دو سو سالہ لمبی حیاتی کا راز


17 اکتوبر سرسید احمد خان کی ولادت کا دن ہے۔
1817سے آج اکتوبر 2017 تک، دو سو سال گزر گئے۔ تعلیم و تمدن میں جدت کے لیے ان کی کوششوں کا تذکرہ آج بھی زندہ ہے۔ دنیا کے دسیوں ممالک میں روشن خیال، اردو پسند آج بھی ان کی خدمات کو یاد کرتے اور ان سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔

سرسید کی ذہنی و فکر ی تشکیل اور اس کا ارتقا نشیب سے فراز کی طرف کا ایک دلچسپ سفر ہے۔
’’در ابطال حرکت زمین‘‘ سے شہنشاہوں کی آئین نگاری تک۔ ابتداً وہ قدامت پسندانہ سوچ بچار کے قلم کار دکھائی دیتے ہیں۔
’آثار الصنادید‘ کو ہی لیں، عظیم کلاسیکل عمارتوں کی بناوٹ سجاوٹ کے ماخذ تلاشنا ایک تخلیقی سرگرمی تھی۔ مصلحانہ سے زیادہ ایک فنکارانہ اظہار عقیدت! مگر پھر اس آرٹسٹ کے دل کے افسانے ذہن رسا تک پہنچے۔
بات چل نکلی تو عظیم عمارتوں میں بیٹھے قدیم بادشاہوں کی اس نا اہلیت پر وہ سخت رنجیدہ ہوئے کہ ’ سلطنت ‘ جن کے عہد میں انتظامی، معاشی، تعلیمی اور دفاعی حوالوں سے کھوکھلی ہو گئی۔ اتنی کہ چند ہزار بدیسی تاجروں نے سب الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔

وہ مزید بدظن ہوئے، جب غالبؔ جیسے بادہ خوار صوفی نے ان کی تحقیق کے دیباچے میں لہراتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ میاں اب قدیم عمارتوں سے نکلو اور بدلتی ہوئی جدید دنیا کی سیر کرو۔ غالبؔ کی وفات کے سال وہ سفر انگلستان پر تھے جہاں کی علمی صنعتی حیرتوں نے انہیں جدید تعلیم و تمدن کے اور قریب کردیا۔ تب، اردو ادب نے ان کے ’ہاتھوں ‘ تہذیب اور سماج میں عقل، تجربہ، سوال اور بت شکنی کے ابتدائی (اور کئی حوالوں سے انتہائی ) ’قدم ‘ اٹھائے۔

اٹھارویں اور انیسویں صدی کے برصغیر میں، شدید حبس زدہ سماجی عمل کے نتیجے میں، انگڑائی لیتے یہ چند قدم بھی غنیمت تھے کہ بہرحال یہ انگڑائی لیتے تھے جمائی نہیں۔

طبقات اور استحصال کی بیخ کنی کے بغیر ان ’اقدامات‘ سے معاشرہ کس حد تک روادار، پرامن اور اجتماعی فلاح و مساوات کا آئینہ دار بن سکتا تھا، اس ’تصوری بحث‘ سے قطع نظر ہم دیکھتے یہ ہیں کہ ان کا مطمع نظر ہندوستان میں، تذویراتی گیرائی میں گری، آج کی، روہنگیا قوم کو بچانے کی اپنی سی کوشش کرنا تھا۔

وہ بدقسمت مخلوق جو عقیدت، قدامت، قسمت کی وحشت میں بھاگتی تھی تاکہ خداؤں کے اشتعال سے بچے مگر جائے پناہ کہیں نہیں تھی۔ پیچھے پھیلی عظیم تاریکی اور اوپرفلک تک پھیلی عظیم دھند میں صرف آنسو تھے، ماتم تھا اور چاروں طرفیں ’جو خدا کی مرضی‘ کا پرسہ بانٹتی پھرتی تھیں۔ تب انیسویں صدی کے اس اقبالؔ بلند نے انہیں یوں حوصلہ دیا :
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے!

آپ فکری زندگی کی ابتدا ہی سے ایک نامطمئن شخصیت دکھائی دیتے ہیں۔

نوجوانی میں دائیں بائیں پھیلی کہنہ روایات کے خلاف عملی نقطہ نظر پورے اعتماد سے سامنے لایا۔ پھر سن 1857 کا سیاہ دور آیا تو ناکام جنگ آزادی اور اس کے بعد کے حالات نے انہیں جھنجوڑ کے رکھ دیا۔

علم، ٹیکنالوجی اور جدت سے محروم ہندوستانی قوم کا ایک ذہین بدیسی قوم سے ٹکراؤ اور نتائج سرسید کو ٹھنڈے دل سے سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور یہ’ ٹھنڈا دل‘ ان کی دانست میں درج ذیل اقدامات کا متقاضی ہوتا ہے۔

اولاً، بدیسی فاتح کا غیظ وغضب کم کرنے کے لیے وہ نظری اور عملی طور پر ہندوستانی قوم کے اشتعال کے بنیادی اسباب سامنے لاتے ہیں۔ پہلی کوشش آپ کی دو مختلف الجثہ تہذیبوں کو براہ راست ٹکراؤ سے بچانا ہے اور دوسری شکست کی بنیادی وجوہات کا کھوج لگانا ہے۔

اگر، بالفرض، سرسید کے اصل کام یعنی مسلمانوں کے لیے جدید علوم و فنون کے تصورات اور عملی اقدامات کو فراموش بھی کر دیا جائے تو ’ناکام جنگ آزادی‘ کے بعد ان کا مصالحتی مشن ہی انہیں غیر جذباتی مگر پر مصلحت شخصیت سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

شعور، سمت اور رہنما کے بغیر، تہذیبی تنوع سے رچی کروڑوں افراد کی کثیر المذہب ’سلطنت ‘ میں اگر بغاوت، ٹکراؤ، تشدد یا تعصب کی تحریک اٹھ کھڑی ہوتی تو ہندوستانی قوم کی کیا حالت رہ جاتی، آج کے افغانستان اور شام وغیرہ 1857کے ہندوستان سے جدید تر ہونے کے باوجود طوائف الملوکی کی جس کیفیت سے گزر رہے ہیں، صرف اسی سے ہی سرسید کی حقیقت پسندانہ دور اندیشی کو سمجھا جا سکتا ہے، جو کہ مخصوص حالات میں انہوں نے سمجھی بھی اور سمجھائی بھی۔

سو سوا سو سال بیت گئے۔ جہالت اور ٹکراؤ کے بجائے، قوم کو علم، شعور اور تہذیب کی طرف متوجہ کرنے کے لئے سرسید کی مختلف شعبہ حیات میں کی گئی کاوشوں کا تذکرہ بھی جاری ہے اور چشمہ بھی! بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید حالات اور نئے چیلنجز میں فکرِ سرسید کی ضرورت پہلے سے بھی بڑھ رہی ہے مگر۔ (اور افسوس کہ یہ ”مگر“ شاندار ماضی کی ہماری اکثر کہانیوں کے آخر میں آجاتا ہے)۔ مگر۔ آج اس تشویشناک وحشت ناک صورتحال میں ایک اور سرسید تو کجا، ہم فکر سرسید کے روشن پہلوؤں سے ہی دور ہو چکے۔

دو سو سال پہلے کے سماج میں ایسے دھیمے بزرگ بھی باآواز بلند معجزاتی کرامتوں کے بجائے محض علوم مفیدہ و لطیفہ کے کشف کے قائل دکھائی دیتے ہیں اور اپنا یہ کھردرا نقطہ نظر کسی خوف خطرے کے بغیر اخباروں میں چھاپتے پھرتے تھے۔ مثلاً

’’قدیم اصول یہ تھا کہ انسان مذہب کے لیے پیدا ہوا
جدید اصول یہ ہے کہ مذہب انسان کے لیے پیدا ہوا

قدیم اصول یہ ہے کہ نیکی دوزخ کے عذاب سے بچنے کے لیے کرنی چاہیے
جدید اصول یہ ہے کہ ہماری نیچر کا تقاضا یہی ہے کہ ہم کو نیک ہونا چاہیے
( بحوالہ: مذہبی خیال زمانہ قدیم اور جدید کا مشمولہ تہذیب الاخلاق )

مگر آج کی بڑی خبر یہی ہے کہ اپنی اکثریت یا تو حالات کی سنگینی اور چیلنجز سے آشنا ہی نہیں یا پھر ان سے نکلنے کے لئے وہی مقدس، جذباتی اور کھوکھلے نعروں کا سہارا لینا چاہتی ہے۔

دوسری طرف، تحمل اور رواداری کے ساتھ، یار و اغیار کی طعنہ زنی کے باوجود، نئی پود کو خرد افروزی، عقلیت و جدت پسندی اور معاملات و محرکات کو باریک بینی سے’ سمجھنے سمجھوانے ‘کی سرسیدانہ کوشش حکام میں ملتی ہے نہ عوام میں۔ !

اس سب کے باوجود دل، نو امید نہیں، ناکام ہی تو ہے۔
سماج سست روی سے ہی سہی، بہرحال بدل رہا ہے۔
عاصمہ کے لیکچرز میں شرکا سر ہلاتے ہیں اور شیما کے رقص پر جسم و جاں۔
ملک کا وزیر داخلہ دلیل سے اعتماد سے اپنی بات سامنے لاتا ہے اور صوبے کا وزیر داخلہ سابق ہو کر بھی دھتکارے ہوؤں کے ٹی وی پروگرام میں آتا ہے۔
مسکراتا ہے۔

دو سو سالہ یوم پیدائش پر فکر سرسیدکی قبولیت، عالم عالم احیائی تذکرہ اور سماج و سیاسیات میں روشن فکری کی چند یہی ابتدائی سی انگڑائیاں بھی ذہن و دل کو پر لگاتی ہیں۔ دل گمان کرتا ہے بلکہ خوش گمانی کرتا ہے کہ شاید یہ بانجھ پن کبھی زرخیزی میں بھی بدل جائے۔ ’ شجر کاری، کی روایت پنپے اور شجر سایہ دار کے کٹنے کے رنج کے ساتھ ساتھ، خشک کھیتیوں میں نئے امکانات کی سرسبزگی اور شادابی کی کوشش بھی دکھائی دے۔ آمین!

ہمیں سرسید کے توصیفی و تجزیاتی تذکروں کے ساتھ خود بھی اصلاح احوال کے لیے وقتی، ہنگامی اور انفرادی آسائشوں سے تھوڑا اوپر اٹھ کر خردافروزی اور سائسی طرز استدلال کے احیا کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانی چاہئیں۔ سرسید نے روایات و اعتقادات کی نازک بحث چھیڑنے کے حوالے سے خود پہ ہونے والی تنقید کا جواب رسالہ ’تہذیب الاخلاق میں یوں دیا تھا۔

’’جس قوم کی حالت ایسی ہو کہ وہ سچ کو بھی گر اُن کے عقیدے کے برخلاف ہو، سچ سمجھنا کفر سمجھتے ہوں تو اس کی خراب حالتِ معاشرت کے درست کرنے کو کس طرح مذہبی بحث سے بچا جائے۔ ایک مرتبہ بہت بڑے عالم اور مقدس اورنیک، فرشتہ خصلت، کی مجلس کا ذکر کرتا ہوں۔ اُن کے مدرسہ میں ایک طالب علم نے پوچھا کہ حضرت تمام علماء علم ہیئت نے تسلیم کیا ہے کہ زمین گول ہے (مگر) بعض حدیثوں سے پایا جاتا ہے کہ مسطح ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اگر تم اپنی آنکھ سے دیکھ لو کہ زمین گول ہے تو بھی یہی یقین رکھو کہ مسطح ہے۔ لوگوں نے کہا سبحان اللہ قوتِ ایمان کے یہ معنی ہیں۔
اُس وقت ہمارے دل پر بھی ایسا ہی اثر ہوا جو اوروں کے دل پر تھا۔ مگر جب آدمی غور کرئے تو سمجھ سکتا ہے کہ آخر یہ کیا بات ہوئی“
( بحوالہ: سرسید اور جدیدیت از ڈاکٹر افتخار عالم خاں، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، انڈیا)

برصغیر میں، دو صدیاں قبل علم دوستی، روشن خیالی اور کشادہ فکری کے اس داعی کی تاریخی سالگرہ پر سب کو مبارک باد۔ بلاشبہ ایسی روشن خیال شخصیات صبح پرستوں کے لیے ان پہلی کرنوں جیسی حیثیت رکھتی ہیں جو ماضی کی سیاہ رات میں، تیر ظلمات میں بھی مستقبل کے امکانات سے مایوس نہیں ہوتیں۔ خاکسار نے کبھی ان پہ ایک نظم کہی تھی جس کا اختتامی شعر یوں تھا

جذبہ رستہ سچا ہو اور من میں ہمت جدت ہو
تو ’گُم رِہ ‘ کہنے والوں کی بھی نسلیں جشن مناتی ہیں!

شکور رافعؔ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).