مذہب سے وقتی لگاؤ اور لڑکیوں کی شادیاں


بیٹا ثمرین کے لیے کوئی مناسب رشتہ ہو تو بتانا۔ تم تو جانتے ہو ماشاءاللہ روزے نماز کی پابند ہونے کے ساتھ ساتھ دینی اور دنیاوی دونوں تعلیم سے آراستہ ہے میری بچی۔ اِس کے علاوھ عالمہ کا کورس بھی کررہی ہے۔

بیٹا اِس کے لیے نیک و شریف اچھے اخلاق و کردار کا حامل لڑکا تمھاری نظر میں ہو تو ضرور بتانا اللہ پاک تمھیں اِس کا اجر دیگا۔ میں اِس کی وجہ سے بڑی فکرمند ہوں۔ عمر ایسے ہی نکلتی جارہی ہے۔ ہر ماں کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ میرا ڈولا اٹھنے سے پہلے اِس کی ڈولی اُٹھ جائے۔ تاکہ کم از کم قبر میں تو سکون کی نیند سو سکوں۔

یہ ہمارے پڑوس کے دو مکان چھوڑ کر تیسرے مکان میں پچھلے چھ سال سے کرائے پر رہائش پذیر زرینہ خالہ تھیں جو اپنی اکلوتی بیٹی کے رشتے کےلیے کافی پریشان تھیں۔ ویسے تو زرینہ خالہ کا ثمرین سے بڑا ایک جوان بیٹا بھی تھا۔ جو بہن کی شادی کرنے سے پہلے اپنی شادی کرکے زندگی کے جھمیلوں میں گرفتار ہوچکا تھا۔ ایسے میں شوہر کے انتقال کے بعد بیٹی کی ساری ذمہ داری زرینہ خالہ کے کاندھوں پر آ چکی تھی۔ جس سے وہ جلد از جلد بری الذمہ ہونا چاہتی تھیں۔

آنٹی میری نظر میں ایک رشتہ ہے تو جو کہ میں سمجھتا ہوں ثمرین کے حوالے سے بالکل مناسب رہے گا۔

اچھا۔ بیٹا کون ہے کہاں رہتا ہے کیا کرتا ہے۔ زرینہ خالہ نے پرمسرت انداز میں انتہائی بےچینی کی ساتھ فوری جواب کےلیے مجھ سے ایک ساتھ تین سوال کر ڈالے تھے۔ ارے خالہ اپنی مسجد کے موذن صاحب جناب مولانا رزاق ہیں ناں۔ اُنکے بارے میں کہہ رہا تھا۔ انتہائی نفیس انسان ہیں۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم پر بھی مکمل عبور حاصل ہے۔ مولانا رزاق کا نام سنتے ہی خالہ کا مسکراتا چہرہ ایک دم پھیکا سا پڑ گیا۔ نہ بیٹا مولوی کا رشتہ نہیں۔

کیوں خالہ مولانا رزاق با اعتماد شخصیت ہیں۔ تقریباً پچھلے دس سال سے میں انھیں انتہائی قریب سے جانتا ہوں۔ آج تک اُن سے متعلق کسی بھی طرح کی ایسی ویسی بات دیکھی نہ سنی۔ بیٹا وہ سب ٹھیک ہے لیکن اِس رشتے کے لیے نہ ثمرین مانے گی اور نہ میرا دل راضی ہوگا۔ بیٹا وہ مولوی ہے اور تمھیں پتا ہے مولوی مذہب کے معاملے میں کتنے پکے ہوتے ہیں۔ ہاں تو خالہ یہ تو اچھی بات ہے ناں۔ اپنی ثمرین بھی تو دیندار لڑکی ہے ساتھ عالمہ کا کورس بھی کررہی ہے۔ دونوں کے ذہن ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہی سوچ کر تو میرے ذہن میں مولانا رزاق کا خیال آیا۔

نہیں بیٹا اتنا مذہبی نہیں۔ لڑکا تھوڑا دنیا داری بھی جانتا ہوں۔ دین کے ساتھ ساتھ تھوڑا روشن خیال بھی ہو۔ پہنانے اوڑھانے سے لے کر گھمانے پھرانے تک سب ہی شوق رکھتا ہو۔ اور وقت کے حساب سے چلنے کا عادی ہو۔

میں زرینہ خالہ کے منہ سے اِس طرح کی بات سن کر دنگ رہ گیا۔ خالہ ابھی تو آپ نے بتایا آپ کی بیٹی روزے نماز کی پابند ایک مکمل باشرع لڑکی ہے۔ پھر اُس کے لیے آزاد و روشن خیال لڑکا ڈھونڈنے کا کیا مطلب ہے۔

بیٹا روزہ نماز کے پابند اور باشرع ہونے کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ انسان دنیا داری ہی بھول جائے۔ میری بیٹی کے سینے میں بھی دل ہے۔ وہ بھی دوسری لڑکیوں کی طرح ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتی ہے۔

زرینہ خالہ کی اِن باتوں نے مجھے مزید حیرانی میں ڈال دیا تھا۔ خیر میں خالہ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا دیکھیں خالہ اگر آپ کو اپنی بیٹی کے لیے آزاد اور روشن خیال لڑکا چاہئیے تھا تو آپ نے اپنی بیٹی کو بھی اُسی حساب سے تربیت دینی تھی۔ اسے دنیا داری کے ساتھ ساتھ معاشرے کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ بناؤ سنگھار سے لے کر خوبصورت نظر آنے کے تمام گر اسے سکھانے چاہئیے تھے۔ تاکہ آزاد اور روشن خیال طبقے سے تعلق رکھنے والا لڑکا اور اُس کی فیملی کی نظر میں آپ کی بیٹی ایک پرفیکٹ آئیڈیل کے طور پر جانی جاسکے۔ جبکہ آپ نے اپنی بیٹی کی تربیت اِس کے بالکل برعکس کی ہے۔ ایسے میں وہ کسی آزاد و روشن خیال لڑکا یا فیملی کو کیسے پسند آسکتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے اُن لوگوں کی ڈیمانڈ کچھ اور ہیں۔ موجودہ صورتحال میں تو اسے کوئی مذہبی فیملی ہی قبول کرسکتی ہے۔

قارئین یہ کہانی صرف زرینہ خالہ کے گھر کی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں موجود بیشتر لوگوں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب و متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں گھر بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ والدین مذہبی ذہن رکھنے کے باعث بچیوں کے گمراہ ہونے کے خوف سے اُن کی تربیت کچھ اِس طرح کرتے ہیں کہ بیٹی چادر اور چار دیواری کی ہوکر رہ جاتی ہے۔ گھر داری تو انھیں سکھائی جاتی ہے مگر معاشرے کے جدید تقاضوں سے انھیں مکمل طور پر دور رکھا جاتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انھیں عزیز واقارب کے شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت کےلیے بناؤ سنگھار کا طریقہ بھی نہیں آتا۔ ایسے میں وہ ایسی فیملیز کی توجہ حاصل نہیں کر پاتیں جو اپنے لیے بہو کی تلاش میں کوشاں نظر آتی ہیں۔ ایسے میں لڑکیوں کا جھکاؤ وقتی طور پر دلی اطمینان کے حصول کے لیے مزید مذہب کی طرف ہوجاتا ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہئیے ایسی لڑکیوں کےلیے ذہنی ہم آہنگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دینی لگاؤ رکھنے والے شخص کا ہی انتخاب کیا جائے۔ لیکن چونکہ لڑکیوں کی جانب سے دینی رغبت وقتی ہوتی ہے۔ جوکہ وہ دراصل اپنی فرسٹریشن کو دور کرنے کے لیے اپناتی ہیں۔ ایک مذہبی شخص کے ساتھ زندگی گزارنا نہیں چاہتیں۔ کیونکہ ایک دیندار شخص شادی کے بعد بھی اپنی بیوی کو ایک مکمل باشرع زندگی گزارنے پر مجبور کریگا اور یہ کام اُن سے ہوگا نہیں۔ ایسی صورتحال میں لڑکیاں چکی کے دو پاٹ کے درمیان پس جاتی ہیں۔ مولوی انھیں پسند نہیں اور آزاد و روشن خیال کو وہ پسند نہیں۔ بس یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث لڑکیوں کی مناسب رشتوں کے انتظار میں عمریں نکل رہی ہیں۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ ماں باپ کی جانب سے لڑکیوں کی تربیت کچھ اِس طرح سے کی جائے کہ بچیاں دینی نظریات کے ساتھ ساتھ معاشرے کے جدید تقاضوں سے بھی مکمل ہم آہنگ ہوں۔ تاکہ بوقت ضرورت خود کو باآسانی ہر سانچے میں ڈھالا جاسکے۔

یہاں حکومت پاکستان چاروں صوبائی حکومتوں سے بھی گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ لڑکیوں کے تعلیمی مراکز میں امورِ خانہ داری کے ساتھ ساتھ اسکول میں بیوٹیشنز کی کلاسوں کا بھی خاص اہتمام کریں۔ تاکہ لڑکیوں کے اندر خود کو بہتر بنانے اور دلکش نظر آنے کا جذبہ جاگے اور مستقبل میں وہ ایک آئیڈیل زندگی گزار سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).