مدارس سے اتنا کچرا کیوں نکل رہا ہے؟


جب کبھی کوئی مدارس کی کمیوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہے تو مدارس کے وکلائے صفائی کا ایک ہی رٹا رٹایا جواب ملتا ہے کہ جدید تعلیمی اداروں میں بھی تو بہت سی خامیاں ہیں ان پر تنقید کیوں نہیں کرتے؟ مدارس کے ہی پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟ تو چلئے سب سے پہلے اسی کا جواب سن لیجیے۔ پرائیویٹ اسکول کالج اور یونیورسٹیاں خمس، زکوت، فطرہ اور دیگر رقومات شرعیہ سے نہ تو قائم ہوتی ہیں اور نہ چلتی ہیں لیکن مدارس عام مسلمانوں کی خون پسینہ کی کمائی میں سے ملنے والے عطیات سے ہی قائم بھی ہوتے ہیں اور چلتے بھی ہیں اس لئے ہر ایک کو حق ہے کہ وہ مدارس کا احتساب کر سکتا ہے۔ مدارس اپنے ناظم، مہتمم، مدیر یا پرنسپل کی ذاتیں جاگیریں نہیں ہیں۔ ہمیں یہ جاننے کا حق ہے کہ ہمارا خمس، زکوات اور عطیات کا پیسہ یہاں تک کہ قربانی کی کھالوں تک سے ملنے والی رقم کہاں صرف ہو رہی ہے اور اس سے کیا واقعی اسلام کی کوئی خدمت ہو بھی پا رہی ہے یا نہیں؟

اب اپنے مرکزی سوال پر آتے ہیں کہ آخر مدارس سے اتنا کچرا کیوں نکل رہا ہے؟ ہر سال برصغیر کے ہزاروں لاکھوں مدارس سے جو دسیوں لاکھ افراد فارغ ہیں ان میں سے کتنے واقعی فضلاء ہیں اور کتنا فضلہ ہے؟ مدارس کی تنزلی کے کئی اسباب ہیں۔ چلئے طالب علم ہی سے بات شروع کریں۔ مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کی اکثریت دو وجوہات سے مدارس میں داخل ہوتی ہے۔ یا تو اس کے گھر معاشی تنگی ہے اور والدین کو محسوس ہوا کہ مدرسہ میں رہے گا تو کچھ پڑھ بھی لے گا اور ہاسٹل سے دو وقت کی روٹی بھی پائے گا یا پھر وہ دنیاوی تعلیم پانے کے لئے اسکول میں داخل تو ہوا مگر اتنا کند ذہن اور کورا تھا کہ بار بار فیل ہونا اپنا شعار بنا لیا۔ تھک ہار کر ماں باپ سوچتے ہیں کہ اس کا پڑھنا مشکل ہے چلو مدرسہ میں ہی ڈال دو مولوی تو بن ہی جائے گا۔

دنیا کے کسی بھی ماہر تعلیم کو پڑھ لیجیے سب کا یہی کہنا ہے کہ تحصیل علم کا تعلق طالب علم اور علم کے درمیان ذہنی ہم آہنگی اور رغبت سے ہے۔ اب ظاہر ہے مجبوری اور مارا باندھی سے مدرسہ میں داخل ہونے والے ایسے طلبہ سے یہ امید رکھنا زیادتی ہے کہ وہ صحیح معنی میں تحصیل علم کر سکیں گے۔

اب ذرا نصاب پر چلے آئیے۔ مدارس میں سیکڑوں برس سے وہی پٹا پٹایا نصاب ہے۔ اس نصاب میں منطق اور فلسفہ کی وہ بحثیں ہیں جو اب قطعی غیر معنوی ہو چکی ہیں لیکن نصاب کی جدیدکاری کی بات کرو تو مدارس والے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ ارے ہاں، اس کے جواب میں مدارس والے فرماتے ہیں کہ کیا قرآن و حدیث کو پرانا کہہ کر نصاب سے ہٹا دیں؟ بالکل نہیں۔ قرآن اور حدیث علوم اسلامی کا منبع ہے لیکن موجودہ سیاق و سباق میں اس کی تفہیم تو کی ہی جانی چاہیے۔ نصاب کی جدید کاری پر مدارس والوں کی چڑ میں سمجھ سکتا ہوں۔ شاید انہیں ایسا لگتا ہوگا کہ اگر ہم نے نصاب کی فرسودگی کی بات مان لی تو کہیں ہمیں ہی نیا نصاب ترتیب نہ دینا پڑ جائے اس امتحان سے بچنے کی خاطر کٹ حجتی اچھا طریقہ ہے۔

ہم سب پر ہی کسی صاحب نے تبصرہ کیا کہ کیا مدارس میں جدید نصاب کے نام پر سیاسیات پڑھائی جانے لگے؟ اب اسی تبصرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے مدارس کیسے تاریک کنویں بن گئے ہیں؟ ذرا ٹھنڈے دل سے بتائیے کہ اگر عالم دین کا کام دین کی تفہیم ہے تو مدارس میں فلاسفی کیوں نہیں ہونی چاہیے؟ ، اگر عالم دین سماجی معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے تو سوشیالوجی مدارس کے نصاب کا حصہ کیوں نہ بنے؟ ، اگر عالم دین دعوت کا کام انجام دیتا ہے تو اس کو زمانہ طالب علمی میں سائیکالوجی کیوں نہیں پڑھنی چاہیے؟

طالب علموں اور نصاب کے بعد اساتذہ کی حالت دیکھئے۔ ان اصحاب کے لئے بس اتنا جان لیجیے کہ ان کی اکثریت مدارس کے اسی اصلاح طلب نظام تعلیم کی پیداوار ہے۔ فکری وسعت نہ ہونے کے سبب طلبہ کے دل میں دشمنوں کی سازش کا خوف ڈالنا، سائنٹفک سوچ کو لادینیت بتانا، عورتوں کو صرف چولہا چکی کا امین قرار دینا یہ سب انہیں اساتذہ کے ارشادات عالیہ ہوتے ہیں اور ایسے فرمودات کو سن کر طالب علم مزید ماشا اللہ ہو جاتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ مدارس نے عالم اسلام کو بہت سی چیزیں دی ہیں لیکن انہیں میں مناظرہ، دوسرے مسلک کا پوسٹ مارٹم اور کفر کی اسناد بھی شامل ہیں۔ مدارس کی ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ وہ فراغت کے بعد طلبہ کے روزگار کے بارے میں قطعی نہیں سوچتے۔ شاید انہیں یہ لگتا ہوگا کہ ہم نے اچھا ہنر سکھا دیا ہے اب یہ بھوکا نہیں مرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مدارس کو طلبہ کی اقتصادیات کا بوجھ ان کی دینی تعلیم پر سے ہٹانے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہیے۔

یہ قصہ درد اتنا طویل ہے کہ کیا کیا کہوں اور کہاں تک کہوں؟ مدارس کا عالم یہ ہے کہ ہر ایک نے اپنے اپنے مسلک کے مطابق اپنے قبلے بنا رکھے ہیں۔ دیوبندی ہے تو دارالعلوم دیوبند اس کا قبلہ ہے، سلفی ہے تو سعودی کے آگے سر بسجود ہوگا اور اگر شیعہ ہے تو ایران کے سامنے جبین نیاز جھکا دے گا۔ بریلوی ہوگا تو بریلی کو ہی مرکز اسلام بتائے گا، ندوہ العلماء والے مولانا علی میاں کو اللہ میاں بنائیں گے، مدرسہ اصلاح والے مولانا فراہی کی عقیدت میں فرقہ فراہیہ کے پیروکار لگنے لگیں گے۔ ایسے مایوس کن ماحول میں مدارس میں جو نہ ہو کم ہے۔ جب اس طرح سے آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو ظاہر ہے مدارس سے زیادہ تر فضلہ اور کچرا ہی نکلے گا فضلاء نہیں۔

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter