طب کے لئے 2017ء کا  نوبیل پرائز اور ہماری داخلی گھڑی


جب ہم نارمن میں شفٹ ہوئے تو میری بیٹی نو سال کی تھی. ایک رات کو وہ مجھے ٹیکسٹ کرکے کہتی ہے کہ امی آپ جلدی سو جائیں تاکہ آپ میں گروتھ ہارمون نکلے اور آپ لمبی چوڑی اور مضبوط ہوجائیں۔ یہ سن کر میں بہت ہنسی تھی کہ یہ بات تو ایک اینڈوکرنالوجسٹ کے بچے کو ہی پتا ہوسکتی ہے کہ گروتھ ہارمون سوتے میں اور ورزش کرنے کے دوران نکلتا ہے۔ اینڈوکرنالوجی ہارمونز کی اسٹڈی سے متعلق ہے۔ سارے ہارمون ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ہر ایک کا الگ سائکل، ردھم اور مقصد ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ایک مضمون میں ذکر کیا تھا، کورٹیسول اور ٹیسٹاسٹیرون صبح سویرے زیادہ ہوتے ہیں اور جیسے جیسے دن ڈھلتا جائے وہ کم ہوتے جاتے ہیں۔ اس نظام کو سرکیڈین ردھم کہتے ہیں جو کہ لاطینی زبان سے نکلا ہے۔ سرکا کا مطلب ہے ارد گرد اور ڈین کا مطلب ہے دن۔

اس سال فزیالوجی کا نوبل پرائز تین امریکی سائنسدانوں نے جیتا ہے جن میں جیفری ہال، مائکل روزباش اور مائکل ینگ شامل ہیں۔ یہ نوبل پرائز ہماری اندرونی گھڑی کے نظام کو سمجھنے پر دیا گیا ہے۔ یہ دریافت اینڈوکرنالوجی کی فیلڈ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس سے زیابیطس، نیند کے مسائل اور دیگر سنجیدہ بیماریوں جیسے کہ کینسرز کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

جب میں اپنے بچوں کے ساتھ ہارورڈ کورس کے لئیے لندن گئی تھی تو نوید نے دو دن سو کر گذارے اور آدھی رات میں ٹی وی دیکھا۔ اس کو صبح اٹھا رہی تھی کہ اٹھو بیٹا آنکھیں کھولو، بستر چھوڑو اور منہ دھولو، دیکھو ہماری کھڑکی سے باہر تھیم دریا ہے۔ لندن ایک تاریخی شہر ہے جو دو ہزار سال پہلے رومنز نے بسایا۔ ساری دنیا لندن سے جڑی ہوئی ہے۔ ایک ہفتے میں ہم واپس چلے جائیں گے۔ ایسا اس لئیے ہوا کیونکہ لندن کا ٹائم اوکلاہوما کے ٹائم سے چھ گھنٹے آگے ہے یعنی اگر اوکلاہوما میں رات کے گیارہ بجے ہوں تو لندن میں صبح کے پانچ بجے ہوتے ہیں۔ اس بات پر کافی عرصے سے سائنسدانوں کے درمیان بحث چل رہی تھی کہ یہ سرکیڈین ردھم باہر کے ماحول کی وجہ سے ہے یا پھر اندرونی ہے۔ پھر کئی تجربوں سے یہ بات سمجھ لی گئی کہ باہر جو بھی حالات ہوں، ہمارے اندر بھی ایک ایسا سسٹم موجود ہے جو ہمیں اس ماحول کے لحاظ سے زندگی گذارنے میں مدد دیتا ہے۔ جیٹ لیگ کا سبب بھی یہ ہماری اندرونی گھڑی ہے۔

زمین پر جب کسی زندگی کے آثار تک نہیں تھے تب سے ہی وہ اپنے مرکز کے گرد اور سورج کے گرد ایک مدار میں گھوم رہی ہے۔ جب اس پر ابتدائی حیات نے خود کو تشکیل دی اور ارتقاء کے پروسس سے گذر کر مختلف انواع کے نباتات اور حیوانات میں بٹ گئی تو زمین پر پائی جانے والی زندگی کی ہر شکل نے زمین کی گردش اور دن رات کے لحاظ سے اس پر سروائو کرنے کے لئیے خود کو ایسے سانچے میں ڈھال لیا جس سے وہ اس کے فائدے حاصل کریں اور خطرے سے خود کو بچاسکیں۔ جیسا کہ صبح اٹھ کر شکار کرسکیں یا خود شکار بن جانے سے بچ پائیں اور رات میں آرام کریں۔ تمام جانداروں کے لیے تین چیزیں سب سے زیادہ اہم ہیں۔ ایک خوراک کی تلاش کرنا، دوسرا نسل بڑھانے کے لئیے ساتھی تلاش کرنا اور تیسرا خود کو خوراک بن جانے سے بچانا۔

سائنسدانوں نے مموسا پودے کا مشاہدہ کیا۔ مموسا پودے کے پتے صبح کے وقت کھلتے ہیں اور رات کے وقت بند ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ پودا گھپ اندھیرے میں رکھ دیا تو بھی کئی دن تک خود بخود اس کے پتے صبح کے وقت کھل جاتے اور رات میں بند ہوتے۔ بالکل ایسے ہی جیسے نوید لندن میں بھی اوکلاہوما کے ٹائم کے مطابق سویا اور جاگا۔ مموسا پودے کے مشاہدے سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تمام جانداروں کے اندر ایک حیاتیاتی گھڑی ہے جو ان کو زمین کی گردش کے ساتھ جوڑے رکھنے میں مدد کرتی ہے۔ پودے ایسا کرنا اس لئے سیکھ گئے تاکہ وہ سورج کی شعاعوں کی مدد سے اپنے لئیے خوراک بنا سکیں جس کو فوٹو سنتھیسس کہتے ہیں اور رات میں اپنا پانی بچا سکیں۔ سائنسدانوں نے فروٹ فلائی کے مشاہدے سے یہ دیکھا کہ کچھ مکھیاں ایسی تھیں جو باقی مکھیوں سے الگ مختلف اوقات میں سوتی جاگتی تھیں۔ ان مکھیوں کے ڈی این اے کا موازنہ نارمل مکھیوں کے ساتھ کیا گیا اور اس طرح انہوں نے ان جینز کو ڈھونڈا جن کی وجہ سے یہ اندرونی گھڑی کام کرتی ہے۔

اندرونی حیاتیاتی گھڑی دو جینز کے ذریعے کام کرتی ہے جن کو پیریڈ اور ٹائم لیس کہتے ہیں۔ یہ جینز ٹرانسکرپشن اور ٹرانسلیشن کے پروسس سے پیریڈ اور ٹائم لیس پروٹین بناتے ہیں۔ جب ان پروٹینز کا لیول ایک حد تک پہنچ جائے تو فیڈ بیک کے ذریعے مزید پروٹین بننا بند ہوجاتی ہے۔ جب لیول کم ہونا شروع ہو تو پھر سے بننا شروع ہوجاتی ہیں اس طرح یہ نظام 24 گھنٹے کے دائرے میں کام کرتا ہے۔ کلاک اور سائکل جینز بھی دریافت ہوئے جو کہ پیریڈ اور ٹائم لیس جینز کی ٹرانسکرپشن شروع کرتے ہیں۔ اس نظام کے ذریعے نیند، جسم کا درجہ حرارت، بلڈ پریشر، ہارمونز کا اخراج اور میٹابولزم کام کرتے ہیں جن پر انسانی صحت کا دارومدار ہے۔

مناسب نیند انسانی دماغ کے درستی سے کام کرنے کے لئیے نہایت اہم ہے۔ سرکیڈین ردھم کے بگڑ جانے سے ڈپریشن، بائی پولر ڈس آرڈر، یادداشت کی خرابی، کینسر، میٹابولزم کا بگڑنا اور انفلامیشن شامل ہیں۔ تین آدمی لیں۔ ایک کو کھانے کو نہ دیا جائے، دوسرے کو پانی نہ دیا جائے اور تیسرے کو سونے نہ دیا جائے تو تیسرا آدمی پہلے فوت ہوجائے گا۔ دنیا میں نہ سونے کا سب سے لمبا ریکارڈ 11 دن اور 25 منٹ کا ہے۔ رینڈی گارڈنر سان ڈیاگو میں ہائی اسکول اسٹوڈنٹ تھے جب انہوں نے یہ ریکارڈ بنایا۔ تیسرے دن تک ان کا دماغ اتنا خراب ہو گیا تھا کہ کھمبے سے بات کرنے لگے۔

فزیالوجی کے 2017 کے نوبل لاریٹس کی تمام زندگی کی محنت سے انسانوں کی معلومات میں اضافہ ہوا ہے اور اینڈوکرنالوجی کی فیلڈ میں سائنسی تحقیق پر مزید توجہ دی جارہی ہے جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).