فاٹا اصلاحات کے لیے ریفرنڈم کے مطالبے کا پس منظر


پاکستان میں کچھ ایسے علاقے موجود ہیں جہاں اگر آج لوگوں سے پوچھا جائے کہ خواتین کو ووٹ استعمال کرنے کا حق ہونا چاہیے یا نہیں، تو ان میں سے 90 فیصد لوگوں کا جواب نفی میں ہوگا۔

اس ملک ایسے علاقے بھی ہیں جہاں لوگ بدترین مقامی استبدادیت کے تحت زندگی گزاررہے ہیں۔ نواب، سردار اور جاگیردار ان کے رزق، عزت اور یہاں تک کے زندگی کے بلاشرکت غیرے مالک بنے رہتے ہیں لیکن اگر آپ ایسے علاقے کے لوگوں سے سوال کریں کہ وہ اس نظام کو جاری رکھناچاہتے ہیں یا اس کاخاتمہ چاہتے ہیں تو مختلف ذہنی کیفیتوں، سماجی موثرات اور ذاتی مجبوریوں کی بنیاد پر ان کی غالب اکثریت اس جاری نظام کے حق میں ہی رائے دیں گے۔

اس ملک میں ایسے جزیرے بھی آباد ہیں جہاں پر آج بھی لوگوں کی واضح اکثریت بچیوں کی تعلیم کو سوفیصد نقصان دہ، ناجائز اور یہاں تک کہ بے غیرتی سمجھتے ہیں پھر ان میں سے کچھ کم ایسے بھی ہیں جو جنس کے فرق کیے بغیر تعلیم کو مرد و عورت دونوں کے لیے ہی زہر سمجھتے ہیں۔

دنیا کے جن حصوں میں جہالت پر مبنی غیر انسانی رسوم پائے جاتے ہیں ان تمام رسوم و رواج کو لوکل آبادی کی بھرپور معاشرتی تائید اور سماجی قبولیت حاصل رہتی ہے۔ اور مقامی لوگ ان رسوم کی اصلاح اور خاتمے کی ہر کوشش کو پورے خلوص دل کے ساتھ اپنے غیرت وحمیت اور اقدار وروایات کے خلاف گھناونی سازش سمجھتے ہیں۔

جب کوئی علاقہ غیرقانونی اسلحہ سازی، منشیات کی تیاری و ترسیل، جعلی نوٹوں سے لے کر جعلی شناختی کارڈوں کی تیاری اور دوسرے جرائم کا باقاعدہ اڈہ بن جاتاہے تو یہ سب کچھ وہاں جرم سمجھ کر نہیں کیا جاتا، مقامی آبادی کے لیے جرم کی صنعت کاروبار کا ایک جائز بلکہ ” ناگزیر ” ذریعہ بن جاتا ہے اور اس سلسلے میں ایک ضابطہ اخلاق اور سوشل کنٹریکٹ بھی متعارف ہوتا ہے۔

اس طرح کی درجنوں مثالیں اور بھی ہیں۔

اب کہنا یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کی ذہنیت کے مطابق کیا واقعی بھی یہ سمجھاجائے گا کہ ایک علاقے میں واقعی خواتین کو حق رائے دہی سے محروم رکھنا واقعی بھی درست کیونکہ وہاں کے لوگ یہی سمجھتے ہیں؟ کیا یہ سمجھنا صحیح ہوگا کہ کچھ لوگوں کو واقعی نوابوں اور سرداروں کی شکنجے میں ہی رہنے دیناچاہیے کیونکہ وہ لوگ خود بھی یہی چاہتے ہیں؟ کچھ علاقوں میں واقعی بھی تعلیم کو نقصان دہ چیز سمجھناچاہیے کیونکہ ان علاقوں کے لوگوں کی یہی رائے ہے؟ وحشیانہ رسوم کو کہیں بھی محض اس لیے نہیں چھیڑناچاہیے کیونکہ متعلقہ لوگ صدیوں سے انہیں نباہ رہے ہیں؟ جرایم پر اس وجہ سے چشم پوشی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ ان کا قلع قمع کرنے کی کوشش کو اہل علاقہ اپنی اس ” آزادی ” میں مداخلت سمجھیں گے جو انہیں دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے؟

اس تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوے اب فاٹا کے حوالے سے ریفرنڈم کے معصومانہ اور بے ضرر قسم کے مطالبے پر غور کریں۔ فاٹا ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ ہوا کہ اپنی قبائلی سرکاری اور مذہبی / سیاسی ضروریات کے لیے بالترتیب ملکان، پولٹیکل ایجنٹ اور علماء کرام کی تکون کا دست نگر ہے۔ یہ دونوں طبقے فاٹا پر مسلط موجودہ نظام سے مستفید ہونے والے اور اس سے منفعت کشید کرنے والے طبقات ہیں، فاٹا کے عوام آج اپنے گردن سے زنجیر اتارنے کے سوال کا جواب جاننے کے لیے اسی طرح انہی تین طبقات کے جانب دیکھیں گے جس طرح سرداری نظام کا مارا ہوا ایک شخص سرداری نظام کی افادیت اور نقصان کے بارے میں درست جواب سردار اور نواب سے ہی سیکھنا چاہتا ہے۔

فاٹا کے بارے میں ریفرنڈم کی مطالبے کا ایک بنیاد تو یہی ہے کہ یہ ناممکن العمل مطالبہ اصلاحات کے سلسلے کو ٹھپ کرکے رکھے گا۔

اور بصورت امکان اگر کبھی ریفرنڈم کا معجزہ واقع ہوابھی تو ظاہر ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں، صحافیوں، دانشوروں وکلا کو چھوڑ کر عام قبائلی تو وہی رائے دے گا جو مندرجہ بالا تین بینیفیشریز کے مفاد کا تقاضہ ہوگا اور ان تین طبقات میں سے کوئی بھی طبقہ کیونکر اس بات کا آرزومند ہوگا کہ ایک وسیع جغرافیے میں آباد لاکھوں انسانوں پر ان کی قدرت واقتدار کا خاتمہ ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر فاٹا کا عام قبائلی قانون و آئین کے دائرے میں آنے کے حق میں فیصلہ دیتا ہے تو ان کے اوپر سے چند مخصوص طبقات کے تسلط کو ختم کرنا ضروری ہوگا لیکن اگر فاٹا کے لوگ اس ظالمانہ تسلط کو جاری رکھنے کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس ظالمانہ تسلط کا خاتمہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).