سیاست نہ کرو، ریاست سے


اک عرصہ کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ امریکہ میں آزاد خیالی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ پاکستانی مندوب محترمہ ملیحہ لودھی نے عالمی سیاسی کھلاڑیوں پر خوب تبصرہ کیا۔ بھارت ایک آزاد ملک ہے مگر اس کو ہندوستان نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ دنیا بھر میں ان کا نعرہ ہے “جمہوری ملک “ ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ مگر ہمارے پرانے دوست اور حالیہ دنوں میں دوبارہ مہربان ہونے والے حلیف کو ان کی بڑی قدر ہے۔ امریکہ کے لیے بھارت ایک بڑی آزاد منڈی ہے۔ دنیا کی حالیہ سیاست معاشی مفادات کی سیاست ہے جس پر سرمایہ داروں کا زیادہ اثر ہے۔ امریکی معیشت مقابلے کی دنیا میں کمزوری کا شکار ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے امریکی معیشت دنیا میں ہونے والی جنگوں سے اپنے معاشی اور عالمی سیاسی مفادات کو فروغ دے رہا تھا۔ اس عالمی سیاسی تناظر میں امریکہ صرف افغانستان میں ہی مکمل ناکام نظر آیا۔ اس نے پاکستان کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ماضی کے تجربات کی بنیاد پر اور ہمسایہ ملکوں ایران اور چین سے تعلقات اور مشاورت سے پاکستان ان کی مرضی کے مطابق کردار ادا نہ کرسکا۔

ماضی میں امریکہ نے پاکستان کی مدد کرنے کی کوشش ضرور کی مگر اس کے مثبت نتائج نظر نہیں آئے۔ اب کی بار امریکی ریاست نے ایک دفعہ پھر اپنا پینترا بدلا ہے۔ ہمارے وزیرخارجہ خواجہ آصف کے دورہ پرامریکی پر ردعمل میں جو بیان آیا ہے وہ بھی خوب ہے ”امریکہ کو پاکستانی حکومت کے مستقبل پر تشویش ہے“پاکستان کی حکومت ایک جمہوری طریقہ کار سے چل رہی ہے۔ ماضی میں ان کے دوست پاکستان کے صدر تھے تو دو وزیراعظموں کو نا اہل ہونا پڑا۔ وہ کرپشن کے معاملات میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے مگر سرکار چلتی رہی۔ پھر انتخابات کے بعد میاں نوازشریف کو سرکار بنانے کا موقع ملا۔ میاں صاحب نے بھی جمہوری روایات کو مدنظر رکھا اور امریکہ سے تعلقات میں رواداری رکھی۔ امریکہ افغانستان کے معاملات میں پاکستان کے مفادات کو نظرانداز کرکے خطہ کی سیاست کو دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو نظرانداز ہی نہیں کرتا بلکہ دھونس اور دھمکی بھی دیتا ہے۔

اس وقت پاکستان بھی خطہ کی سیاست کی وجہ سے خطرات سے دوچار ہے۔ ایسے میں جب امریکہ جیسے قدر دان اور دوست، پاکستان کی حکومت کے مستقبل پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مخلص نہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کی مدد کی ہے۔ جب بھارت روس کے ساتھ تھا تو بھی امریکہ ہمارے ساتھ سنجیدگی کا مظاہرہ بھی نہ کرسکا۔ اس کے باوجود پاکستان کی اشرافیہ اور عسکری حلقے امریکی تعلقات کو بہتر بنانے اور موثر بنانے کے لیے غیرجمہوری اقدامات بھی کرتے رہے، مگر امریکی پالیسی ہمیشہ پاکستانی جمہور کے مخالف ہی رہی۔ کچھ عرصہ قبل امریکی صدر ٹرمپ نے خطہ کی سیاست کے حوالہ سے اپنی پالیسی کا اعلان کیا جو واضح طور پر پاکستان کے مفاد کے خلاف تھی۔ پاکستان نے اس پر تشویش کا اظہار ضرور کیا مگر اُمید رکھی کہ امریکہ معاملہ فہمی کرے گا۔ امریکہ ہمارے خطہ میں فریق بن رہا ہے۔ ایران کے ساتھ معاہدہ کرکے اس سے منحرف ہونے کی بات کررہا ہے۔ پھر افغانستان میں وہ بھارت کو قبضہ دلانے کی کوشش کررہا ہے۔ ایسا کرنا عالمی امن کے لیے شدید خطرہ کا باعث ہے۔

اس وقت اس خطہ میں چین اور روس کی بڑی اہمیت ہے۔ پاکستان اس وقت چین کے ساتھ اہم ترقیاتی معاملات پر حصہ دار ہے۔ دوسری طرف روس کو بھی اندازہ ہے کہ پاکستان کی حیثیت ایک ذمہ دار ملک کی ہے اور ایک عرصہ کے بعد روس پاکستان سے مثبت مشاورت بھی کررہا ہے۔ اس خطہ میں بھارت کا ردعمل سب سے خطرناک ہے۔ میاں نوازشریف سابق وزیراعظم بڑی کوشش کرتے رہے کہ بھارت کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوسکے اور بھارتی سیاسی حلقے اس بات کو اہمیت بھی دینے لگ گئے تھے مگر بھارتی فوج نے اور کشمیر میں ان کی پالیسی نے میاں نوازشریف کی کوشش کو ناکام بنایا اور پاکستانی عوام کو باور کرانے کی کوشش کی کہ میاں نوازشریف کی سوچ غلط تھی۔ اس سے ان کو سیاسی نقصان بھی ہوا۔ پھر بھی میاں صاحب نے جمہوریت اور امن کے فروغ کے لیے بھارت سے تجارت میں معاہدے کیے اور کوشش جاری رکھی کہ بھارت اپنی روش بدلے۔ بھارتی وزیراعظم ذاتی حیثیت میں میاں نوازشریف کو درست مانتے مگر سرکاری حیثیت میں وہ میاں نوازشریف کے لیے مشکلات ہی پیدا کرتے رہے اور امریکہ کو بھی ورغلاتے رہے۔

اب پاکستان امریکہ سے دوبارہ بات چیت امریکی درخواست پر شروع کررہا ہے۔ ہمارے وزیرخارجہ کے بیانات پاکستان کی صاف نیت کی ترجمانی کرتے ہیں جس پرملک میں سیاسی لوگ خوش نظر نہیں آتے۔ پاکستان کو اپنی مشکلات اور کمزوریوں کا اندازہ ہے۔ پاکستان میں بھی سیاسی خلفشار ہے اور حالیہ دنوں میں میاں نوازشریف کی نا اہلی نے ملکی سیاست اور معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے مگراس کے باوجود جمہوریت کے لیے اور جمہوری اقدار کے لیے عدالتیں آزادی کے ساتھ اپنا کردارادا کررہی ہیں۔ اس موقع پر امریکہ کا یہ بیان کہ اس کو پاکستان کی حکومت کے مستقبل پر تشویش ہے، کوئی اچھی پیش رفت نہیں لگتی۔ یہ پاکستان کا مکمل طور پراندرونی معاملہ ہے۔ اس کے لیے امریکی حلقوں اور امریکی حکومت کو تشویش کی ضرورت نہیں اور پھر امریکی کئی معاملات میں پاکستان سرکار کے لیے مشکلات پیدا کرتے رہے ہیں اور خاص طور پر دفاعی معاہدوں کے معاملات میں ان کا کردار بہت ہی مشکوک ہے۔ پاکستان افغانستان میں ا مریکہ کی مدد کرسکتا ہے۔ امریکی شرائط پر نہیں۔

اس وقت امریکہ پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ دوبارہ کرتا نظرآتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی حلقے اگرچہ نومور کہتے نظرآرہے ہیں جو ضروری نہیں۔ افغانستان میں امریکہ کی مدد کی جاسکتی ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ افغانستان میں چین اورا یران کے کردار کی اہمیت کو حیثیت دے۔ پاکستان چین کے ساتھ رابطوں اورراستوں کو تجارت کے لیے آسان کررہا ہے۔ اس کا فائدہ بھارت کو بھی ہوسکتا ہے۔ بھارت کو افغانستان میں اپنی روش بدلنی ہوگی۔ اگر بھارت اپنی روش نہیں بدلتا تو آنے والے دنوں میں پاکستان اور ہندوستان ایک روایتی جنگ میں شریک نظر آتے ہیں اوراس بات کا اندازہ امریکہ کو بھی ہے۔ اس جنگ سے سب سے زیادہ نقصان دونوں ملکوں کی جمہوریت کا ہوگا۔ فیصلہ امریکہ کو کرنا ہے۔ پاکستان کسی صورت میں جنگ نہیں چاہتا۔ میاں نوازشریف قربانی دے چکے ہیں مگر جمہوریت اور ترقی کا سفر جاری ہے۔ ملک کے اندر بھی جمہوریت کے لیے اشرافیہ کا رویہ خطرناک ہے۔ امریکہ کو اشرافیہ کا نہیں پاکستان کے عوام کا مفاد دیکھنا ہوگا۔ امریکہ اپنی مشکلات میں کمی کے لیے ہمارے کندھے استعمال نہ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).