حکیم محمد سعید : وہ شخص وقف پاکستان تھا


کئی دنوں سے ایک حرف دل میں گردش کر رہا تھا۔ میں حیران تھی کہ یہ اچانک اتنی پرانی بچپن کی بات کیسے یاد آگئی اور مسلسل یاد آتی ہی چلی گئی پھر کچھ دن بعد راز کھلا کہ دلوں میں بات ڈالنے والے نے مہینے کی نسبت سے ہی یہ خیال دل میں ڈالا ہے۔

بچپن میں پی ٹی وی کی نشریات میں پروگرام شروع ہونے سے پہلے اناؤنسمنٹ ہوا کرتی تھی جو کچھ ایسے ہوا کرتی تھی، آئیے ناظرین آپ کو یہ پروگرام دکھاتے ہیں جس کے لئے ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے بلی مار کہ میٹرو ملن اگربتی بنانے والے، لائف بوائے بنانے والے لیور برادرز پراؤیٹ لمیٹڈ، حبیب بینک پاکستان وغیرہ اور انہی مین ایک تعاون ہوتا تھا روح افزا بنانے والے ہمدرد لیبارٹریز وقف پاکستان۔ بچپن مین کبھ اس لفظ ”وقف“ پہ غور نہیں کیا نہ اتنا عرصہ کبھی یاد آیا لیکن اتنے سال گزرنے کے بعد اچانک کچھ دن پہلے یہ اناؤنسمنٹ پی ٹی وی کی اناؤنسر کے انداز میں دل میں ایسی وارد ہوئی کہ جانے کا نام نہیں لے رہی تھی ہر وقت دل سے ایک آواز آرہی تھی وقف پاکستان وقف پاکستان اور سالوں بعد دل اس کے معنی پر غور کر رہا تھا اور معنی تہہ در تہہ کھلتے چلے جا رہے تھے۔ میں نے پہلے کبھی غور کیوں نہیں کیا۔ ایک عجیب سی کیفیت تھی۔ اپنی کم عقلی اور لاعلمی پر شرمندگی بھی۔

کچھ دن بعد ایک دوست نے حکیم محمد سعید کے متعلق وڈیو شئیر کی اور پھر ان کا یوم شہادت گزرا تب سمجھ آیا کہ غیب سے آتے ہیں مضامین۔ اپنے گھر میں بڑی بہن کی صورت میں حکیم محمد سعید کی ایک مداح کی موجودگی کے باوجود میری ان کے بارے میں معلومات سرسری رہی، وہ ان کے آٹوگراف والی کتاب پا کر بے حد خوش تھیں تب بھی بس مجھے بس واجب سی خوشی تھی، میں نونہال بھی نہیں پڑھتی تھی۔ بس ان کی شخصیت سے عقیدت تھی اور شاید دل کی یہ عقیدت ہی کام آگئی کہ برسوں بعد وقف پاکستان کے لفظ نے وہ کچھ سمجھا دیا جو پہلے کبھی سمجھ نہیں آیا۔ ملک کے لئے وقف ہو جانے کی ان سے بڑی مثال کیا ہوگی۔

حکیم صاحب نے 1948 میں ہمدرد فاونڈیشن کی بنیاد رکھی۔ 1953 سے لے کر 1963 تک سندھ یونیورسٹی میں آرگینک کیمسٹری کی تعلیم دی۔ جب حکمت کا مذاق اڑایا گیا تو اس کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور جواب اپنے قلم سے دیا اور بالآخر حکمت کو قانونی حیثیت دلائی۔ 1985 میں ہمدرد یونیورسٹی قائم کی۔ انہوں نے صرف حکمت کو فروغ نہیں دیا مدینۃ الحکمت کا جائزہ لیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ کون سا شعبہ نہیں ہے اس میں۔ میڈیکل کالج، ہربل میڈیسن، سوشل سائنسز، آئی ٹی، مینجمنٹ، لا، انجنیئرنگ وغیرہ وغیرہ اور اس کے ساتھ پاکستان کی بڑی لائیبریروں میس سے ایک لائبریری بیت الحکومت۔

اسی پر بس نہیں ہمدرد کی پروڈکشنز میں مشہور زمانہ روح افزا جس کے بغیر سینکڑوں پاکستانیوں کا روزہ نہیں کھلتا اور دیگر ادویات اور مصنوعات۔ اس مصروفیات پر یہ عالم کہ دو سو سے زائد جامع کتابیں تحریر کر ڈالیں۔ یونیسکو کے اردو ایڈیشن کے ایڈیٹر رہے۔ ہمدرد نونہال پر لکھا مشہور جملہ ” سات سے ستر سال تک کے بچوں کے لئے“ ان کی حس لطافت کا اظہار بھی کرتا ہے۔

الٹرنیٹ میڈیسن کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے منوانا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ ہمدرد کا نیٹورک صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں کام کرتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ بچوں سے بے انتہا محبت اور ان کی تعلیم کے لئے جدوجہد، سیمینار کانفرنسز وغیرہ کا انعقاد اور نہ جانے کیا کیا۔ لکھتے جائیں تو کارنامے ختم نہ ہوں اور یہ سب کرنے عرصے میں کیا۔ ۔ صرف 50 سال۔ اتنے زیادہ کام اور اتنا مختصر عرصہ۔ ملک کے لئے یہ کارنامے وہی انجام دے سکتا ہے جو خود کو ان سب کے لئے ملک کے لئے وقف کردے۔ تو کئی برس گزرنے کے بعد سمجھ آیا کہ اناؤنسر پی ٹی وی پر جو جملہ کہتی تھی جو ہمارے کند ذہنوں سے سرسری گزر جاتا تھا کہ ہمیں ڈرامہ دیکھنے کی بہت جلدی ہوتی تھی۔ ہمدرد لیبارٹریز وقف پاکستان۔ اس کا مطلب کیا تھا اور یہ کہ وقف کرنے والے نے صرف ہمدرد لیبارٹریز وقف نہیں میں اپنی زندگی اس ملک کے لئے وقف کر دی۔ اللہ انہیں جنت کے اعلی درجے میں مقام عطا فرمائے اور رہی بات ان کے قاتلوں کی تو وہ زندگی میں ہی جہنم کا عذاب چکھ چکے ہی اور آخرت ابھی باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).