باادب با ملاحظہ ہوشیار


پہلی دفعہ فلم مغل ِ اعظم دیکھی تو اُس کے مکالموں سے مسحور ہو گئے۔ شہنشاہ اکبر کی دربار میں آمد پر ”با ادب، با ملاحظہ، ہوشیار‘‘ کا بآواز بلند اعلان، بہت پسند آیا۔ مہا بلی اور ظلِ الٰہی کے علاوہ، بادشاہِ وقت کے لیے، عالم پناہ، تاجدارِ ہند، زینتِ ہندوستان اور نازشِ لوح و قلم جیسے القاب ہمیں زبانی یاد ہو گئے۔ ذہن پر اتنا اثر ہوا کہ ہوسٹل میں دوستوں کی محفل برخاست کرنے کے لیے تالی بجا کر ”تخلیہ‘‘ کہتے۔ کوئی مذاق اڑاتا تو اُسے کہا جاتا۔ ”حدِ ادب ملحوظِ خاطر رکھا جائے‘‘۔ بے تکلف دوست ہنستے تو ہم مغلِ اعظم کا ایک اور مکالمہ اُن کی نذر کرتے۔ ”ہوش و خرد پیشِ بادشاہ رہے، سجدے میں نگاہ رہے‘‘۔ اِس مکالمے پر قہقہے بلند ہوتے تو اُنہیں دھمکی ملتی۔ ” ہوشیار، کہیں تیموری خون جوش میں نہ آ جائے‘‘۔ اور تو اور، گفتگو میں اپنے لئے ”بہ نفسِ نفیس‘‘ اور ”ما بدولت ‘‘ جیسے الفاظ، استعمال ہونے لگے۔

ان مکالموں پہ غور کرتے ہوئے ، احساس ہوا کہ کسی کی عزت افزائی مقصود ہو تو ہم کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ذہن کسی کی تعریف پر مائل ہو تو زمینی حقائق بھی نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ سلطنت مغلیہ جب سکڑ کر دہلی اور اس کی ملحقہ آبادی پالم، تک محدود ہو گئی ، تب بھی دہلی سے پالم تک کے بادشاہ کو مغلیہ دربار میں ”شاہِ عالم‘‘ ہی کہا جاتا تھا۔

القاب اور خطاب عطا کرنے کے بارے میں ہمارا قومی رویہ منفرد ہے۔ ہندوستان میں مہاتما گاندھی کے علاوہ کسی اور کے حصے میں کوئی خطاب نہ آیا۔ جواہر لعل نہرو بھی القاب وخطاب کے جواہر سمیٹنے سے محروم رہے۔ موسیقی کے شعبے میں محمد رفیع ، مکیش، لتا اور آشا اپنا ثانی نہیں رکھتے، مگر صرف ہمارے ہاں فنکاروں کو ملکۂ ترنم ، ملکۂ موسیقی اور شہشاہِ غزل جیسے خطابات سے سرفراز کیا گیا۔ شاعری کے میدان میں حبیب جالب، فیص احمد فیض اور جوش ملیح آبادی، تینوں کو بیک وقت شاعرِ انقلاب کا درجہ ملا۔ اقبال کو عوام نے محبت سے تین خطاب دیئے، علامہ، شاعرِ مشرق اور حکیم الامت۔ قائد اعظم کے علاوہ دوسرے سیاسی رہنما ، قائد ملت، مادرِ ملت ، قائد عوام، دخترِ مشرق اور شیرِ بنگال کے ناموں سے پہچانے گئے۔ عوام نے پذیرائی نہیں کی مگر آج بھی بہت سے امیدوار، محسنِ پاکستان،شیرِ پنجاب اور فرزندِ پاکستان کے خطاب کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

ہماری مبالغہ آرائی، لیڈر کی سوانح عمری میں بھی نمایاں ہوتی ہے۔ ایک مذہبی رہنما کی سوانح عمری لکھنے والے تو مائونٹ ایورسٹ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ اُنہوں نے ایک طرف نگاہ کی تو اُسے مائوزے تنگ اور دوسری طرف اپنی پسندیدہ شخصیت ہی نظر آئی۔

بے جا تعریف کے علاوہ، القاب اور خطاب سے نوازنے کی روایت ہندوستان میں فارسی زبان اور ایرانی تہذیب سے آئی۔ بہادر شاہ ظفر کی شان میں جو قصیدے لکھے گئے اُن سے غالب اور دوسرے شا عروں کی عزت میں اضافہ نہیں ہوا، مگر اسے برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ تعریف میں مبالغہ آرائی صرف شاہی دربار تک محدود نہیں تھی۔ ایک واقعہ یاد آیا۔ منٹو اور کرشن چندر دونوں دہلی ریڈیو سٹیشن سے وابستہ تھے۔ آپس میں افسانہ نگاری کا ایک خاموش مقابلہ بھی جاری رہتا۔ کرشن چندر نے منٹو کی موت پر نقوش میں یہ واقعہ بیان کیا۔ لکھتے ہیں کہ ایک روز منٹو اُن کے کمرے میں آئے اور اپنے نام احمد ندیم قاسمی کا خط پڑھنے کے لیے دیا۔ خط پڑھ کر کرشن چندر بھانپ گئے کہ منٹو کا مقصد کیا تھا۔ احمد ندیم قاسمی نے خط میں منٹو کو اُردو افسانے کا ”بادشاہ‘‘ قرار دیا تھا۔ منٹو،یہ خط دکھا کر کرشن چندر پر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے تھے۔ جواب میں کرشن چندر نے دراز کھول کر احمد ندیم قاسمی کا ایک خط منٹو کو پڑھنے کے لئے دیا۔ منٹو خط پڑھ رہا تھا اور کرشن چندر اُس کے چہرے پر تاثرات دیکھ رہے تھے۔ خط میں قاسمی نے کرشن چندر کو اُردو افسانے کا ”شہنشاہ‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ پڑھ کر منٹو کا پھولا ہوا سینہ نارمل ہو گیا۔ ایک بادشاہ اور ایک شہنشاہ، دونوں میں تفریق کرنا مشکل تھا۔ احمد ندیم قاسمی کا بھلا ہو جنہوں نے افسانہ نگاری کا مقابلہ برابری کی بنیاد پر ختم کر دیا۔

سرکاری ملازمت کے آخری سال اسلام آباد میں گزرے۔ یہ ایک نرالا شہر ہے۔ پارلیمنٹ ہائوس ، سینیٹ، ممبران اسمبلی، سرکاری عہدیدار، سرمایہ دار اور سب سے بالا، صاحبِ اقتدار، اس شہر میں سب کچھ ہے۔ اقتدار فوج کے پاس ہو یا حکمران سیاستدان ہوں، اختیارات کی شمع روشن ہونے کی دیر ہے، ملک کے کونے کونے سے پروانے طواف کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ اب مغلیہ سلطنت کی طرح دربار تو نہیں سجتے مگر اسلام آباد میں دربان، مصاحب اور نورتن موجود رہتے ہیں۔ظاہری طور طریقے بدل گئے ہیں مگر اب بھی باادب، با ملاحظہ، ہوشیار کی صدا بلند ہوتی ہے۔ صاحبِ اقتدار کا دل لبھانے کے لئے، سرکاری افسر اور سیاسی کارکن راگ درباری کے الاپ سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ اُن کی توجہ صاحبِ عالم کا مزاج بھانپنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ یہ احتیاط تو سب کرتے ہیں کہ مزاج شاہی پر کوئی بات گراں نہ گزرے، مگر جو مزاج کی پیش بینی کر سکے، شاہی دربار میں اُس کے درجات بہت جلد بلند ہو جاتے ہیں۔

سیاسی شخصیات کے ساتھ گفتگو کے اپنے آداب ہیں۔ میری عادت تھی کہ لگی لپٹی رکھے بغیر رائے کا اظہار کر دیتا تھا۔ آہستہ آہستہ اِس پر قابو پایا۔ ایک اتالیقِ بے مثال مجھ پر مہربان تھے۔ رہنمائی فرماتے ہوئے سمجھایا، ”فوراً انکار نہ کیا کرو۔‘‘ مثال سے وضاحت کی۔ ”اگر صاحبِ اقتدار حکم دے کہ سورج اگلے روز مغرب سے طلوع ہو تو ہامی بھر لو۔ ‘‘ میں سمجھ نہ پایا۔ اُنہوں نے میرے چہرے پر حیرت برستی دیکھی تو کہنے لگے۔ ”تمہارے ذہن میں یقیناً یہ خیال آیا ہو گا کہ اگلے روز سورج مشرق سے طلوع ہو گا تو کیا جواب دُوں گا۔‘‘ میں نے فوراً کہا۔ ”جی ہاں‘‘ اُنہوں نے پھر فرمایا ۔ ”آپ صاحبِ اقتدار سے کہیے کہ سر! ہم ساری رات جاگتے رہے ۔ دُنیا کی ساری خلائی رصد گاہوں سے رابطہ کیا۔ ہماری کوشش انشاء اللہ رنگ لائے گی۔ آپ کھڑکی سے باہر دیکھیں تو نظر آئے گا کہ آپ کے حکم کی تعمیل میں سورج کی سمت کم از کم پانچ ڈگری تبدیل ہو چکی ہے۔‘‘ یہ کہنے کے بعد اُنہوں نے قہقہہ لگا کر فرمایا۔ ”ہر صاحبِ اختیار اپنے ماتحت سے انکار نہیں بلکہ صرف اقرار چاہتا ہے۔ اور دوسری بات یاد رکھو کہ ماتحت کے انکار کو، ہتک سمجھا جاتا ہے۔‘‘

وہ علم و حکمت کا درس دے رہے تھے اور مجھے مغلِ اعظم کے مکالمے یاد آ رہے تھے۔
دربار کے ماحول کا اثر ہے کہ ہرکسی پر خوشامد کی تہمت دھری جاتی ہے۔ ایک دفعہ میرے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ 1998ء کے دوران میں سیکرٹری ایجوکیشن تھا۔ ایک منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے چیف منسٹر سے تین ماہ کی مہلت درکار تھی۔ شہباز شریف جن کی طبیعت میں دُنیا جہان کی بے تابیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، بار بار اُنگلی ہلا کر انکار کر دیتے۔ اُن کی عجلت پسندی بدمزہ کر رہی تھی اور بار بار یہ مصرع ذہن میں آ رہا تھا: ”خبرنہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی‘‘۔ میری درخواست کو رد کرتے ہوئے شہباز شریف نے حکم دیا کہ تین ماہ کا کام صرف ایک ہفتے میں مکمل کیا جائے۔ میں نے دوبارہ التجا کی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ میں نے اُن دنوں نوکری سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواست دی ہوئی تھی۔ ناراضی کا خوف نہ تھا۔ مشکل صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے بلا خطر، آتشِ نمرود میں کود گیا۔ ہمت کر کے چیف منسٹر کو کہا کہ اُن سے منسوب ایک لطیفہ گردش میں ہے۔ شہباز شریف اِس جرأت رندانہ پر حیران ہوئے۔ چہرے پر چند لمحوں میں کئی رنگ بدل گئے۔ پھر کرسی سے ٹیک لگا کر غصے سے پوچھا ۔ کیا؟ حواس مجتمع کر کے بیان کیا کہ کوئی افسر آپ کو شادی کا کارڈ دینے آیا تو آپ نے اِس شرط پر شرکت کی حامی بھری کہ وہ ایک مہینے میں باپ بن جائے۔ افسر نے التجا کی کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ دوسری شرط ہے کہ لڑکا ہونا چاہیے۔ شہباز شریف کے چہرے پر ایک لمحے کے لئے خفیف سی مسکراہٹ آئی اور اُنہوں نے میٹنگ ختم کر دی۔ مدت کا معاملہ پھر بھی طے نہ ہوا۔ ایک کرم فرما جو خوشامد کے نت نئے طریقے سوچتے رہتے تھے، میٹنگ میں موجود تھے۔ وہ میرے پاس آئے۔ لطیفے نے اُنہیں بہت متاثر کیا تھا۔ کہنے لگے ، ”سر! آج تو آپ نے چھکا مارا ہے۔‘‘ مجھے اُن کی بات پلے نہ پڑی ۔ سوالیہ نظروں سے دیکھتا رہا۔ وہ پھر بولے۔ ”آپ نے ٹیکنیکل طریقے سے شہباز شریف کو خوش کیا ہے۔‘‘ پھر اُنہوں نے معنی خیز انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ”اِس چیف منسٹر کو خوش کرنا، پتھر میں انجکشن لگانے جیسا مشکل کام ہے۔ یہ کام صرف ایک ٹیکنیکل طریقے سے ہی ہو سکتا تھا۔‘‘ وہ رشک بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں ہکا بکا، بغلیں جھانک رہا تھا۔ ایک بار پھر مغلِ اعظم کے مکالمے یاد آئے۔ ”باادب، باملاحظہ، ہوشیار‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood