوں تو اس الجھن سے نکلنے میں مجھے مدد ملتی ہے اور برتن دھونا جو ہے وہ ایک بالکل تکنیکی عمل ہے اس میں آپ کوکچھ اور نہیں کرنا پڑتا صرف پانی، صابن اور برتن کا رشتہ ہوتا ہے تو آپ دھوتے چلے جائیں۔ میرا یہ خیال ہے کہ اداسی جوہے نا پھر اسی صابن اور پانی کے ساتھ بہہ جاتی ہے۔

س۔ آپ کے ہاتھ سے پکی لذیذ دال کا راز کیا ہے؟

ج۔ نہیں۔ اس میں کوئی سیکرٹ نہیں ہوتا بس اسے محبت سے چڑھا دیں۔

س۔ یعنی گھر کی مرغی دال برابر؟ آخر وہ دال ہے کون سی؟

ج۔ کچھ لوگ اسے پچ میل دال کہتے ہیں کچھ اسے کیوٹی کہتے ہیں۔ مجھے بہت پسند ہے مین بہت شوق سے پکاتی ہوں۔ میں آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں کہ اسلام آباد میں جب نیشنل بک فاؤنڈیشن کی اختتامی تقریب میں تجاویز لی جا رہی تھیں اگلے برس کے لئے تو میں نے کہا کہ حضور دو کام کیجیئے کہ ایک تو یہ کہ یہ جو آپ حلف نامہ لیتے ہیں کھڑا کر کے سب سے میں نے یہ کہا کہ اس کو پھاڑ کر پھینک دیجئے اس لئے کہ جنہیں کتاب سے محبت ہوتی ہے انہیں کسی حلف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہم نے چار برس کی عمر سے کتاب سے عشق کیا تو اس وقت کسی نے مجھ سے حلف نہیں لیا تھا۔ اور مجھے جو اکنی ملتی تھی اس کو بھی جمع کرتی تھی میں کہ کتابیں میں خرید سکوں اور دوسرا میں نے یہ کہا کہ خدا کے واسطے دال بھی پکا کر رکھ دیا کیجیئے یہ مرغیاں کھا کھا کے ہم تنگ آ گئے ہیں۔

س۔ زاہدہ آپا کوئی آخری بات جو آپ کہنا چاہتی ہوں؟

ج۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ دیکھئے اس وقت جو ہمارے ہاں میں جس وضع کی دہشت اور وحشت ہے تو اس سے ہم صرف سچی بات یہ ہے کہ اچھے خیال اور اچھی کتاب کے ذریعے لڑ سکتے ہیں۔ آپ یہ دیکھئے کہ وہ کیا بات تھی کہ 1952ء یا 1953ء میں منٹو کو نظر آرہا تھا کہ پاکستان میں کیا ہونے والا ہے اور وہ کراچی میں ہو رہا ہے۔ 2017ء میں ہمیں کیوں نہیں نظر آرہا ہمیں آج بھی کیوں نہیں نظر آ رہا کہ کل کیا ہونے والا ہے اس نے1953ء میں لکھا تھا کہ درہ خیبر سے جو طوفان امنڈنے والا ہے اس نے یہ لکھا تھا کہ چچا سام کے نام جو اس نے نو خطوط لکھے تھے اس میں اس نے لکھا ہے کہ چچا آپ قطعاَ پاکستانی فوج کواسلحہ نہ دیں آپ ملاؤں کو اسلحہ دیں وہ روس کو سویت یونین کو اپنا پاندان اٹھا کر یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیں گے۔ اور جو اس نے چیزیں لکھی ہیں وہ پڑھیں تو سہی۔ کم سے کم آج ہی پڑھ لیں اس وقت ہم نے نہیں پڑھا تھا۔ تو آج ہم پڑھ لیں اور ہم یہ دیکھیں کہ کس طرح ہم برباد ہو رہے ہیں دلدل میں پھنس چکے ہیں اور ہم نے خود کو دلدل میں پھنسایا ہے کسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے یعنی ہم جو یہود و ہنود کی سازش اور خدا جانے کیا کیا کہتے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے ہماری اپنی سازش ہمارے اپنے خلاف ہے۔۔۔

پہلا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں 

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz