جائیں تو جائیں کہاں


میری اور آپ کی ایک روزمرہّ زندگی ہوتی ہے۔ اس میں کافی یکسانیت محسوس ہوتی ہے۔ جی اس سے اُکتا سا جاتا ہے۔ انسان کی عمومی اُکتاہٹ کے توڑ کے لئے مختلف النوع شغل متعارف ہوئے تھے۔ مثال کے طور پر بٹیر اور کبوتر پالنا۔ پڑھے لکھے اور نفیس ذوق کے حامل لوگوں نے شاعری اور موسیقی کی گہرائیوں میں ڈوب جانے کی راہ چنی۔ داستان گو نمودار ہوئے جو محیرالعقول قصے سناتے ہوئے ہمیں حیران کر دیتے اور نئی دنیاﺅں کی دریافت کے لئے دور دراز ممالک کے سفرپر اُکساتے۔

عام انسانوں کو ان کی محدود دُنیا سے اٹھاکر ایک وسیع تر اُفق کا حصہ بنانے کے لئے اخبارات آئے۔ ان کے بعد ریڈیو متعارف ہوا اور بالآخر ٹیلی وژن۔ ان سب کی بے پناہ وسعت نے بھی لیکن انسان کو مطمئن نہ کیا اور گزشتہ صدی کے اختتام کے سالوں میں ہم Digital Age میں داخل ہوگئے۔ ہمارے ہاتھوں میں موجود سستا ترین ٹیلی فون بھی اب ہمیں فیس بک،ٹویٹر،واٹس ایپ اور وائبر جیسی سہولتوں کے ذریعے دُنیا کے ہر حصے میں مقیم لوگوں سے مسلسل رابطے میں رکھتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کی اس بے پناہ وسعت کی بدولت انسانی اذہان میں کشادگی آنا چاہیے تھی۔ نسل، مذہب اور زبان پر مبنی تقسیم کا مہذبانہ اقرار کرتے ہوئے بھی ایک ایسی عالمی برادری بنائی جا سکتی تھی جو نام نہاد Global Villageکے تمام مکینوں کے لئے تسلی کا باعث ہوتی۔ ایسا مگر ہو نہیں پایا۔ جدید ترین ذرائع ابلاغ نے عام انسانوں کے دلوں میں نسلوں سے موجود تعصبات کو بھڑکاتے ہوئے شدید تنگ نظر اور وحشیانہ حد تک ”قبائلی“ بنادیا ہے جو اپنی محدود سوچ کے تحفظ کے لئے اس سوچ کے برعکس زندگی گزارنے والوں کو مارنے پر آمادہ رہتا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے فروغ کا یہ تباہ کن نتیجہ ان کے موجدوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ ٹرمپ جیسے متعصب اور دیوانے شخص کی امریکی انتخابات میں جیت نے مگر انسانوں میں ہمیشہ خیر کے جذبات ڈھونڈنے والوں کو بالآخر مجبور کردیا ہے کہ وہ بہت تحقیق اور غور و خوض کے ذریعے جدید ترین ذرائع ابلاغ کی بدولت پھیلائے تعصبات بھرے ہیجان کے توڑ تلاش کریں۔ ذرائع ابلاغ سے جڑے کئی سوالات پر کئی محققین نے دن رات کام کرنا شروع کردیا ہے۔ فی الوقت بنیادی مشورہ یہی ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کے استعمال سے زیادہ سے زیادہ ”پرہیز“ کیا جائے۔ اس کے منفی اثرات سے شفا دلانے کا نسخہ کیونکہ ابھی تک دریافت اور تیار نہیں ہوا ہے۔

ناظرین کو 24/7 باخبر رکھنے کے دعوے دار ”نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز“ چینلز کی اکثریت نے کم از کم امریکہ میں اب یہ اعتراف کرنا شروع کردیا ہے کہ وہ ٹرمپ کی جیت کے پیچھے محرکات کو بروقت دریافت کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے اجاگر نہ کر پائے۔ اس کی جانب سے پھیلائی جنگ میں بلکہ میڈیا سے متوقع غیر جانب داری کو تج کر فریق بن گئے۔
ٹرمپ کے امریکہ کی طرح آج کا پاکستان بھی اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوچکا ہے۔ بات نواز شریف سے شروع ہوئی تھی جنہیں عمران خان نے دھرنے کے ذریعے گھر بھیجنا تھا۔ دھرنا تو ناکام رہا مگر پانامہ دستاویزات آ گئیں۔ سپریم کورٹ کو ان کا نوٹس لینے پر مجبور کیا گیا۔ نواز شریف اس کے نتیجے میں ”نااہل“ قرار دے کر گھر بھیج دئیے گئے۔ ان دنوں موصوف کو اپنے بچوں سمیت احتساب عدالتوں میں مختلف سوالات کے جوابات دینا ہے۔ یہ جوابات اطمینان بخش نہ ہوئے تو جیل جانا ہوگا۔ مزید ذلت ورسوائی سہنا پڑے گی۔

عدالتی عمل اپنے انجام تک پہنچنے کے لئے مگر وقت لیتا ہے۔ ایک حوالے سے دیکھا جائے تو نوازشریف کے مخالفین کو ”سست“نظر آنے والا یہ عمل قدیم چین کے بادشاہوں کی طرف سے متعارف کروائے ذہنی اور جسمانی تشدد کے طریقوں سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اپریل 2016 ءسے پاکستان کا تیسری بار منتخب ہوا وزیر اعظم اور اس کا خاندان مستقل بنیادوں پر ذلت وہزیمت برداشت کئے چلے جارہا ہے اور نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے باوجود موصوف کے خلاف برپا ہوئے احتسابی عمل کا ابھی ”درمیان“ بھی نہیں آیا۔ کئی صورتوں میں ”گیم“ تو بلکہ ”اب“ شروع ہوتی محسوس ہورہی ہے۔

نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے فراغت اور سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں ہیجان مسلسل برپا ہے۔ اس ہیجان کی حتمی خواہش اس ملک میں ایک بار پھر مارشل لاءکا نفاذ یا کم از کم متقی، پرہیز گار اور اپنے اپنے شعبوں میں معجزے برپا کرنے والے ٹیکنوکریٹس حکومت کا قیام تھا۔ گزشتہ ہفتے کے وقتِ عصر DG-ISPR نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ان دونوں کے امکانات کوبھی واضح الفاظ میں رد کردیا۔ جائیں تو جائیں کہاں؟

میں اپنے گھر سے بہت کم باہر جاتا ہوں۔ تقریبًا گوشہ نشینی اختیار کررکھی ہے۔ گزشتہ تین دنوں سے مگر اپنی جوانی کے دنوں کے متحرک رپورٹر کی طرح میں نے بہت ہی ”باخبر“ اور اتنے ہی ”بے خبر“ سمجھے جانے والے بے شمار لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ گلیوں،محلوں اور بازاروں میں راہ چلتے لوگوں سے بات چیت کی۔ مویشیوں کی ایک منڈی میں بھی گیا۔ اسلام آباد کے نواح میں موجود دو ”دیہاتوں“ کے مکینوں کے ساتھ کئی گھنٹے گزارے۔

کسی تحقیقی ٹیم کی معاونت اور رائے عامہ جانچنے کے سائنسی اعتبار سے طے شدہ اور ٹھوس سمجھے معیارات کو جانے اور برتے بغیر دریافت مجھے یہ ہوا ہے کہ ہمارے عام لوگوں کی بے پناہ اکثریت اندھی نفرت اور عقید ت میں تقسیم ہوئے اور اس تقسیم کو مزید سنگین بناتے ٹی وی ”ٹاک شوز“ وغیرہ سے اُکتا چکی ہے۔ انہیں علم ہوچکا ہے کہ کون شخص،کون سے ٹی وی چینل پر کس اینکر کے پروگرام میں مدعو ہوگا تو کیا بات کرے گا۔ لوگوں کی ایک بے پناہ تعداد نے بہت خلوص اور سادگی سے مجھ سے یہ سوال بھی کیا کہ اس ”دھندے“ سے وابستہ ہوتے ہوئے میں کبھی کبھار ہی سہی،تھوڑا شرمندہ محسوس کرتا ہوں یا نہیں۔

تین دنوں تک پھیلی اس ذاتی تحقیق نے مجھے کافی پریشان کردیا ہے۔ اس تحقیق کے بعد مجھے واقعتاً سمجھ نہیں آرہی کہ صبح اُٹھتے ہی میں نے یہ کالم لکھنے کے لئے حسبِ عادت قلم کیوں اٹھالیا ہے۔ ہمارے لکھے اور بولے لفظ بے وقعت ہو چکے ہیں۔ انہیں دہراتے چلے جانا فقط ہذیان ہے۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).