نوبیل انعام کا حق دار


سُرمئی اسکرین پر ہلکے نیلے الفاظ اچانک چمک اٹھے: ’’وہ ہے کازواو اشیگرو!‘‘ کمپیوٹر پر آنے والا یہ پیغام پڑھ کر میں تقریباً سجدۂ شکر میں گرگیا۔ ’’طلسم ہوش ربا والے نادیدہ خدا کی رحمت ان پر ہو کہ اس بار انھوں نے اصلی ناول نگار کا انتخاب کیا ہے۔‘‘ میں نے سُکھ کا سانس لیا اور اپنے آپ کو باور کرانے لگا۔ ’’پچھلے برس بوب ڈیلن کو ادب کی سرحدیں وسیع کرنے کا جواز دے کر نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرا دیا تو اس بار بھی کسی گرافک ناول نگار کو چُن سکتے تھے۔ میں نے اپنے آپ کو تسلّی دینا چاہی۔ انعام کا نام سنتے ہی جو خوشی محسوس ہوئی تھی اس میں تشویش شامل ہوگئی اور تھوڑی سی اداسی بھی۔

چند گھنٹے پہلے تک میں اس سلسلے میں ہونے والی قیاس آرائی پر دھیان لگائے بیٹھا تھا۔ کچھ دیر پہلے میں نے گارجیئن کا مضمون پوسٹ کیا تھا جس کے مطابق سٹّے باز مختلف ممکنہ ناموں پر شرط لگا رہے تھے۔ اخبار کے مطابق دو ناموں میں کانٹے کا مقابلہ تھا، ہاروکی مورا کامی اور نگوگی وا تھیونگ او، جس کا نام ادا کرنے میں مشکل ہے اور ناول پڑھنے میں سہل۔ میں ان دونوں میں سے کسی کا طرف دار بننے کے لیے تیار نہیں تھا، دونوں میں سے جو بھی جیت جاتا مجھے خوشی ہوتی۔ اس صبح افضال احمد سیّد نے، جو ناولوں کے بڑے رسیا ہیں، اپنی پسند مجھ پر واضح کر دی تھی۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ اب کی بار اسمٰعیل کادارے کو مل جائے!‘‘ البانیہ کے اس ناول نگار کا میں بھی بہت مداح ہوں مگر نہ جانے اس کی شہرت میں گریز کی کیا کیفیت ہے کہ اس کے جیتنے کے امکان معدوم پڑ جاتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس ہفتے کے ’’نیویورکر ‘‘ میں انعام کے بارے میں اپنے مضمون میں جیمز وُڈ جیسا افسانوی ادب کا جیّد مبصر بھی اسی نام سے آغاز کرے گا کہ اس کی نگاہِ انتخاب بھی یہیں آکر ٹہرتی ہے۔ اور بھی کئی نام میدان میں تھے جن میں سب سے نمایاں کینیڈا کی سربرآوردہ ادیبہ مارگریٹ ایٹ وڈ ہیں، جن کا ناول ’’ہینڈ میڈزٹیل‘‘ ٹرمپ کی صدارت کے دور میں اور بھی برمحل ہوگیا ہے۔ نگوگی اور موراکامی ڈول رہا تھا، اس لیے میرے سان وگمان میں بھی نہ تھا کہ اشیگرو اس طرح باقی سب کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ مگر یاد رہے کہ اشیگرو اس طرح حیرت انگیز نام نہیں ہے جو نوبیل انعام کی کمیٹی بعض دفعہ اس طرح برآمد کرتی ہے جیسے ٹوپی میں سے خرگوش پھر حیرت زدہ دُنیا کے سامنے اچھال دیتی ہے۔

’’کہیئے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ میں نے ذرا دیر میں مسعود اشعر کو فون کیا کہ وہ ناول کے تازہ تر رجحانات سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ’’اچھا ہے!‘‘ انھوں نے بانچھیں کھلانے والے انداز میں کہا اور فوراً ان کتب خانوں کا ذکر کرنے لگے جہاں سے اس کی کتابیں حاصل کی تھیں اور آخری ناول خاص طور پر پسند کیا تھا۔ ’’کون ہے یہ؟ کیسا ہے؟‘‘ یہ سوال کشور ناہید نے میرے سامنے رکھ دیا، پھر اپنی رائے ظاہر کی۔ ’’ناول نگار ہے، شاعر نہیں!‘‘ انھوں نے اپنی بات پوری کی، اس سے پہلے کہ میں کچھ کہہ پاتا۔ ’’آخری مرتبہ یہ انعام کسی شاعر کو کب ملا تھا؟‘‘ وہ مجھ سے پوچھتی ہیں۔ ’’شمبورسکا کو مل گیا تھا یا وہ مرچکی تھی؟ اور مجھے وہ شامس ہینی کوئی خاص پسند نہیں آیا۔‘‘ ہم فوراً دنیا کے ان بڑے بڑے شاعروں کے نام گنوانے میں جُٹ گئے جن کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کا آعاز ادونیس سے کیا جاسکتا ہے جسے عربی زبان کا سب سے بڑا زندہ شاعر قرار دیا جاتا ہے، اس کا نام ہر سال اس موقع پر سامنے آتا ہے اور یوں ہی گزر جاتا ہے۔ بہرحال، یہ قیاس آرائی کے سلسلے ختم ہوئے اور اس بار کا انعام یافتہ کازواو اشیگرو ٹہرا۔

ایک ٹیکسٹ میسیج میں نے فوراً لندن میں مقیم افسانہ نگار عامر حسین کو بھیج دیا جو افسانے میں کرافٹ کے بڑے قائل ہیں۔ ’’مجھے اس کا زیادہ تر کام بہت پسند ہے۔ اور تمہیں؟‘‘ ان کا جواب آیا اور جب میں نے اتفاق کیا تو انھوں نے اپنی بات کو اور واضح کیا۔ ’’اپنی نسل کے لوگوں میں سے وہ میرا پسندیدہ لکھنے والا ہوسکتا ہے۔ آرٹسٹ آف فی فلوٹنگ ورلڈ انگریزی کے میرے دس سب سے زیادہ پسندیدہ ناولوں میں سے ایک اور ’’دیوزاد مدفون‘‘ جس سال چھپا، اس سال کی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے بلکہ دو سال کی بہترین کتابوں میں۔ ‘‘ میں نے ان کی رائے سے اتفاق کیا اور میں برطانیہ کے کسی اور ادیب کے بارے میں یہ تصوّر نہیں کرسکتا تھا کہ یہ انعام حاصل کرتا۔ مجھے اپنی بات کی تائید کرنے والے بہت سے لوگ نظر آنے لگے۔ نئی دلّی کے انڈین ایکسپریس میں تو باقاعدہ ’’اش‘‘ کے نام محبت نامہ شائع ہوا کہ اس نام سے اس کے دوست اسے پکارتے ہیں۔ ایران میں اس کی تمام کتابیں فارسی میں دستیاب ہیں بلکہ ’’رمینز آف دی ڈے‘‘ کے فارسی ترجمے کے بارےمیں کہا جاتا ہے کہ لہجے اور اسلوب کی وجہ سے جدید فارسی نثر کا شاہکار ہے۔ اتنے دور رس اثرات کی وجہ سے یہ دنیا گول گول تو نہیں گھوم رہی ہے؟

تحریروں کے تنّوع اور تخئیل کی زرخیزی کے سبب اشیگرو اپنے دوسرے معاصرین سے آگے نکل جاتا ہے۔ 1983ء کے لگ بھگ میں اس نام سے اس وقت واقف ہوا تھا جب گرانٹا کا خصوصی شمارہ سامنے آیا جو برطانیہ کے بہترین نوجوان ناول نگاروں میں مشتمل تھا۔ اس شان دار مجموعے میں کئی نام اہم تھے مگر شاید اپنے جاپانی نام کی وجہ سے یہ خاص طور پر ذہن میں رہ گیا اور میں اس کی تحریریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھنے لگا۔

اس دوران مجھے پتہ چلا کہ وہ ناگاساکی میں پیدا ہوا تھا اور پانچ سال کی عمر میں پہلی مرتبہ برطانیہ آیا۔ یوں انگریزی زبان اور شہریت اس نے باقاعدہ اختیار کی۔ اس کی وجہ سے اس کی تحریروں میں ایک منفرد زاویۂ نظر سامنے آتا ہے۔ اس نے یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیہ سے ماسٹرز کیا جس کی وجہ سے بعض لوگوں نے اسے ’’تخلیقی تحریر‘‘ پروگرام کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب اس کی کتاب آرٹسٹ آف دی فلوٹنگ ورلڈ یہیں کراچی سے میرے ہاتھ آ گئی کہ اس زمانے میں نئے ناول اس شہر کی دکانوں میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد ’’پیل ویو آف دی ہلز‘‘ بھی مل گیا۔ دونوں ناول صحیح معنوں میں بین الاقوامی تھے۔ اس انداز کی تحریریں میں نے دیکھی ہی نہیں تھیں۔

دونوں کتابیں مجھے اچھی لگی تھیں مگر مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ یہ نوبیل انعام کی سیڑھی بن جائیں گی۔ جس کتاب نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کا اگلا ناول ’’رمنیز آف دی ڈے‘‘ ہے۔ جیمز وڈ اسے ’’تقریباً پروفیکٹ‘‘ قرار دیتا ہے۔ کئی مبصرین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انگریز بٹلر کی گفتگو کو اس کامیابی سے گرفت میں لیا ہے کہ ’’انگریزیت‘‘ کا مرّقع تیار ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بات خاص معلوم ہوئی کہ اس کامیاب انگریز چہرے کے پیچھے ایک مجرمانہ راز چھپا ہوا ہے، ناتسی جرمنی سے ساز باز کرنے کا جرم جس پر اس  کی وفاداری پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔ پیرس ریویو والے انٹرویو میں (موسم بہار 2008ء) اشیگرو نے یادداشت کے texture کو تخلیق کرنے کی بات کی۔ اس نے کہا کہ افراد تکلیف دہ یادوں سے کیسے نمٹتے ہیں، اس بارے میں وہ لکھ چکا تھا اور اب ایک ناول اس بارے میں لکھنا چاہتا تھا کہ معاشرے کس طرح یاد رکھتے ہیں اور کس طرح بھول جاتے ہیں۔ یہ بات اس مشاہدے پر مبنی تھی کہ جس طرح ایک فرد یاد رکھتا ہے اور بھول جاتا ہے، وہ قطعاً مختلف ہے جس طرح معاشرہ یاد رکھتا ہے اور بھول جاتا ہے۔ اس ناول پر آئیوری مرچنٹ کی ٹیم نے اتنی کامیاب فلم بنائی کہ بہت سے لوگ ناول کو فلم کی وجہ سے یاد کررہے ہیں مگر اصل ناول میں جو پیچیدگی اور نفاست ہے، وہ فلم سے بہت آگے کی بات ہے۔ یہ ناول تو نیولبرل دور کا چھوٹا سا رزم نامہ کہا جا سکتا ہے۔

ایسے شاندار کارنامے بہت جلدی دُہرائے نہیں جاتے۔ چناں چہ اس کے بعد اشیگرو کی اگلی کتاب مجھ سے پڑھی نہیں گئی۔ اسی طرح اس کے بعد ’’جب ہم یتیم تھے‘‘ سامنے آئی تو میرے اندر کوئی گرم جوشی نہ پیدا کرسکی۔ ایسا لگا کہ جاسوسی ناول بنتے بنتے بگڑ گیا ہے۔ مگر اشیگرو ایسا ادیب نہیں ہے کہ ناکامی کو دہراتا رہے۔ اس کی اگلی کتاب Go   Never Let Me منفرد ثابت ہوئی۔ ’’خوبصورت اور دہشت ناک‘‘ وُڈ نے اسے ان الفاظ میں سراہا اور کہا کہ یہ ہمارے دور کے مرکزی ناولوں میں سے ایک ہے کہ اس میں واقعیت نگاری، ڈس ٹوپیا کے انداز سے مل گئی ہے جو فنتاسیہ کی ایک شکل ہے۔ اس میں بھی خاصے عام سے انگریزی بورڈنگ ہائوز کا ذکر ہے جو سائنس فکشن کی طرف جاتے جاتے بے انتہا اداسی اور ناامیدی کو انگیخت کرتا ہے۔ اشیگرو کے سے میری دل چسپی ’’دیوزادِ مدفون‘‘ سے پھر عود کر آئی۔ اس کا محل وقوع قدیم انگلستان ہے جہاں اژدہے، دیو، پری زاد اور ایسی مخلوق رہتی ہے اور سارے وقت ایسی دبیز دھند چھانے لگی ہے جو حافظے کو محو کر دیتی ہے۔ یہ ماضی اور نسیان کی سرزمین ہے مگراس زمانے کے تمام عارضے یہاں موجود ہیں۔

عجیب بات ہے کہ اشیگرو ایک خاص سطح کی کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے لیے معیار قائم کرتا ہے اور پھر اپنے قائم کردہ اصولوں کو خود ہی توڑ دیتا ہے۔ ناول کی مختلف اقسام کے درمیان درجہ بندی کو وہ خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ کہیں ٹہرتا نہیں ہے بلکہ اپنے پڑھنے والوں سے دوچار ہاتھ آگے رہتا ہے۔ ابھی مجھے اس کی چند اور کتابیں پڑھنا باقی ہیں اور ان کو میں پڑھے جائوں گا جب تک کہ اگلے سال یہی وقت نہ آجائے اور پھر میں اپنے پسند کے ادیبوں اور ان کی کامیابی کے امکانات کا شمار نہ کرنے لگوں۔ موراکامی، نگوگی، ایٹ وڈ، آئس لینڈ کا جان کیلمان اسٹیفان سن جو ناول ’’مچھلیوں کے پیر نہیں ہوتے‘‘ کا مصنّف ہے۔ مگر اس بار ہمیں حیران کر دینے کے لیے کوئی اشیگرو نہیں ہو گا۔ ’’سوئیڈش اکادمی کو اپنے اوپر فخر ہونا چاہیے۔‘‘ انعام کے اعلان کے بعد گارجیئن کے نقاد رابرٹ میکرم نے اعلان کیا۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا اس لیے کہ ماضی قریب میں یہ اکادمی ایسے اعلانات کی مُرتکب ہوئی ہے کہ ان پر فخر نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اشیگرو کے لیے نوبیل انعام کی سفارش کر کے انھوں نے کسی حد تک تلافی کر دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).