پاکستان میں خالص آمریت لائی جائے


سب شکایت کرتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت خالص نہیں ہے۔ لیکن سب کو یہ بھِی دیکھنا چاہیے کہ ادھر آمریت کون سا خالص رہی ہے، پھر بھی کتنی پسند ہے سب کو۔ حق بات بھی یہی ہے کہ ہمارے ملک میں جہالت کا لیول اتنا زیادہ ہے کہ یہاں جمہوریت چل ہی نہیں سکتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کا خواب دیکھتے ہوئے اقبال نے جمہوریت کی مذمت کی تھی اور بتایا تھا کہ اس میں بندوں کو گنا جاتا ہے، تولا نہیں جاتا۔

کوئی بھی ذی شعور شخص اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ سیاست سے لے کر بھینس کے دودھ تک میں سے کرپشن ختم کرنے سمیت ہر مسئلے کا حل صرف محب وطن آمریت میں ہی ہے۔ آپ کو شاید یاد ہو گا کہ جب پہلی مرتبہ عظیم مجاہد فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمریت آئی تھی تو قصائیوں اور حلوائیوں تک نے اپنی دکانوں کے منہ کو جالیاں لگا کر بند کر دیا گیا تھا کہ کہیں مکھی دیکھ کر آمر پکڑ نہ لے۔ سیاست دانوں کے منہ بند کرنے کو ایبڈو لگایا گیا تھا۔ ہر چیز سستی ہو گئی تھی۔ ملک بھر میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پینے لگے تھے اور کوئی پوچھنے کی جرات تک نہیں کر پاتا تھا کہ بکری کہاں گئی۔ قصہ مختصر کہ خالص آمریت کے بہت فائدے ہوتے ہیں۔ جب ایوب خان نے خالص آمریت میں ملاوٹ کر دی اور 1962 کا دستور بنا دیا تو پھر ہی ملک میں بگاڑ پیدا ہوا۔

بدقسمتی سے اس کے بعد ہمیشہ پاکستان میں بناسپتی آمریت ہی رہی ہے۔ ضیا الحق کے بدترین مارشل لا میں بھی ہمارے ملک کا وہ حال نہیں ہوا تھا جو ایک خالص آمر کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر سکا۔

ایران کو دیکھ لیں۔ سنا ہے کہ جب تک ایران میں شاہ کی حکومت رہی، عوام کو جلسہ جلوس کرنے کی اجازت ہی نہ تھی۔ عید میلاد النبی تو ایک طرف، شیعہ اکثریتی ایران میں محرم تک کے جلوس نکالنے پر پابندی تھی۔ ہر خالص آمر کی طرح شاہ کی طبیعت عوام کا ہجوم دیکھ کر گھبراتی تھی۔ عراق میں بھی یہی ماجرا تھا۔ صدام حسین نے ملک کے جاہل عوام کو خالص آمریت کے بل پر ڈنڈے کی طرح سیدھا رکھا ہوا تھا۔

مصر بھی ایک اچھی مثال ہے۔ یہاں تھوڑا سا مختلف ماڈل استعمال کیا جاتا ہے۔ کہنے کو تو صدر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے، مگر یہ انتخاب ویسا ہی ہوا کرتا ہے جیسا جنرل ضیا یا جنرل مشرف کا ریفرینڈم تھا۔ نوے پچانوے فیصد عوام کے ووٹ جمہوری ڈکٹیٹر کے بکسے سے نکل آتے ہیں۔ درمیان میں کچھ عرصے اخوان کے محمد مرسی کو صدر بنایا گیا تھا مگر ناقص جمہوریت کی وجہ سے نظام میں خلل پیدا ہوا تو جنرل السیسی کو دوبارہ آمریت لانی پڑی۔

جمہوریت میں بے پناہ نقائص ہیں۔ ہمارے تمام سیاسی لیڈر کرپٹ، غدار اور جاہل نکلتے ہیں۔ جس شخص کے منہ میں جو آئے بول دیتا ہے۔ نہ ملک کے مفاد کا خیال رکھتا ہے اور نہ عزت کا۔ کبھی مختاراں مائی اپنی عزت لٹوا کر ملک کو بدنام کر دیتی ہے تو کبھی شرمین چنائے تیزاب حملوں پر فلم بنا کر۔ حد تو یہ ہے کہ ملالہ جیسی ننھی بچی سر میں گولی کھا کر پوری دنیا میں پاکستان کی عزت خاک میں ملا دیتی ہے۔ ہر شخص ہر چیز کا ماہر بنا بیٹھا ہے۔ دکان پکوڑوں کی ہوتی ہے اور بات کروڑوں کی کرتا ہے۔ حجام سیاست کا ماہر ہوتا ہے، نانبائی کرکٹ کا، پروفیسر اچھا نان لگانے کا۔ لیکن ایک خالص آمریت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ سب لوگ اپنے پراگندہ خیالات اپنے دماغ کے اندر ہی محفوظ رکھتے ہیں اور ملک کی عزت بچی رہتی ہے۔ آپ کو مثال دیتے ہیں۔

کوئی ڈیڑھ دو برس قبل ایک مشہور مصری قاری پاکستان تشریف لائے۔ اچھے ضعیف العمر شخص تھے۔ میزبان نے ہمیں بھی خاص مہمان جان کر ان کے ساتھ بٹھا دیا کہ مل کر بات کرو اور کھانا کھاؤ۔ ہم نے سوچا کہ چلو مصر کا حال جانتے ہیں۔ قاری صاحب سے پوچھ لیا کہ ادھر مصر میں کیا حالات چل رہے ہیں؟ بخدا اتنے ضعیف شخص کو اتنی تیزی سے دوڑتے ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ کھانا ادھر ہی چھوڑ گئے۔ جاتے جاتے بمشکل یہ کہہ پائے کہ ”مجھے کچھ پتہ نہیں ہے“۔ پتہ نہیں وہ کیوں ہمیں جنرل السیسی کا جاسوس سمجھ بیٹھے تھے۔

افواہ سن رکھی تھی کہ خالص ڈکٹیٹر شپ والے ممالک میں آپ کے ارد گرد کا کوئی شخص بھی ڈکٹیٹر کا جاسوس ہو سکتا ہے۔ یہ جاسوس آپ کے گھر کے اندر بھی ہو سکتا ہے اور دوستوں میں بھی۔ قاری صاحب کو اس طرح دوڑ لگاتے دیکھ کر یقین آ گیا کہ واقعی یہ سچ ہو گا۔ ڈکٹیٹر کو ذرا سی شکایت لگی اور بندہ غائب ہو گیا۔ سنا ہے کہ شام میں بھی حالیہ خانہ جنگی ایسے ہی شروع ہوئی تھی۔ سکول کے چند لڑکوں نے دیوار پر کچھ لکھ دیا۔ جاسوسوں نے ان کو اٹھا لیا۔ شامیوں کو عرب سپرنگ کا خمار چڑھا ہوا تھا۔ ہنگامے شروع کر دیے۔ یوں وہ خانہ جنگی ہوئی کہ لوگ اب خالص ڈکٹیٹر شپ کے پرامن دنوں کو یاد کرتے ہیں۔

تو میرے عزیز ہم وطنو۔ اگر آپ کو سیاسی حکمران کرپٹ اور نا اہل لگتے ہیں، ملک تباہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے، اپنے ہم خیالوں کے علاوہ ہر شخص دین و وطن کا غدار اور عقل کا دشمن دکھائی دیتا ہے، دودھ میں ملاوٹ اور دانت میں درد نے پریشان کر رکھا ہے، تو ہمارے ساتھ مل کر دعا کریں کہ ملک میں خالص آمریت آ جائے۔ پھر ہم آپ ایسی کوئی شکایت نہیں کر پائیں گے۔ کر دی تو پھر نہ شکایت رہے گی اور نہ شکایت کنندہ۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar