جڑواں ٹو سوپر ہٹ کیوں ہو گئی؟


“کافی اچھی فلم تھی بابا، ایموشنل سٹوری تھی مگر رونے والی نہیں تھی، دل سے جو فیلنگ آتی ہے نا ایموشنز کی، وہ تھی اس میں۔ ٹن ٹنا ٹن ٹن ٹن ٹارا بڑا زبردست گانا تھا۔ کاسٹیوم بڑے زبردست تھے خاص طور پہ وہ فریش مین لک جو ورون دھون کی تھی۔ میرے خیال میں یہ ایک فیملی کامیڈی فلم تھی۔ آخری سین بڑے مزے کا تھا، وہ جس میں سپیشل اپئیرنس ہوئی تھی (کس کی ہوئی تھی یہ دیکھنے والے نے جاننا ہے)۔ لوکیشنز بڑی پیاری تھیں اور جتنی بار بھی اس میں پیزا دکھایا، قسم سے کھانے کا دل کر رہا تھا۔ ورون کے سکس پیک بڑے زبردست تھے۔ ایکشن والے سین بہت اعلی تھے، فل تھرلنگ! بابا پلیز! اگر آپ نے ورون کی مووی کے اگینسٹ کچھ لکھا تو میں آپ سے ناراض ہو جاؤں گی۔”

یہ میری بیٹی آئلہ زینب نے کہا جو اپنی عمر مینشن نہیں کرنا چاہتی۔

“میرے خیال میں فلم ایسی ہونی چاہئیے جس میں وقت کے گزرنے کا احساس نہ ہو۔ یہ جذبات، کامیڈی اور رومانس کا ایک مکسچر تھی۔ فلم اگرچہ ری میک تھی لیکن دیکھنے والوں پر اچھا اثر ڈال رہی تھی۔ کیریکٹرز کے لیے اداکاروں کی سلیکشن بہت اچھی تھی۔”

یہ عظیمہ کی رائے تھی۔ وہ آئلہ کی ماں ہیں۔

آئلہ کے والد کا یہ سوچنا تھا کہ ڈیوڈ دھون ابھی تک گووندا سٹارر فلموں والے زمانے میں کھوئے ہوئے ہیں۔ انہیں اب واپس آ جانا چاہئیے۔ فلم کے شروع میں جتنی تیزی سے کہانی چلی بیسویں منٹ لگتا تھا کہ شاید اگلے پانچ منٹ میں یہ دونوں جڑواں بھائی بوڑھے ہوں گے اور مر جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، فلم آگے بڑھ گئی۔ اور یہ ایک افسوس ناک بات تھی۔ ہمیں وہاں دو گھنٹے بیس منٹ مزید بیٹھنا تھا۔

ایک مرتبہ فلم اپنے بہاؤ میں آ جائے تو اسے دیکھنا آسان کام ہوتا ہے۔ شروع کا آدھا گھنٹہ اگر آپ ٹارچر برداشت کر سکتے ہیں تو بیٹھ جائیے، آگے اللہ بہتری کرے گا۔ کہیں نہ کہیں ہنسی بھی آ جائے گی اور کچھ لڑائی بھڑائی والے سین بھی اچھے لگ سکتے ہیں۔

اس فلم کی سب سے بہترین بات ٹاپسی پنوں ہیں۔ پے کے اوپر زبر ڈال کر پڑھیں گے تو ٹھیک تلفظ سے پڑھا جائے گا۔ وہ ساوتھ انڈین اداکار ہیں۔ پہلی فلم کے بعد ہی انہیں ہندی سینیما میں جگہ مل چکی تھی، فلم “پنک” میں امیتابھ کے ساتھ کام کیا اور خود کو منوا لیا۔ ٹاپسی کلاسیکل رقص سیکھی ہوئی ہیں، تھیٹر کر چکی ہیں، ماڈلنگ بھی کی، برانڈ ایمبیسیڈر رہیں اور اچھی خاصی پڑھی لکھی ہیروئین ہیں۔ سافٹ وئیر انجنئیرنگ کی ڈگری رکھنے  والی ٹاپسی پنوں اس فلم میں ورن دھون کے ساتھ ایکدم فٹ کیمیسٹری میں نظر آئیں جب کہ جیکولین کینیڈی ورن کی چچی لگ رہی تھیں۔ ایک بالکل نوجوان سا لڑکا ہے اور اس کے ساتھ جیکولین کو ہیروئین بنا دینا کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ عالیہ بھٹ ایک بہترین چوائس ہو سکتی تھیں لیکن وہ شاید آؤٹ آف بجٹ ہو جاتیں اور یا سکرپٹ دیکھ کے انکار بھی کر سکتی تھیں۔ ٹاپسی بہرحال اینٹری سے لے کے آخری سین تک بھرپور رنگ جمائے رہیں۔ کیا ڈانس، کیا کامیڈی، بہترین اداکاری دیکھنے میں آئی۔ ٹاپسی پیرلل سینیما کے لیے بھی اچھی چوائس ہو سکتی ہیں۔ بڑے ہو کر شاید وہ تبو بن جائیں۔

ورن نے دو کردار نبھائے۔ راجہ کے رول میں جیکولن ان کی ہیروئین تھیں۔ اس رول میں ورن بہت جگہ اوور ایکٹنگ کا شکار نظر آئے۔ دوسرا کردار لندن کے جم پل پریم کا تھا۔ اس میں زبردست ایکٹنگ کی گئی۔ پریم کا وارڈروب بھی عمدہ رہا۔ ورن بہت پوری انرجی کے ساتھ ڈانس کرتے ہیں، بلکہ جس طرح گووندا مسکرا مسکرا کے ڈانس انجوائے کرتے ہوئے کیا کرتے تھے وہی تاثرات ورن کی باڈی لینگوئج میں بھی نظر آتے ہیں۔

انوپم کھیر اس طرح کے رولز بچپن سے کرتے آ رہے ہیں۔ اس فلم میں بھی وہ جیکولین کے والد بنے اور ویسے ہی والد جیسے وہ صدیوں پہلے پوجا بھٹ کے بنا کرتے تھے۔

فائٹنگ سینز میں چھوڑو پن انتہا کا ہے لیکن میٹریکس کے بعد اب ہر چیز حلال ہو چکی ہے چاہے ہیرو اپنے دوست کے ساتھ انیسویں منزل سے شیشہ توڑ کے جمپ لگائے اور نیچے گرنے پر صرف کپڑے خراب ہوئے ہوں۔

جونی لیور انڈین کامیڈی کے سلطان راہی بن چکے ہیں۔ چھ سو پینتیس فلمیں ایک ہی طرح کی مزاحیہ اداکاری سے بھگتا چکے ہیں، بندہ پک جاتا ہے یار، بس کر دو بس!

ڈاکٹر للا اور شرافت علی جاندار رول تھے، انہیں زیادہ وقت دیا جا سکتا تھا، کامیڈی مزید جاندار ہو سکتی تھی۔

فلم کے وہ دونوں گانے جو پرانی جڑواں کے ریمکس ہیں، وہ زبردست کیچی قسم کے ثابت ہوئے۔ گاڑی میں اونچا میوزک سننے والوں کے لیے تحفہ ہوں گے!

کہانی، پلاٹ، فلم نگاری ۔۔۔ ان سب کے بجائے ڈائیلاگز ملتے ہیں۔ پلاٹ پہلے پندرہ اور آخری دس منٹ میں نظر آتا ہے۔

سولہویں دن ایک سو پچیس کروڑ کا بزنس کر لینے والی یہ فلم IMDB پر صرف چار اعشاریہ تین کا سکور رکھتی ہے۔ یعنی ہر دس میں سے چار لوگوں نے اسے پسند کیا۔ اس کے باوجود اس کا باکس آفس رش یہ بتا رہا ہے کہ اس سال کی سب سے زیادہ چلنے والی فلموں میں سے ایک یہ ہو گی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ وہ ہے جو آئلہ نے شروع کی چار لائنوں میں بتائی تھی۔ ہم جو مرضی بقراط پنا کرتے رہیں فلم بنانے والا اپنا ٹارگٹ آڈئنس جانتا ہے۔ جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کو سیاسی پنڈت لاکھ بے وقوف کہتے رہے لیکن وہ اپنا ٹارگٹ ووٹر جانتا تھا عین ویسے ہی ورون دھون جانتے ہیں کہ عوام کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ٹو ہیل ود دا سٹوری، دے نیڈ لافٹر! وہ ہنسنا چاہتے ہیں اور ہنسی کا سامان فلم میں اچھا خاصا موجود تھا۔ وہ ہاٹ ہیروئین دیکھنا چاہتے ہیں، جیکیولین اور ٹاپسی دونوں مکمل گلیمرس لڑکیاں نظر آئیں۔ وہ ایکشن دیکھنا چاہتے ہیں، بھرپور مار کٹائی موجود تھی۔ ان کا ہیرو سکس پیک والا ہوتا ہے، وہ ورن دھون موجود تھا۔ ان کو ایک سکھ کردار اچھا لگتا ہے، وہ پولیس والے (پون ملہوترا) کی شکل میں موجود تھا۔ باقی کسر راجپال یادو پوری کرتے دکھائی دیتے رہے۔ تو کل ملا کر یہ ایک فارمولا فلم تھی جو اپنی سازش میں کامیاب رہی اور ہٹ ہو گئی۔

اخلاقی نتیجہ؛ فلم ننانوے اعشاریہ نو فیصد لوگوں کے لیے بنتی ہے، صرف پوائنٹ ون پرسنٹ انٹرنیٹ پہ رینکنگ کرتے ہیں!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain