این اے فور پشاور گیا تو مسلم لیگ نون پھر پنجاب بچائے


ارباب عامر ایوب نے اپنے حامیوں کا جرگہ بلایا۔ اس جرگے کو بتایا کہ میرا بھائی تو اے این پی کی طرف سے وفاقی وزیر تک رہا۔ لیکن چار پانچ قومی سیٹوں کی پارٹی کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔ اس کی کوئی سنتا ہی نہیں تھا میں نے اب مسلم لیگ نون میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ نون کا پنجاب مضبوط ہے۔ حکومت میں آتی رہتی ہے تو پھر ہمارے حلقے کے کام بھی ہو سکیں گے۔ یہ سب کہہ کر اب یہی ارباب عامر این اے فور سے اب پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ ان کے بھائی ارباب ظاہر پچھلے تیس سال میں سب سے زیادہ تین بار یہاں سے اے این پی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی پہنچے۔

پی ٹی آئی سیٹ نہ جیتے یہ تو کے پی کی ہر پارٹی دل سے چاہتی ہے۔ اے این پی کو زیادہ بڑا چیلنج درپیش تھا کہ انہیں ارباب عامر کے امیدوار بننے کے بعد اپنا ووٹ بنک بھی ارباب فیملی سے الگ کرنا تھا۔ اے این پی کے دو ہزار اٹھارہ میں این اے فور سے متوقع امیدوار ارباب کمال ہیں۔ اپنا ووٹ بنک واپس لانے کے لیے البتہ اے این پی نے ٹکٹ اس حلقے میں اپنے سب سے مقبول کارکن خوشدل خان کو دیا۔ ۔ ارباب فیملی سے اے این پی اپنا ووٹ الگ کرے تو نقصان پی ٹی آئی کے ارباب عامر کو ہی دکھائی دیتا تھا۔ سیٹ جیتنے کا نہ ارادہ تھا نہ امید لیکن خوشدل خان نے ایسے مہم چلائی کہ اب وہ مضبوط ترین امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔ اسفندیار ولی خان اس حلقے میں جلسہ کر چکے ہیں۔

دو ہزار تیرہ کے جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کے گلزار خان اس سیٹ سے الیکشن جیتے تھے۔ انہوں نے پچپن ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ نون پر ناصر موسی زئی رہے تھے جن سے گلزار خان کی برتری تیس ہزار ووٹوں کے لگ بھگ تھی۔ گلزار خان کے حاصل کردہ ووٹوں کا ایک بڑ ا دلچسپ پہلو ہے۔ این اے فور کے نیچے تین صوبائی حلقوں سے بھی پی ٹی آئی ہی جیتی تھی۔ ان تینوں حلقوں کے سے جیتنے والے امیدواروں نے جو کل ووٹ حاصل کیے گلزار خان نے ان سے بھی پندرہ ہزار ووٹ زیادہ لیے تھے۔ اب یہ اضافی ووٹ یا تو کپتان کے تھے یا پھر گلزار خان کے اپنے۔ لیکن صوبائی امیدوار بھی تو کپتان کے ہی جیتے تھے۔ دھرنے کے دوران گلزار خان نے استعفی پارٹی کے پاس استعفی جمع کرانے سے انکار کیا اور کپتان سے پھر ان کی راہیں الگ ہی رہیں۔

گلزار خان کی وفات پر پی ٹی آئی کا کوئی اہم لیڈر ان کی دعا کے لیے نہیں آیا۔ ان کے فرزند اسد گلزار اب پی پی میں شامل ہو چکے ہیں۔ وہی این اے فور سے پی پی کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ پی پی میں تین مزید اہم لوگ بھی شامل ہوئے ہیں۔ ناصر پور سے سدا بہار سیاستدان صوبائی اسمبلی کے کئی بار رکن رہنے والے ارباب ایوب جان مرحوم کے فرزند بھی پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ ارباب سعد اللہ اے این پی کے ٹکٹ پر اسی حلقے سے ستانوے میں ممبر قومی اسمبلی بنے وہ بھی پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ اسی حلقے میں مانکی شریف کے پیروں کا بہت اثر ہے پیر نبی امین بھی پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ اتنی بھاری بھرکم شمولیتوں کے بعد پی پی امیدوار کو نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

مسلم لیگ نون کے امیدوار ناصر موسی زئی واحد امیدوار ہیں جو دوسری بار اسی حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ باقی تمام امیدوار نئے ہیں اور پہلی بار میدان میں اترے ہیں۔ ناصر موسی زئی نے پچھلی بار دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ انہوں نے جو کل ووٹ حاصل کیے تھے وہ مسلم لیگ نون کے تینوں صوبائی امیدواروں کے مجموعی ووٹوں سے سات ہزار کم تھے۔ یعنی مسلم لیگ نون کے صوبائی امیدوار اپنے حاصل کردہ ووٹ اپنے ہی قومی اسمبلی کے امیدوار کو نہیں دلوا سکے تھے۔

کے پی کے تین سیاستدان ایسے ہیں جو بم پروف برادران ہیں۔ امیر مقام آفتاب شیر پاؤ اور مولانا فضل الرحمن تینوں پر دہشت گردوں نے بار بار حملے کیے ہیں۔ شکر ہے کہ یہ تینوں سیاستدان محفوظ رہے ہیں اور یہی تینوں سب سے زیادہ رابطہ عوام میں مشغول رہتے ہیں۔ این اے فور پر یہ تینوں ہی مسلم لیگ نون کے ناصر موسی زئی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ مولانا کے ماننے والوں کے ایک تہائی ووٹ بھی ناصر موسی زئی کو پڑ گئے تو وہ آسانی سے ہاریں گے نہیں۔ امیر مقام کا تو خیر اس حلقے سے براہراست تعلق یوں بھی ہے کہ وہ یہاں سے دو ہزار آٹھ میں الیکشن لڑ چکے ہیں۔ اس الیکشن میں انہوں نے پوزیشن تو چوتھی حاصل کی تھی لیکن ووٹ کافی مناسب لیے تھے۔ امیر مقام نے اس حلقے سے براہراست رابطہ رکھا ہے یہ علاقہ دہشت گردی سے بہت متاثر رہا ہے کہ تین اطراف سے فاٹا کے ساتھ منسلک ہے۔

جماعت اسلامی کے واصل فاروق یہاں سے امیدوار ہیں۔ ان کا تعلق بھی ایک اہم گاؤں چمکنی سے ہے جہاں سے وہ ناظم بھی منتخب ہوچکے ہیں پہلے۔ کلین شیو ہیں نہایت سرگرم سیاسی کارکن ہیں۔ چمکنی جھگڑا اور ناصر پور کے خان روایتی سیاسی حریف رہے ہیں۔ اقبال ظفر جھگڑا اس وقت صوبائی گورنر ہیں۔ این اے فور میں سب سے اہم اور سائلنٹ ووٹر آفریدی قبائل کا ہے۔ قبائل لندن میں بھی رہتے ہوں تو پی اے کا کہا جلدی نہیں ٹالتے اور پی اے گورنر کے ہی ماتحت ہوتا ہے۔

اس حلقے کا ایک تفصیل چکر بھی لگایا۔ یہ بھی دیکھ لیا کہ سارے ہی امیدوار اپنے اپنے روایتی علاقوں میں مضبوط ہیں۔ یہ بھی پتہ لگ گیا کہ کس پارٹی کے جھنڈے گھروں پر لگے ہیں اور کس نے کھمبوں پر لٹکا کر ہی اپنے آپ کو تسلی دی ہے۔ ملی مسلم لیگ کے امیدوار بھی دکھائی پوری طرح سرگرم ہیں۔ نتیجہ کیا نکلے گا اس بارے کچھ بھی کہنے سے معزرت بھائی یہ کے پی کا ووٹر ہے کچھ بھی کر دے گا۔ لیکن بتانے والی بات کچھ اور ہے وہ یہ کہ پچھلے کئی ہفتوں سے آپ کا اپنا وسی بابا پنجاب کے بلدیاتی نمائندوں کی نبض دیکھ رہا ہے۔ ابھی صرف اتنا سنیں کہ این اے فور کا الیکشن بڑا کچھ طے کرنے جا رہا ہے۔ مسلم لیگ نون یہ سیٹ ہاری تو اس کی نالائقی ہو گی۔ کپتان یہ سیٹ ہارا تو اس کو پاکستان بھر میں ایک دھچکا لگے گا۔ جیت گیا تو اس کی سیاست کو مطلوبہ کرنٹ مل جائے گا پھر شریفوں کو پنجاب بچانے کا سوچنا ہو گا

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi