تھپڑ اور تھپیڑے


ایک مرد کے حکم کے آگے گردن نفی میں ہلانے کی سزا مجھے پہلی بار نو برس کی عمر میں دی گئی۔ جب گھر کے سامنے واقع مدرسے کے باریش اور نورانی چہرے والے مولوی صاحب نے، ٹھنڈے یخ پانی سے بھرا کانچ کا گلاس تھامتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑلیا، شہادت کی انگلی سے میری ٹھوڑی ذرا اونچی کی اور عقیدت بھری نظریں میرے گول چہرے پر جماتے ہوئے حکم صادر کیا یہ گلاس اوپری منزل کے ایک کونے میں بنے ان کے کمرے میں رکھ کر آؤں۔ میں نے ایک نگاہ مولوی صاحب کے مسکراتے چہرے پر ڈالی اور گردن موڑ کر اوپر جانے والی ان گول گھومتی سیڑھیوں کو دیکھتی رہی جس کا دہانہ ایک ویران چھت پر کھلتا تھا۔ خوف کے ناگ نے دل میں اپنا پھن پھیلایا اور میکانکی انداز میں، میری گردن تیزی سے نفی میں ہلنے لگی۔ حکم عدولی کی سزا میں زور دار تھپڑ میرے گال پر مار کے اس کا رنگ تبدیل کر دیا گیا۔ آج بھی کبھی آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر اس واقعے کا سوچتی ہوں تو اس تھپڑ کی جلن اپنے گال پر محسوس کرتی ہوں۔ اس واقعے کے نفسیاتی اثر کے طور پر، آج بھی سخت گرم موسم میں ٹھنڈا یخ پانی میرے حلق سے نہیں اترتا، شہرِ کراچی کے کسی پرانے علاقے سے گزرتے ہوئے کہیں گول زینہ نظر آجائے تو دل کی دھڑکنوں کا شور بڑھ جاتا ہے اور باریش مولویوں سے اپنے بچوں کو ایک خاص فاصلے پر رکھ کے، ان کو محفوظ ترین خیال کرتی ہوں۔

بچپن ذرا سا بالغ ہوا تو بھائی کے زناٹے دار تھپڑ نے اس کی نمو یہیں روک دی اور سوالوں پر پہرہ بٹھا دیا۔ مجھے آج تک اس سوال میں ایسی کوئی عیب نظر نہیں آیا جس پر مجھے بھرے مجمع میں تھپڑ سے نواز کر گھر کا راستہ دکھایا جاتا۔ بقر عید کی آمد میں دو دن باقی تھے۔ تقریباً سب ہی گھروں میں جانور لائے جا چکے تھے۔ میں بھی باقی بچوں کی طرح بھوک پیاس بھلائے، صبح شام کی قید سے آزاد جانوروں کو کھلانے پلانے اور پیار کرنے کا شوق پورا کرنے میں محو تھی۔ اس رات ایک نر جانور اپنے منہ زور جنسی جذبے کے تحت مادہ جانور کو راغب کرنے کے حربے آزما رہا تھا ور رسی توڑنے کے سارے جتن کر رہا تھا جس پر آس پاس کھڑے مرد ایک دوسری کو آنکھ اور کہنیاں مارتے ہوئے بے ہنگم قہقہے بلند کر رہے تھے، میں ذرا آگے بڑھی اور مجمعے کا حصہ بنے اپنے بڑے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر ان سے نر جانور کی اس حرکت کی وجہ دریافت کر بیٹھی۔ جانوروں کے اس عمل پر خالص مردانہ ردِعمل آیا اور چار انگلیوں کے نشان میرے گال پر پر چھوڑ گیا۔ ردِعمل یہیں رکا نہیں بلکہ مجھے ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے گھر کے دروازے کے اندر دھکیل دیا گیا۔ اس دن کے بعد سہیلیوں کے ساتھ باہر کھیلنے پر بھی قدغن عائد کر دی گئی۔ اس کے بعد میرا کھیل فقط اتنا رہ گیا کہ شام کا سارا وقت دروازے کی جالیوں سے اپنی سہیلیوں کو کھیلتے دیکھتی اور چوری چوری مسکراتی۔

ایک مرد کا تیسرا تھپڑ جو آج تک میری روح کو سلگاتا ہے وہ برقع پہننے کے حکم سے انکار پر سولہ سال کی عمر میں ابا جان کی طرف سے ملنے والا والا اعزاز تھا، اس انکار پر میں پل بھر میں اپنی سے پرائی، عزت دار سے بے عزت اور شریف سے آوارہ قرار پائی۔ اباجان کی عزت میرے برقع میں تھی۔ لہٰذا لڑکیوں کو سیاہ لبادے میں زندہ دفن کر دینے کی رسم کے خاتمے پر میرے گھر میں کئی روز تک ماتم منایا گیا، میری نہ کو ناقابل معافی جرم کے زمرے میں ڈال کر گھر سے باہر قدم رکھنے پہ پابندی عائد کر دی گئی۔ لیکن میری نہ، ہاں میں تبدیل نہیں ہو سکی۔ چھوٹی عمر میں میری بڑی ’’بے غیرتی‘‘، خاندان کے عزت داروں سے ہضم نہ ہو رہی تھی۔ بالآخر مردوں کا سماج جیتا اور کم زور ناری ہار گئی۔ صدیوں کی خاندانی روایتوں کے آگے سولہ سالہ بغاوت فتح یاب نہ ہو سکی ہوئی۔ کالج میں پڑھنے کے جنون اور علم کی لگن نے میری سرکشی کو مات دے دی۔ کتابوں سے عشق نے مجھے خالص روایتی برقعے میں قید کردیا۔ یوں میں اپنے خاندان کے مردوں کا دین مکمل کرنے کا باعث بنی اور دوبارہ عزت دار، شریف اور چہیتی قرار پائی۔

وقت کے تیزی سے گزرنے کا مجھے احساس اس طرح ہوا کہ ایک تھپڑ کی حدت کم نہیں ہوتی تھی کہ دوسرے کا وقت آن پہنچتا تھا۔ اب کی بار تو میرا جرم ایسا تھا کہ اگر معاف کردیا جاتا تو قیامت والے دن سات پشتوں کے عزت دار مرحومین سات نسلوں کو نہیں بخشتے۔ اس بار تھپڑ جَڑنے کا فریضہ ابامیاں کے عدم سدھارنے کی وجہ سے چچا جان نے انجام دیا۔ خاندان کے لڑکے جو جرأت نہ کر سکے وہ میں کر بیٹھی تھی۔ ان کی پسند کے رشتے سے انکار! گردن ایک بار پھر نتائج سے بے پروا، نفی میں ہلتی ہی چلی جا رہی تھی۔ گھر کی دہلیز کے اندر گزرے ہوئے ماہ و سال کا ایک ایک پل اپنی خوشیوں کو بیچ کر خاندان کا وقار خریدا۔ اب یہ فیصلہ تو مجھے کسی بھی صورت قبول ہی نہیں۔ بند دروازے کے پیچھے تن کر کھڑی، وحشت زدہ اونچی دیواروں کے درمیان تھپڑ، گالیاں، اور خود کو بچاتا میرا کم زور نسوانی وجود۔ وہ دن بھی گزر ہی گیا۔ روح کے زخم تو آج تک نہیں بھرے البتہ جسم کے زخم چند دنوں میں مندمل ہو گئے۔ میرے ماتھے پر لگے داغوں میں ایک اور داغ کا اضافہ ہوا۔ یوں باغی بن کر سب سے زیادہ اذیت میں نے خود اٹھائی۔

سرخ پھولوں سے سجی سفید رنگ کی گاڑی میں اپنی پسند کے جیون ساتھی کے ساتھ مجھے رخصت کرکے خاندان کے مردوں نے ایسے سکھ کا سانس لیا گویا طاعون کی وبا سے نجات پائی ہو۔ اس دن مجھے بھی اپنی زندگی سرخ پھولوں کی طرح ملائم اور سفید گاڑی جیسی اجلی دکھائی دے رہی تھی۔ قدم قدم پر مردوں کی طرف سے نا انصافیوں اور جبر کا شکار ہو کر میں نے ساتھ بیٹھے ایک اجنبی پر یک دم اتنا اعتبار کرلیا، بعد کے سالوں میں بس اسی ایک لمحے کو کوستی رہی۔ شادی کے محض پندرہ دن بعد ہی جب زور دار تھپڑ میرے گال پر پڑا تو بھیگی آنکھوں کے ساتھ، کتنی ہی دیر تک، بے یقینی کی کیفیت میں اپنے محبوب شوہر کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ایک پڑھے لکھے، مہذب دکھائی دینے والے شوہر کی جگہ صرف ایک مرد تھا۔ مولوی صاحب، بھائی، اباجان اور چچا کے تھپڑوں کو پیچھے چھوڑ کر تو آگئی لیکن آگے کا سارا سفر نئی اذیتوں کی رفاقت میں طے کرنا تھا! دو سال، چار سال، سات سال، آٹھ سال۔ قیامت جیسے پل، تیزی سے کلینڈر کے سال بدلتے ہوئے، تین پھول میری گود میں ڈال گئے۔ تھپڑوں کا سلسلہ دراز اور میرا ضبط جواب دیتا جا رہا تھا۔ میرے اندر کی باغی دوسرا جنم لینے لگی۔ ایک مرد کے سامنے گردن نفی میں ہلانے کا وقت پھر سے آگیا تھا۔ ایک دن اچانک خود پر برستے ہاتھ کو روکا، سامنے والے کی سلگتی آنکھوں میں اپنی دہکتی آنکھیں ڈالیں، گردن نفی میں ہلائی اور پلٹ کر زور دار وار کیا۔

یوں اللہ کے فضل و کرم سے میں ایک بار پھر مردوں کے معاشرے کی بدچلن اور آوارہ عورت قرار پائی، جس پر مہر ثبت کرتے ہوئے طلاق نامہ تھما کر، بچوں کے ساتھ واپس اسی گھر کی راہ دکھائی گئی جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔
اتنا کہہ کر وہ چُپ ہوگئی، لیکن اس کی آنکھیں مسلسل بول رہی تھیں، لفظ رخساروں پر بہہ رہے تھے، اور میں سوچ رہی تھی کہ کیا یہ صرف اُس کی کہانی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).