سیکولرازم آخر ہوتا کیا ہے؟


فرمایا
”سیکولرازم خواتین کو بے حجاب کرتا ہے، مرد وزن کے اختلاط کو فروغ دیتاہے اور سیکولرازم یہ ہے کہ نکاح کی ضرورت نہیں ہے“

بات یہ ہے کہ سیکولرازم صرف شہری کے حقوق کا دفاع کرتا ہے اور زندگی میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ شہری جس راہ پر ہیں، وہ راہ درست ہے یا غلط یہ سیکولرازم کا دردِ سر نہیں ہے۔ یہ صرف اہل مکالمہ کا میدان ہے۔ ہاں سیکولرازم مکالمے کے لیے برابری کی سطح پر اہل مکالمہ کو سہولیات فراہم کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یعنی سیکولر ازم کسی خاتون کو نہیں کہتا کہ حجاب ترک کردو۔ بلکہ وہ حجاب ترک کرنے والی خاتون کی مرضی کا تحفظ کرتا ہے۔ سیکولرازم کسی خاتون سے نہیں کہتا کہ حجاب لینا شروع کردو۔ بلکہ وہ حجاب لینے والی خاتون کی مرضی کا تحفظ کرتا ہے۔ عورت پہلے فیصلہ کرتی ہے پھر سیکولرازم آتا ہے۔ صرف اس لیے آتا ہے کہ اس خاتون شہری کے فیصلے کو مخالف نقطہ نظر رکھنے والوں کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے۔

عورت کا حجاب اتروانا اورعورت کو حجاب کروانا، یہ کام دونوں طرف کے مبلغین یعنی اہل مکالمہ کرتےہیں۔ یہ منصب بھی انہی کا ہے۔ سیکولرازم آپ کا یہ حق مانتا ہے کہ آپ بے حجاب خواتین کوحجاب کی ترغیب دیں۔ سیکولرازم آپ کے مخالف داعی کا بھی حق مانتا ہے کہ وہ باحجاب خواتین کو حجاب چھوڑنے پر قائل کرے۔ اب آپ دونوں میں سے کس کی بات درست ہے اور کس کی غلط، یہ فیصلہ سیکولرازم کرتا ہے اور نہ ہی کرے گا۔ یہ فیصلہ وہ خاتون شہری کرے گی جس کوآپ دونوں نے مخاطب کیا ہے۔ اب یہ جو فیصلے کا حق خاتون کو حاصل ہے، اس کا دفاع سیکولرازم کرتا ہے۔ وہ کیسے؟ جیسے بطور فرد آپ دونوں اپنی بات کہنے میں آزاد ہیں، اسی طرح بطور فرد وہ خاتون اس فیصلے میں آزاد ہے کہ وہ آپ دونوں کی بات سنتی ہے کہ نہیں سنتی۔ آپ دونوں میں سے کس کی بات سنتی ہے کس کی نہیں سنتی۔ سننے کے بعد آپ دونوں میں سے کس کی بات کو وہ اپنی عملی زندگی کا حصہ بناتی ہے اور کس کی بات کو عملی زندگی کا حصہ نہیں بناتی۔ آپ دونوں اس خاتون کو زبردستی اپنی بات سنا نہیں سکتے۔ آپ دونوں زبردستی اس خاتون سے بات منوابھی نہیں سکتے۔ اگر ایسا کریں گے تو یہ زندگی میں مداخلت ہوگی۔ سیکولرازم آپ دونوں کو اس مداخلت سے روکے گا اور خاتون کے فیصلے کو تحفظ فراہم کرے گا۔

آپ کے معاشرے کی خواتین اگر آپ کی بات مان لیتی ہیں تو یہ آپ کی جیت ہے۔ خواتین اگر مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کی بات مان لیتی ہیں تو یہ اس کی جیت ہے۔ شہری کو مخاطب کرنے والے آپ دونوں افراد اپنی ہار اور جیت کے خود ذمہ دارہیں۔ سیکولرریاست اہل مکالمہ میں سے کسی کی جیت کاسہرا اپنے سرباندھتی ہے اور نہ کسی کی ہار کی ذمہ داری اپنے سر لیتی ہے۔ ہاں آپ دونوں میں سے کسی ایک کو مکالمے کی زیادہ سہولیات میسر آئیں اور دوسرے کو کم، تو اس امتیازی رویے کے لیے سیکولرازم ریاست کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔ پاکستان کی روایتی گھرانے میں پلنے والی وینا ملک اپنے سر سے دوپٹہ سرکا دے یا لندن کے ساحلوں پر سن باتھ لینے والی یوآنے رڈلے حجاب اوڑھ لے، سیکولرازم کے لیے دونوں ریاست کے معزز شہری ہیں۔ خاتون کا نیم برہنہ یا پون برہنہ ہوجانا سیکولرازم میں فحاشی نہیں ہے۔ دو مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والوں کو بات کہنے کا یکساں حق نہ ملنا سیکولرازم میں فحاشی ہے۔ خاتون کی زندگی میں مداخلت کو اپنا حق تصور کرلیا جائے، یہ نری فحاشی ہے۔

حرف گیر واعظوں نے خواتین کو موضوع بحث بنایا تو مجھے بھی خواتین کو مثال میں رکھ کر بات کہنی پڑی ورنہ یہ بات دراصل زندگی کے ہر شعبے میں فرد اور اس کی آزادی سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی ٹھیک یہی معاملہ عقائد کا بھی ہے۔ کون سا عقیدہ درست ہے کون سا غلط، کون سا عقیدہ اختیار کرنا ہے اور کون سا ترک کرنا ہے، اس فیصلے کا حق سیکولرازم نے شہری کو دے رکھا ہے۔ اس لیے سیکولرازم تمام عقائد کے ماننے والوں کو دعوت اور مکالمے کی یکساں آزادی مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ ایک شہری ہے دو داعی ہیں۔ دونوں کو حق ہے کہ شہری سے اس کی رضامندی کے ساتھ بات کریں۔ اپنے اپنے عقائد کی طرف اس کو بلائیں۔ پھر شہری پر چھوڑدیں کہ وہ کس کی بات مانتا ہے کس کی مسترد کرتا ہے۔

مکالمے میں جو پسپا ہوجائے وہ اپنی پسپائی کا خود ذمہ دار ہے۔ اب اگر آپ مخالف داعی کومکالمے کے میدان میں پسپا کرنا چاہتے ہیں، تو سیکولرازم آپ سے تقاضا کرتا ہے کہ اسے دعوت کی طاقت سے پسپا کیجیے، ریاست کی طاقت سے نہیں۔ آپ کسی کے لیے کافر ہوں یا کوئی آپ کے لیے کافرہو، آپ کا کفر آپ جانیں سیکولرازم کے لیے تو دونوں ریاست کے معزز شہری ہیں۔ کیونکہ سیکولرازم کے سیاسی نظریے میں کسی شہری کا کسی عقیدے کو ترک یا اختیار کردینا کفر نہیں ہوتا۔ سیکولرازم کے سیاسی نظریے میں کسی عقیدے کے ماننے والے کو یہ دعوت اور مکالمے کا یکساں حق نہ ملنا کفر ہوتا ہے۔ شہری کو اپنی مرضی سے عقائد کے ترک اوراختیار کا حق نہ دیا جائے، یہ نرا کفر ہے۔

سیکولرازم معاشرے سے ایک مطالبہ کرتا ہے۔ آپ اپنی مذہبی تعلیمات پر اس لیے عمل مت کیجیے کہ ریاست آپ سے تقاضا کررہی ہے۔ بلکہ اس لیے عمل کیجیے کہ آپ کا مذہب آپ سے تقاضا کررہا ہے۔ بس اتنا دیکھ لیا کیجیے کہ کہیں دوسرے شہری کی ذات اور زندگی تو اس سے متاثر نہیں ہورہی؟ حضرتِ انسان کے احترام سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ میں، نہ میرے افکار و عقائد!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).