مدارس کے طلبہ کا ذہنی لیول کیا ہے؟


مقطع میں آ پڑی ہے، سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

گزشتہ دنوں میں نے بین الاقوامی امور سے متعلق گفتگو پر اپنے ایک دوست کے کمنٹ جس میں اس نے مدارس سے فارغ طلبا کو بارہویں کے مماثل قرار دیا تھا اپنی حمایت درج کراتے ہوئے یہ بات کہی کہ آپ نے تو پھر بھی بارہویں کہہ کر لاج رکھ لی ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ ’ریاستی نصاب‘ کے آٹھویں درجہ کی بھی اہلیت نہیں رکھتے؟ اس پر کچھ احباب بہت زیادہ چراغ پا ہوگئے اور کچھ لوگ تو یہاں تک تبصرہ کر گئے کہ آپ جیسے لوگوں ہی نے مدارس کو بدنام کیا ہوا ہے، اور یہ کہ آپ جیسے لوگ دراصل احساس کم تری کے شکار ہیں جو اسی تھالی میں چھید کرنے کا کام کرتے ہیں جس میں کھاتے ہیں وغیرہ۔

میں نے یہ جاننے کے لیے کہ جدید کہے جانے والے مدارس کے پروردہ فضلا کا اس بارے میں کیا خیال ہے، اس گفتگو کو مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ کے ایک واٹس ایپ گروپ پر ڈال دیا جہاں منتظمین مدرسہ سے وابستہ کئی افراد کے علاوہ دنیا بھر میں کام کرنے والے فضلا کی ایک معتدبہ تعداد موجود ہے، مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ جس مدرسہ کو جدید اور قدیم کا حسین سنگم کہا جاتا ہے اور علامہ شبلی نے ندوہ سے نامرادی اور مایوسی کے بعد جس ادارہ کو اپنے خوابوں کا مرکز تصور کیا تھا اور جس مدرسے میں رات دن درس نظامی اور اس سے متعلق نصاب کو لعن طعن اور طنز و تعریض کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس کے فارغین نے درس نظامی کے پروردہ سے کہیں زیادہ خطرناک رد عمل کا اظہار کیا اور بعض کے پاس جب کوئی جواب نہیں بن پڑا تو ذاتیات پر اتر آئے، بعض احباب نے میرے اوپر علمیت جھاڑنے، فلسفہ بگھاڑنے، مدارس کو حقیر ٹھیرانے اور اس کی حقیقت سے منکر ہونے کا الزام عاید کیا۔

یہاں پر یہ بات عرض کرتا چلوں کہ ان میں سے قطعا میرا کوئی بھی مقصد نہیں ہے۔ ہاں سوچنے کا انداز الگ ہو سکتا ہے۔ جس طرح سے آپ کو اپنی بات کہنے کا حق ہے اسی طرح مجھے بھی ہے اور جس طرح سے آپ اسلام، مسلمان اور کلمہ حق کی سر بلندی چاہتے ہیں ہم بھی وہی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ان کا حق ملے، مسلمان سر اٹھا کر جئیں، کس مپرسی، مقہوری، مجبوری کے رویہ سے باہر نکلیں۔ کسی چیز کے بارے میں تلخ رائے کا اظہار کرنے کا مقصد قطعا یہ نہیں ہوتا کہ اس کو ذلیل کریں یا اس کو نیچا دکھائیں بلکہ مقصد آئنہ دکھانا ہوتا ہے، تا کہ ہم اس کو اور بہتر کریں اور اس میں کوئی نقص نہ رہنے پائے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ذرا آئنہ دکھاتے ہی لوگ ٹوٹ پڑتے ہیں، بھوکے گدھ کی طرح سے نوچنا شروع کر دیتے ہیں اور کچھ کہنے والا بے چارہ یا تو خاموش رہنے میں عافیت سمجھتا ہے یا پھر کفر کا فتویٰ لگوا کر اپنے آپ کو عتاب کا شکار بنا لیتا ہے، اب جب کہ مجھے عتاب کا شکار بنا ہی دیا گیا ہے تو مناسب سمجھتا ہوں کہ ان احساسات کا بھی ذکر کر دوں جن کے بارے میں میں اکثر سوچتا رہتا ہوں۔

ہندوستان میں کئی لاکھ مدارس ہیں اور ان لاکھوں مدارس سے اگر ایک ایک بھی فرض کر لیں تو ہر سال کئی لاکھ فارغین نکلتے ہوں گے۔ آخر وہ کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ کیا انھیں زمین نگل لیتی ہے یا آسمان اچک لیتا ہے؟ ایسے لاکھوں پروڈکٹس کی کھپت کہاں ہے؟ پھر ہم اچھے لکھاری، اچھے داعی، اچھے قائد، اچھے مفسر، اچھے محدث، اچھے موذن، اچھے خطیب کا رونا کیوں روتے رہتے ہیں؟ شاید رونا ہماری فطرت بن گئی ہے یا پھر ہم حقیقت کو قبول کرنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے۔ میں مدارس پر تنقید نہیں کر رہا ہوں یا ان کی محدود افادیت سے انکار بھی نہیں کر رہا۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم اس سے ہزار، بلکہ لاکھ گنا بہتر رزلٹ دے سکتے تھے جو ابھی دے رہے ہیں۔ لیکن شاید ہم چاہتے ہی نہیں رزلٹ دینا، ہمارا مقصد صرف رونا اور اپنی حسرت و ناکامی پر آنسو بہانا رہ گیا ہے۔

جس وقت ملک میں مشنریاں اپنے کام کا آغاز کر رہی تھیں، ہماری اس سے پہلے سے جڑیں مضبوط تھیں۔ لیکن اس کے بعد ہمیں کیا ہوگیا کہ ہم مستقل پھسلتے ہی چلے گئے۔ آپ خود دیکھیے آرایس ایس اور اس طرح کی باطل فکر رکھنے والے افراد نے بہت بعد میں کام شروع کیا اور وہ ہر جگہ اپنے افراد کو بٹھانے میں کامیاب ہو گئے۔ فوج ہو، عدالت ہو، صحافت ہو، سفارت ہو، کون سا ایسا میدان ہے جس میں انھوں نے کامیابی حاصل نہیں کی۔ ماہرین تعلیم ان کے یہاں، ماہرین نفسیات ان کے یہاں، ہر رنگ اور ہر قبیل کے ریسرچر ان کے یہاں۔

ایک بات مجھے اکثر کچوکے لگاتی ہے۔ جس ملک میں ہم رہتے ہیں اس میں ہماری یعنی اہل مدارس کی کتنی حصہ داری ہے؟ کیا ہم واقعی ریاست سے جڑے ہوئے ہیں؟ اگر ہم ایمان داری سے اس کا جواب تلاش کریں تو بات بالکل نفی میں ہوگی۔ پھر یہاں پر سوال پیدا ہوگا کہ مثبت کیوں نہیں منفی ہی کیوں؟ تو اس کا جواب اس کے علاوہ اور کیا دیا جا سکتا ہے کہ ہم جو بوئیں گے وہیں کاٹیں گے بھی۔ اس سلسلے میں ہم درس نظامی یا اس سے متعلق اداروں کے بارے میں فی الحال بات نہ کرکے ان اداروں کی بابت بات کرنا مناسب سمجھتے ہیں جو خود کو روشن خیال اور قدیم و جدید کا حسین سنگم قرار دیتی ہیں۔ اتفاق سے میری ابتدائی تعلیم بھی ویسے ہی ایک ادارہ سے ہوئی ہے اس کے بعد بھی کئی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، جہاں مجھے ان رویوں کو بہت قریب سے جاننے کا اتفاق ہوا اور میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ایسی بہت ساری باتیں جن کے بارے میں دوسرے لوگ بولتے ہیں اور جن کی بنیاد پرمدارس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ان کی ساری باتیں غلط بھی نہیں ہیں۔

آئیے! آج انھی میں سے چند باتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم حصہ داری کی بات کریں گے اور اس میں بھی گفتگو کا آغاز انتہائی جدید سوچ کے حامل مدرسے سے کریں گے جہاں سے میری اپنی تعلیم ہوئی ہے یعنی ’مدرسۃ الاصلاح‘ کی۔ جب تک میں مدرسے میں تھا معلوم ہی نہیں تھا کہ دنیا کیا چیز ہے؟ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم ایک دشمن ملک میں رہ رہے ہیں، اور مسلمانوں کو چھوڑ کر سارے ہندو ہمارے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ حکومت کیا ہے ہمیں نہیں معلوم تھا؟ ریاست کیا چیز ہے اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتا تھا؟ ہندوستان جہاں ہم رہ رہے ہیں وہ کیسے چلتا ہے؟ وفاقی حکومت ہے یا عمرانی؟ ہماری اس میں کیا ذمہ داری ہے؟ حکومت ہمارے لیے کیا کر رہی ہے؟ اس بارے میں کبھی بتایا ہی نہیں گیا۔ ہاں بتایا گیا تو یہ کہ حکومت کی ساری اسکیمیں مسلمانوں کے خلاف بنتی ہیں۔ حکومت سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ الغرض حکومت اور اسٹیٹ کے بارے میں ایسا بتایا جاتا تھا کہ ہم کسی اور ملک میں رہ رہے ہیں اور پورا نظام ہمارے خلاف ہے۔ یہ تو اس ادارے کا حال تھا جو خود کو انتہائی جدید کہنے کا دعوے دار ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ جہاں سیکڑوں سالہ قدیم نصاب پڑھایا جا رہا ہے وہ کیا سیکھتے ہوں گے اور ان کو ملک کے بارے میں کیا پتا ہوتا ہوگا۔

میں سمجھتا ہوں کہ دیگر مدارس کی حالت اس سے کم بد تر نہیں ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم آج ملک میں حاشیے پر جا چکے ہیں۔ وہ تو جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ان جیسے دوسرے اداروں کا احسان ہے کہ مدارس سے فارغ طلبا کو ان اداروں میں داخلہ مل جاتا ہے اور ان میں سے کچھ ان چیزوں کے بارے میں جان جاتے ہیں، ورنہ مجموعی طور پر حالت ایسی ہی رہتی ہے، پھر اس کے بعد بھی ہم شکوہ کناں ہیں کہ ہمیں اچھے لیڈر نہیں ملتے، مرکزی دھارے سے ہمیں کاٹ دیا گیا ہے وغیرہ۔ آپ خود سوچیے کہ جہاں فکر و خیال کو ایک خاص سمت میں تربیت دی جا رہی ہے تووہاں سے کس طرح ایسے افراد نکلیں گے جو آپ کی قیادت یا رہنمائی کر سکیں۔ میں نے عرصہ پہلے تہیہ کر لیا تھا کہ مذہبی امور یا ان سے وابستہ مسائل پر نہیں لکھوں گا، ہاں ان مسائل پر ایک ناول کا خاکہ تقریبا تین سال قبل بنایا تھا اور اپنے کیریکٹر کی زبانی ان احساسات کو بیان کرنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر کبھی کبھی درد اس قدر شدت اختیار کر جاتا ہے کہ چیخ خود بخود نکل جاتی ہے۔ آپ اس کو میرا درد ہی کہہ سکتے ہیں، اس میں بھی ابھی میں نے محض ایک نکتے کو بیان کیا ہے۔ جیسے جیسے وقت ملتا جائے گا آگے لکھتا جاؤں گا۔


اسی بارے میں

مدارس کے طلبہ کا ذہنی لیول کیا ہے؟

مدارس کے طلبہ کا ذہنی لیول – جواب حاضر ہے

مطلب مدارس والے نہیں سدھریں گے؟

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah