میں ریاستی اشرافیہ پر فرد جرم عائد کرتا ہوں۔۔۔!


میں مسمی ملک عمید رحیم، قوم ککے زئی، سکنہ لاہور، حال مقیم امریکہ، ملک پاکستان کا شہری ہونے کے ناطے اس ملک پاکستان کی ریاست کے اہم ترین اداروں پر بیٹھے اعلی ترین عہدوں پہ فائز افراد نیز صاحب اقتدار اور حزب مخالف کے سیاستدانوں پر فرد جرم عائد کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے آپسی سیاسی اختلافات اور ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے، مخالف کو نیچا دکھانے اور وقتی سیاسی مفادات کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے خلاف اینٹی احمدی ہتھیار کو استعمال کیا جس سے انہوں نے سیاسی مفادات حاصل کئے یا نہیں مگر ملک میں انتشار اور تفریق کی نئی لہر چلانے میں یہ سب کامیاب ہوئے ہیں۔ اس سے ملک کی احمدی آبادی مزید غیر محفوظ ہوئی ہے۔ یہ دونوں قوتیں، یعنی صاحب اقتدار سیاسی اشرافیہ اور حصول اقتدار کی تگ و دو میں مصروف سیاسی قیادت اور غیر سیاسی عناصر، جس ہجوم کو ایک دوسرے سے سیاسی مقابلے کے لئے فی الوقت مقامی میڈیا کی مدد سے سوشل میڈیا کی محدود دنیا میں لڑا رہے ہیں وہ ہجوم کل گلیوں، بازاروں اور میدانوں میں بھی لڑے گا۔ افسوس یہ ہے کہ اس ہجوم کا سب سے پہلا شکار احمدی ہوں گے۔۔۔

یہ سلسلہ نیا نہیں ہے، اس تکلیف دہ راستے کے سفر کی وجہ سے ہم نے پہلے بھی کئی قیامتیں دیکھ رکھی ہیں۔ لاتعداد بلاتمیز اور بالتمیز قتل ہوتے دیکھے، اندھی اموات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس سے گزر کر ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔ آج جب ہم ہزاروں سربریدہ لاشوں کو پھاند کر اس مقام تک پہنچے ہیں تو خود کو ایک الٹے ہوئے ٹینکر پہ کھڑے پاتے ہیں جس کے بہتے ہوئے تیل پہ ایک ہجوم آگ کی اجارہ داری پہ گتھم گتھا ہے۔

اینٹی احمدی ہتھیار مذہبی ہتھیار نہیں ہے، یہ ایک سیاسی حربہ ہے۔ بالکل جیسے انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے اوائل میں اینٹی سیمائٹ ازم (یہود مخالف) ایک سیاسی حربہ تھا جسے نہ صرف حکومتیں اور ان کے مخالف بلکہ ممالک بھی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ اقلیتوں کو گالی بنا کر اور پھر اس نفرت انگیز گالی کو حریفوں پہ استعمال کرنے کی وجہ سے باہمی نفرت اس عروج پہ پہنچی کہ سب کچھ بھسم ہوگیا۔

یہاں بھی پہلے مرحلے میں قوانین بنا کر ریاست کے مسلم شہریوں کو غیر مسلم شہریوں سے پہلے ممتاز کیا گیا ہے۔۔۔ یہی سلسلہ اپنے منطقی انجام پر اقلیتوں کو گالی بنا دیتا ہے۔

میں اپنی فرد جرم میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں جس آئینی ترمیم کو احمدی مخالف قرار دیا جاتا ہے وہ دراصل ریاست کے تمام غیر مسلم شہریوں کی شہریت پر تازیانہ ہے۔۔۔

اپنی بات واضح کرنے کے لئے دوسری آئینی ترمیم کے الفاظ پیش کر رہا ہوں۔۔۔

’’ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،جو آخری نبی ہیں،کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں رکھتا یا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مفہوم میں یا کسی قسم کا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے ،وہ آئین یا قانون کے اغراض کے لیے مسلمان نہیں ہے۔‘‘

اس ترمیم پر اگر غور کیا جائے تو یہ ترمیم کہیں سے بھی احمدیوں کو غیر مسلم نہیں کہہ رہی بلکہ مسلمان کی تعریف کے دائرے کو مزید تنگ کر رہی ہے تاکہ پاکستان کے مسلم شہری کہ مزید واضح کیا جائے اور یوں شہریت کی بنیاد پر تمیز کی جو بنیاد آئین میں رکھی گئی ہے اسے مکمل کیا جاسکے۔ دیکھئے آخر ایک ریاست کے شہریوں کے مابین عمرانی معاہدے میں کسی خاص مذہبی گروہ کی تعریف کی ہی کیوں جائے؟ جب کہ یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ عمرانی معاہدہ ریاست کو مذہبی تشخص بھی فراہم کر رہا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ اسی مذہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی  واضح تعریف کر کے انہیں دوسرے شہریوں سے ممتاز بھی کر رہا ہے۔

دراصل آئین پاکستان ریاست میں مذہب کی بنا پر تمیز کرتا ہے۔ احمدی اس گرے ایریا میں مقیم گروہ تھا جو خود کو مسلمان ظاہر کر کے مسلم دائرے میں شامل ہو رہا تھا، ریاست نے اس دائرے کو مزید تنگ کر کے یہ ظاہر کر دیا کہ ملک کے اول درجے کے شہری کی تعریف کیا ہے اور جو شہری اس تعریف پر پورا نہیں اترتے وہ بھی دوسرے درجے کے شہریوں کی قطار میں کھڑے ہوجائیں۔ احمدی بہرحال اس عمل میں تیسرے درجے میں جا گرے اور مزید گرتے ہی چلے جارہے ہیں۔

مگر بات صرف یہیں تک نہیں رکتی۔ آئین پاکستان جس نظریاتی ریاست کا تصور پیش کرتا ہے وہ اول درجے کے شہریوں میں بھی تفریق کرتی ہے۔ بات اچھے مسلمان اور اس نظریاتی ریاست کے قریب تر مسلمان تک پہنچتی ہے۔ آئین میں رکھی ٹیڑھی اینٹیں غیر متوازن سماجی ڈھانچے کی تعمیر کرتی ہیں۔ جب آئین میں غیر مسلموں کو تفریق کا سامنا کرنا پڑے گا تو سماج میں ان کی حیثیت نہ صرف کمتر ہو جائے گی بلکہ ان کی حب الوطنی مشکوک اور سلامتی غیر محفوظ ہوجائے گی۔ ہم نے ستمبر 1974 کی آئینی ترمیم کا پھل اگلے 40 سال کھایا ہے۔

آج جب فوجی ترجمان ایک آئینی ترمیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے طوفان کے ہنگام کہتے ہیں کہ فوج ختم نبوت کی محافظ ہے تو اس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ ختم نبوت کے قوانین کو حکومت سے خطرہ ہے۔ اس تاثر کے نتیجے میں جو شدید ردعمل پیدا ہوا اس کا نتیجہ کیپٹن صفدر کی تقریر ہے جس کے بارے میں عوامی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں کہ یہ اعلی عسکری حلقوں پہ چوٹ تھی۔ ان کی دیکھا دیکھی تمام سیاسی قوتیں بھی اسی حربے کو زور و شور سے استعمال کر رہی ہیں۔ اس سے احمدیوں کا جو برا ہوگا، سو ہوگا، تمام سیاسی قوتوں کے مابین نفرت کی ایسی خلیج حائل ہوجائے گی جسے پاٹنا ناممکن ہوجائے گا۔ اس سے ملک کے اندھی کھائی میں گرنے کا شدید خطرہ ہے۔

میں ان امور کی نشاندہی کر کے ان سیاسی قوتوں پر اپنے فرد جرم کو مکمل کرتا ہوں۔ امید ہے کہ انہیں اپنے کئے کی سزا، ان کے جرائم کی بدولت ریاست کی تباہی سے پہلے ملے گی۔ کیوں کہ ریاست کی سلامتی اسی میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).