ہٹ می‘ کِل می‘ نو بیک پاکستان


تصویر کتنی طاقتور ہو سکتی ہے اس کا اندازہ عصر حاضر سے بہتر کبھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک لڑکی یونہی گزرتے گزرتے ایک چائے والے کو دیکھتی ہے اور اس کی تصویر کھینچ لیتی ہے۔ وہ تصویر انسٹا گرام پر ڈالی جاتی ہے اور دو تین روز خاموش پڑے رہنے کے بعد ایک دم وہ تصویر وائرل ہو جاتی ہے، پاکستان کا مقبول ترین ٹرینڈ بن جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پہ ہر چوتھا یا پانچواں شخص اسی چائے والے کی تصویر پوسٹ کر رہا ہوتا ہے اور ساتھ کوئی نہ کوئی دلچسپ کیپشن لگا دیتا ہے۔ وہ چائے والا جو صبح معمول کے مطابق کھوکھے پر چائے بنانے آیا تھا اس کی شام الف لیلہ کے ابوالحسن کی طرح ایک رنگا رنگ دنیا میں ہوتی ہے۔ لوگ سارا دن آ کر اس کے انٹرویو کرتے ہیں، لڑکیاں اس کے ساتھ تصویریں بناتی ہیں، میڈیا والے الٹے سیدھے سوال کرتے ہیں اور رات تک وہ چائے والا زندگی میں شاید پہلی مرتبہ کوٹ پینٹ اور ٹائی پہنے ایک ٹی وی چینل کے دفتر میں موجود ہوتا ہے۔ یہ سب صرف ایک تصویر کھینچنے کی وجہ سے ہوا۔

ڈیجیٹل کیمرہ اور پھر موبائل کیمرہ آنے کے بعد سے روزانہ اس دنیا میں شاید اربوں تصاویر بنتی ہوں۔ ان میں سے ہر ایک تصویر ایسی مشہور کیوں نہیں ہو جاتی۔ ہر ایک نہ سہی لیکن کیا ان میں سے دس بارہ ہزار تصاویر بھی ایسی نہیں ہوں گی جنہیں روزانہ کی مشہور تصویر کہا جا سکے؟ دس بارہ ہزار بھی رہنے دیجیے، ہر روز ایک تصویر بھی شہرت کی اس معراج تک نہیں پہنچ سکتی جہاں تک یہ تصویر پہنچی۔ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔

اگر پچھلے دو تین برس میں مشہور ہونے والی تصاویر کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ تصاویر زیادہ مشہور ہوئیں جن میں کسی بھی قسم کے دکھ کی عکاسی موجود تھی۔ ساحل پر نظر آنے والی ایلان کردی کی لاش ہو یا بم دھماکے کے بعد ایمبولینس کی نارنجی کرسی پر بیٹھے، دھول مٹی میں اٹے ہوئے معصوم بچے کی تصویر ہو۔ بیٹی کو گود میں اٹھائے ایک مجبور شامی مہاجر پین بیچتا پھر رہا ہو، اس کے چہرے پر دکھوں کی داستان لکھی ہو یا وہ بے گھر پیانو والا ہو جو کسی ہوٹل کے باہر پیانو بجا کر مانگ رہا ہے اور اچانک کیمرے کی زد میں آ جاتا ہے۔ ان تمام تصاویر میں کروڑوں انسانوں کو اپنے جیسوں کی بے بسی نظر آئی، دکھ نظر آیا اور انسانیت کے جذبے سے بے چین ہو کر وہ ان تصاویر کو شئیر کرتے گئے، یہاں تک کہ پوری دنیا نے ان کا نوٹس لیا، بے گھر پیانو والا گھر کا مالک ہوا، قلم بیچتا عرب پناہ گزین اپنا کاروبار شروع کر پایا، ایمبولینس والے بچے کو جرمنی سے ایک بچے نے اپنے گھر میں رہنے کی درخواست کی اور ایلان کردی کی لاش عالمی طاقتوں کے ضمیر کو جھنجوڑ گئی۔ چائے والے کی تصویر میں ایسا کچھ نہیں تھا۔

ایک معصوم سا لڑکا ہے جس کی آنکھیں نیلی ہیں، باریک مونچھیں، گوری رنگت، بڑھی ہوئی شیو، ہاتھ سے سنوارے ہوئے بال ہیں، عام سی شلوار قمیص پہنے کھڑا ہے۔ ایک ہاتھ میں چھلنی ہے، دوسرے ہاتھ سے چائے انڈیل رہا ہے اور کیمرے کی طرف دیکھ رہا ہے۔ ایسے بہت سے پٹھان بچے آئے روز ہمیں نظر آتے ہیں، چائے کی ہوٹلوں پر، بسوں کے اڈے پر، ریلوے سٹیشنوں پر، مکئی کے بھٹے بیچتے ہوئے، جوتے پالش کرتے ہوئے، بھنے ہوئے چنوں کی ریڑھی لگائے ہوئے، دیسی ‘منرل واٹر‘ کے بڑے بڑے کین ریڑھی پر رکھ کر گھسیٹتے ہوئے، قہوہ لیے مارکیٹوں میں گھومتے ہوئے، بہت سا وزنی سامان کمر پر اٹھائے الیکٹرانکس مارکیٹوں میں ہٹو‘ بچو کی صدائیں لگاتے‘ تیز تیز چلتے ہوئے، وہ سب بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر ان سب کو ایک کامیاب ماڈل ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے۔

شاید اس تصویر کے مشہور ہو جانے میں ارشد خان چائے والے کی آنکھوں کا عمل دخل بہت زیادہ تھا، نیلی آنکھیں دیکھ کے ہمارے لوگ ویسے ہی مر مٹتے ہیں، پھر وہ ایک قید کر لینے والا تاثر تھا، یعنی اس لمحے چہرے کا جو ایکسپریشن قید ہوا‘ وہ ایک عجیب سی شان بے نیازی والا تھا۔ دوسری وجہ اس کا عمدہ تناسب کہا جا سکتا ہے‘ جسے پیچیدہ کر کے سمجھنا ہو تو انٹرنیٹ پر ”گولڈن ریشو‘‘ کی تلاش کر لیجیے۔ پروفیشنل کیمرے سے لی گئی تصویر جس میں سبجیکٹ ذرا بھی تعاون پر آمادہ ہو عموماً بری نہیں ہو سکتی۔ اس تصویر میں جس اعتماد اور ‘ہو کئیرز‘ قسم کی نظروں کے ساتھ چائے والا کیمرے کی جانب دیکھ رہا ہے بس وہی لمحہ موجود کی جان ہے۔ آگے اتفاقات کی ایک لمبی قطار ہے۔ یہ اتفاق کہ آنکھوں اور کپڑوں کا رنگ ملتا ہے، یہ اتفاق کہ تصویر میں اس کا بہترین پوز سامنے آیا، یہ اتفاق کہ چھلنی والا ہاتھ یا دوسرا ہاتھ تصویر کا تناسب بگاڑ نہیں پایا، یہ اتفاق کہ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی، یہ اتفاق کہ تصویر بنانے والی بی بی‘ ڈی ایس ایل آر کیمرہ رکھے ہوئی تھی کیوں کہ موبائل کیمرہ چہرے پر وہ نور لانے سے قاصر ہے جو پروفیشنل کیمرے کی عطا ہوتا ہے، یہ اتفاق کہ تصویر انسٹا گرام پر اسی وقت اَپ لوڈ کر دی گئی اور ڈیجیٹل اسکریپ کا حصہ نہیں بنی۔ ایسے بہت سے اتفاقات اکٹھے ہوئے تو وہ تصویر جو بے شک تکنیکی لحاظ سے بھی سٹریٹ فوٹو گرافی کی عمدہ مثال تھی‘ وائرل ہو گئی اور پوری دنیا ارشد خان کی دیوانی بن گئی۔
ارشد خان کے لیے یہ دیوانہ پن عین ویسا ہی تھا جیسے چار دن کی چاندنی ہو سکتی ہے۔ دو ہفتے بعد کسی کو کچھ یاد نہیں تھا کہ ارشد خان نامی کوئی بندہ کبھی نظر بھی آیا تھا یا نہیں۔ اس بے چارے نے تھوڑی بہت ماڈلنگ کی، ایک دو گانوں کی ویڈیوز میں آیا بلکہ آخری ویڈیو میں تو ایک عمر رسیدہ پریشان خاتون کے ہمراہ نظر آیا جنہوں نے ملکہ ترنم کے گانے پر نہایت بے ڈھنگے انداز میں ہاتھ صاف کیے تھے۔ اس کے بعد یہ شہرت غریب چائے والے کے گلے پڑ گئی۔ آخری اطلاعات تک ارشد خان کا کھرا افغانستان سے نکالا گیا ہے۔ نادرا کے افسران اور محترم افغان سفیر کہتے ہیں کہ وہ افغان ہے جب کہ خود ارشد خان اپنے پاکستانی ہونے پر زور دیتا ہے۔

حیدر زیدی بڑے بھائیوں سے بڑھ کر ہیں، لاہور آنے پر بہت برے وقتوں میں انہوں نے انگلی تھامی تھی۔ وہ سناتے ہیں کہ جب پڑھنے کے لیے آسٹریلیا جانا ہوا تو ساتھ ان کا ایک دوست بھی گیا۔ اس کا ویزہ کہیں ایکسپائر ہو گیا، وہاں کی پولیس نے پکڑ لیا۔ اب دوست بے چارے کو گزارے لائق انگریزی بھی نہیں آتی تھی۔ بھائی بتاتے ہیں کہ گورے جو بھی سوال کرتے جواب ایک ہی آتا، ہٹ می‘ کل می‘ نو بیک پاکستان! تو چائے والے مظلوم کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی کا آسٹریلیا پاکستان میں ہی لگ جاتا ہے کسی کی آسٹریلیا جا کر بھی دبئی نہیں لگتی۔ حکام بالا اگر اس معاملے میں تھوڑی لچک کا مظاہرہ کریں تو شاید وہ غریب آدمی کچھ بہتر پوزیشن میں آ جائے گا ورنہ شربت گل (نیشنل جیوگرافک کی مشہورِ زمانہ سبز آنکھوں والی افغان لڑکی) کو تو ہم افغانستان رسید کر ہی چکے ہیں، ایک بندہ اور سہی، ہاں یہ ضرور ہو گا کہ اب جس بھی افغان مہاجر کی تصویر کوئی فوٹوگرافر کھینچے گا تو مرنے مارنے سے کم پر معاملہ نہیں ٹھہرے گا، بے شک وہ سٹیو میک کیری یا جیا (جویریہ) علی ہی کیوں نہ ہوں۔ کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain