عزیزو، جمہوریت کے نام پر دھمکی قبول نہیں


آج سولہ اکتوبر ہے۔ آج کے دن ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا۔ یہ پاکستان میں سیاسی قیادت کے بے دست و پا ہونے کا دن ہے۔ 66 برس قبل پیش آنے والے اس سانحہ عظیم میں غیر سیاسی افسر شاہی اور غیر جمہوری رویے رکھنے والے سیاسی عناصر کا ہاتھ تھا۔ ہمیں خبر ہے عزیزو، یہ کام کس کا ہے…. ملک کا مقبول وزیر اعظم راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کرنے آیا تو سٹیج پر صرف راولپنڈی مسلم لیگ کے صدر مسعود صادق تشریف فرما تھے۔ پنجاب کے وزیر اعلی ممتاز دولتانہ نے وزیر اعظم کے جلسے میں شریک ہونا ضروری نہیں سمجھا۔ وفاقی وزیرغلام محمد پنڈی میں تھے اور جلسہ گاہ میں نہیں آئے۔ مشتاق گورمانی جلسہ گاہ کے دروازے میں داخل ہوئے تو وزیر اعظم کا جسد خاکی ایمبولینس میں رکھ کے باہر لایا جا رہا تھا۔ موقع پر پولیس کا اعلی ترین اہلکار ایس پی نجف خان تھا۔ قاتل کے گھر سے روز نامہ نوائے وقت اور روز نامہ تعمیر کے اداریے برآمد ہوئے، جن میں بیگم رعنا لیاقت خان کی بے پردگی پر زبان طعن دراز کی گئی تھی۔ ہم نے سن رکھا ہے کہ سیاست دان کرپٹ، چور اور لٹیرے ہوتے ہیں۔ لیاقت علی خان کی مالی دیانت کی گواہی پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر سری پرکاش نے دی تھی۔ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے بیگم رعنا لیاقت سے کہا کہ پنڈت نہرو نوابزادہ لیاقت صاحب کی جائیداد کے بارے میں دوڑ دھوپ کر رہے ہیں تاکہ اسے متروکہ املاک قرار نہ دیا جائے لیکن وزیر اعظم لیاقت تو اس معاملے پر بات ہی نہیں کرتے۔ یاد رہے کہ صرف دلی کی کوٹھی گل رعنا کی مالیت کروڑوں روپے تھی۔ بیگم صاحبہ نے فرمایا، ’سری پرکاش، آپ تو وزیر اعظم صاحب کو جانتے ہیں، وہ ذاتی جائیداد میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے‘۔ لیاقت علی خان کا سیاسی محضر غلطیوں سے خالی نہیں۔ انسان فرشتے نہیں ہوتے۔ مگر یہ کہ لیاقت علی خان کی حب الوطنی، سیاسی بصیرت اور مالی دیانت میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ جن روزوں درویش ہوئے ہم، پاس ہمارے دولت تھی…. لیاقت علی خان کی شہادت سے ہم طالع آزما بالشتیوں کی چیرہ دستیوں کا نشانہ بن گئے۔ آج سولہ اکتوبر ہے۔ کبوتر غرق خوں دیوار صغری پہ جو آ بیٹھا، پکاری ان دنوں، لوگو، میرے بابا وطن میں تھے….

1953ء میں خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرتے ہوئے ملک غلام محمد نے انہیں نااہل اور بدعنوان قرار دیا تھا۔ آج مڑ کر دیکھیے اور سوچیے کہ حقیقی نااہل اور بدعنوان کون تھا؟ غلام محمد نے ہمیں ٹیکنو کریٹ حکومت کا نسخہ عطا کیا تھا۔ آج تریسٹھ برس بعد فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ٹیکنوکریٹ حکومت کی افواہ کو مسترد کیا ہے۔ دوستو، قافلہ درد کا اب کیا ہو گا۔ برادر بزرگ ایاز امیر نے تو ٹیکنو کریٹ حکومت کے لیے ہیرے، موتی اور مونگے کی لڑیاں بھی نامزد کر دیں۔ یہ بھی بتا دیا کہ ٹیکنو کریٹ حکومت کے فوری اقدامات کیا ہونے چاہئیں۔ قبلہ گاہی سرسری سماعت اور فوری انصاف کی تمنا پالے بیٹھے ہیں۔ اکتوبر 1995ءمیں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خلاف بغاوت کی ایک سازش پکڑی گئی تھی۔ ملزموں سے ڈیرہ اسمعیل خان کے ایک مولوی عبدالقادر ڈیروی صاحب کی لکھی ہوئی ایک تقریر کا مسودہ بھی برآمد ہوا تھا۔ برادر بزرگ نے دو دہائی بعد اپنے مقام سے فروتر موقف قائم کر کے عبدالقادر ڈیروی کی یاد تازہ کر دی۔ محبوب خزاں اب ہم میں نہیں رہے۔ حیات ہوتے تو انہوں نے اپنے دھیمے لہجے میں کہا ہوتا، رنج اس کا ہے کہ ہم نے تمہیں جانا کیسا….

ملال یہ ہے کہ ہم نے ہر کھیت میں حادثے بو رکھے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اچھی بات بھی کہی جاتی ہے تو…. لرزتا ہے میرا دل زحمت مہر درخشاں پر۔ میجر جنرل آصف غفور نے وزیر داخلہ احسن اقبال کے لیے عزت مآب کا لفظ ادا کیا تو واللہ دل میں ٹھنڈک اتر گئی۔ مشکل یہ ہے کہ زوال ہوش کے عالم میں بھی خرد کے چند ذرے ذہن میں بیدار رہتے ہیں۔ 1977ءکے موسم گرما میں مسلح افواج کے سربراہان نے ذوالفقار علی بھٹو کی آئینی طور پہ قائم حکومت کی حمایت میں مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔ اور پھر پانچ جولائی 1977ء کو ایسی برسات ہوئی کہ وفاداری کے سب بیان دھل گئے۔ ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان کا وہ خط البتہ محفوظ رہا جو سیاست دانوں کی طرف سے فوج کو مداخلت کی دعوت کا دستاویزی ثبوت ہے اور چار دہائیوں سے ہمارے گلے میں طوق کی طرح لٹک رہا ہے۔ پروفیسر غفور احمد مرحوم و مغفور فرمایا کرتے تھے کہ اصغر خان نے یہ خط لکھتے ہوئے پاکستان قومی اتحاد کی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ پروفیسر عبدالغفور بہت دیانت دار اور مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ایسے خط لکھنے کے لیے سیاسی قیادت پر نہیں، کسی اور پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ یہ تو حادثہ رونما ہونے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ کیپٹن صفدر کے فرمودات میں تاکید کا توازن بگڑ گیا یا موقف کے بیج میں سنڈی موجود تھی۔ محترم آصف کرمانی نے میاں نواز شریف کی طرف سے ایک نپا تلا اور صائب بیان جاری کیا ہے مگر سچ یہ ہے کہ کیپٹن صفدر کی تقریر نے جمہور کے پرچم کو گریبان کی دھجی میں بدل دیا ہے۔ مشکل ایک طرف سے تو نہیں آتی، یورش باد واپسیں مجھ پہ چہار سو سے ہے…. اسمبلی کا اسپیکر صرف ایوان کا کسٹوڈین نہیں، جمہور کے اعتماد کا رکھوالا بھی ہے۔ آغا سراج درانی تو علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے وسیع سیاسی تجربے سے انکار نہیں، جب ووٹ کے احترام کی بات کی جاتی ہے تو محض کاغذ کے ایک ٹکڑے کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ پولنگ باکس میں کاغذ کا یہ ٹکڑا ڈالنے والا ہاتھ حقیقی احترام کا حق دار ہے۔ بھٹو نے کہا تھا “میں ہر اس گھر میں رہتا ہوں جس کی چھت برسات میں ٹپکتی ہے”۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے ووٹ دینے والوں کی عزت کے لیے لڑتے ہوئے جان گنوائی تھی۔ آغا سراج درانی ووٹ کے بارے میں بدکلامی کرتے ہیں، اور ایسے نازیبا لفظ ادا کرتے ہیں جنہیں اخبار میں شائع نہیں کیا جا سکتا؟ ان کا ایک رکن اسمبلی ووٹ کے لیے ’دو ٹکے‘ کی ترکیب استعمال کرتا ہے، فریال تالپر سندھ کے ووٹروں سے خطاب کرتے ہوئے ایسا دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتی ہیں کہ اس لب و لہجے میں تو ہمارے ساتھ برطانوی راج میں وائسرائے بات نہیں کرتا تھا۔ اگر دھمکی دے کر ووٹ مانگنا ہے تو اے قابل احترام عورتو اور مردو، جمہوریت دھمکی برداشت نہیں کرتی۔ وحیدہ شاہ کو خاتون انتخابی اہلکار کو تھپڑ مارنے کا حق نہیں۔ غنویٰ بھٹو کو نثار کھوڑو پر ہاتھ اٹھانے کا حق نہیں۔ عدالت کے دروازے پر کھڑے پولیس آفیسر پر دراز دستی کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت کا بندوبست سادہ اصولوں پر قائم ہے۔ تمام شہری رتبے، حقوق اور احترام میں مساوی ہیں۔ ووٹ مانگنے والے امیدوار اور ووٹ دینے والے رائے دہندہ میں اونچ نیچ کی درجہ بندی قبول نہیں۔ جمہوریت اونچے ٹیلوں کو ہموار کرنے اور نشیبی منطقوں کو سطح زمین کے برابر لانے کا عمل ہے۔ اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہے کہ بازو مروڑ کر حکمرانی کا حق چھینا جا سکتا ہے تو اس وہ اس غلط فہمی کو دور کر لے۔ جمہوریت کی لڑائی ملک کے ہر طالب علم، ہاری، مزدور، کسان، عورت، مرد، امیر، غریب ، اقلیت اور اکثریت کی مساوات کے لیے جدوجہد ہے۔ جمہوریت کے نام پر دھمکی قبول نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).