مجھے اس فحاشی پر اعتراض ہے


اُس وقت ہم محلے کے تھڑے پر کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔ ہمارے لیے منع تھا۔ وہاں صرف بڑے گپ شپ کر سکتے تھے۔ وہ لوگ شام کے وقت وہاں اکٹھے ہوتے اور گپ شپ کرتے۔ یہ دعویٰ سب سے پہلے وہیں سے اڑتے اڑتے سنا تھا کہ فلاں شخص چال دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ گزرنے والا کس کردار کا ہے۔

دوستوں کو واپس آ کے بتایا۔ پہلے حیران ہوئے‘ بہت مرعوب بھی۔ وہ انکل ہم لوگوں سے کافی زیادہ عمر کے تھے، ان سے فرینکنیس بھی نہیں تھی‘ تو ان سے کچھ پوچھنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ اس وقت انٹرنیٹ نہیں ہوتا تھا۔ ہو گا، اپنے پاس نہیں تھا۔ بہت کوشش کی اس علم دریاؤ کو حاصل کرنے کی۔ پدمنی، چترانی، سنکھنی، ہستنی قسم کے چار فریموں میں ہر گزرنے والی عورت کو اتارنا شروع کر دیا۔

ایک اور جگہ ہومیوپیتھک کتابیں ملیں تو ان میں جسمانی ساخت کے حساب سے افراد کی اقسام موجود تھیں۔ کوئی بیس پچیس تصویروں کا رسالہ تھا۔ کچھ عرصہ یہ پریکٹس کی۔ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ پھر ادب میں غوطہ لگ گیا۔ یہاں کبھی ایلی کی شہزاد کو ڈھونڈا جاتا، کبھی راجہ گدھ کی سیمیں ہر طرف نظر آتی، کبھی تارڑ صاحب والی کیرن کے خواب ہوتے، کبھی شفیق الرحمن کی رضیہ ہر طرف چھا جاتی، کبھی عمران سیریز کی جولیا تک پیاری لگنے لگتی، کبھی منٹو کو پڑھ لیا تو دل کرتا کہ بس یار آج ہی کہیں کنٹی نیوٹلی مل جائے اور ایک دم دھڑن تختہ ہو جائے ابھی کے ابھی! ایسا کچھ نہیں ہوا۔

اس زمانے میں سب دوستوں کو ایسا لگتا تھا کہ ہر مسکراتی لڑکی ہمارے لیے ہی مسکراتی ہے، ہر خوبصورت عورت ہمارے لیے ہی میک اپ کرتی ہے اور چھٹی کے وقت گلی کے نکڑ سے گزرنے والی ہر پری چہرہ کا دل ہم جیسے کسی گلفام کے انتظار میں ہی دھڑکتا ہے۔ تو بس یہ کشمکش رہتی تھی کہ کسی طرح مزاج کا اندازہ پہلے ہو جائے تاکہ بعد میں کوئی قدم اٹھانے پر ان کے باپ بھائیوں سے مار نہ پڑے۔

یہ اندازہ لگانے کے لیے ایک کلومیٹر والی عقابی نظریں چونکہ نہیں تھیں تو کتابی علم کا سہارا لینا پڑا۔ آپس میں بحثیں کیں، بہت جلدی اندازہ ہو گیا کہ عملی طور پہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ بارہ برجوں میں سات ارب انسانوں کا مستقبل نہیں کھپ سکتا، چند معلوم ستاروں کے نام پہ زائچے نہیں کھچ سکتے، دنیا بھر کی عورتیں چار قسموں میں نہیں بانٹی جا سکتیں اور چال دیکھ کر چلن جاننے کا دعوی کرنے والا پرلے درجے کا اوباش تو ہو سکتا ہے، کوئی قابل فخر سائنسدان نہیں۔ نیز یہ بیان خود اپنی ذات میں لغو پن اور فحاشی کا بہترین نمونہ ہے۔

یہ بات شاید سولہ برس کی عمر میں پتا لگ چکی تھی۔ اس وقت فقیر نعیم بخاری صاحب کا فین ہوا کرتا تھا۔ ان کے پروگرام اکثر ٹی وی پر چل جایا کرتے تھے۔ فین ہونا کوئی بری بات نہیں، ہم وہ بدنصیب قوم ہیں جس نے قسمت سے ایک کرکٹ ورلڈ کپ جیتا‘ اور جو کپتان اس وقت تھا، اسے تمام عمر کاندھوں پہ اٹھائے پھرے، اس کے فین بنے، وہ تو خود اسے اپنا مرتبہ راس نہ آیا ورنہ آج بھی اس کی عظمت کے قصیدے پڑھے جا رہے ہوتے۔ ہمارے پاس فین بننے لیے ریڈی میڈ آپشن ہی کتنے ہیں؟

نعیم بخاری ہوں یا عمران خان، ذاتی طور سے پہنچنے والے دونوں صدموں کا اشتراک اس وقت پی ٹی آئی کے نام سے جانا جاتا ہے، در ایں چہ شک کہ ولی را ولی خوب می شناسد۔ جناب امیر نے کہا تھا، ”بات کرو تاکہ تم پہچانے جاو‘‘ بات کہی گئی، پہچاننے والے پہچان گئے۔ کچھ نے کہا: صحبتیں راس آ گئیں۔ کچھ نے کوئی اور پھبتی کسی۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس تکلیف کو ملکی سطح پر محسوس کیا گیا۔

جگت بازی، زندہ دلی، طنز، مزاح، شگفتہ گفتاری، ہنسی مذاق اور پھکڑ پن، یہ الگ الگ معاملے ہیں۔ پھکڑ پن باریک سرحد کے اس پار شروع ہوتا ہے جہاں تب یہ بات کرنے والا موجود تھا۔ آفرین میزبان پر ہے، وہ بھی ساری بات ہنسی ہنسی میں اڑا گئے۔ ایڈٹ کرنے والوں نے شاید ریٹنگ کے چکر میں جانے دیا۔ چند سیکنڈ کی لوز ٹاک اچھے خاصے انٹرویو کا ستیاناس کر سکتی ہے اور اس کا مظاہرہ ہم نے دیکھا۔

ہمیں اصل میں ججمنٹ کی بہت پرانی بیماری ہے۔ جب کوئی بھی انسان ہمیں نظر آتا ہے تو سب سے پہلے ہم اوپر سے نیچے تک دیکھ کے اس کا جائزہ لیتے ہیں اور فٹافٹ کوئی بھی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اب چاہے وہ بندہ بے چارہ اس قائم کردہ رائے سے 360 ڈگری الگ ہو‘ لیکن رائے تو بن چکی، زمانے کی ایسی تیسی، اب رائے نہیں بدلنی! سامنے والے کے پائنچے اونچے ہیں، مولوی ہو گا۔ بال بڑے ہیں اور قلمیں لمبی ہیں، لوفر ہو گا۔ لڑکی نے جینز پہنی ہے، یہ تو پھنس جائے گی۔ مونچھوں کو بل دیا ہے، یقینا دو نمبر آدمی ہے۔ بہت کمزور ہے اور شیو بڑھی ہوئی ہے، موالی ہو گا لازماً! سر سے دوپٹہ ہٹا ہوا ہے، یہ ماڈرن ہوتی جا رہی ہے۔ پچھتر برس کے انکل نے جینز پہنی ہوئی ہے، بابا جی رنگین مزاج ہیں۔ پچاس برس کی خاتون نے لال چپل پہن لیے، بوڑھی گھوڑی لال لگام… کیا ہے بھائی یہ سب؟

کیا سب اونچے پائنچوں والے شدت پسند ہیں؟ کیا ہر بڑے بالوں والا لوفر ہے؟ کیا ہر جینز والی آپ کے انتظار میں ہے؟ کیا ہر وہ بندہ جس کی مونچھوں میں بل ہوں، دو نمبر ہے؟ کیا تمام بغیر حجامت گھومنے والے نشہ کرتے ہیں؟ کیا سر پہ موجود دوپٹہ ہوا سے نہیں ہٹ سکتا؟ کیا بوڑھے انسان کو جینز پہننے کا حق نہیں ہے؟ اگر عورت اپنے پسندیدہ رنگ کے جوتے پہنے تو وہ بری ہو جائے گی؟ مطلب کیا ہے اس سب کا؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے تمام لوگ جو ہمارے مزاج کے مطابق نہیں‘ وہ برے لوگ ہیں۔ جو چوکھٹا ہم نے جس کے لیے بنا دیا، ہر ایک پہ فرض ہے کہ وہ اسی میں فٹ آئے۔ ماہرہ خان سگریٹ نہ پیے، ملالہ پڑھنے کے لیے جاتے وقت پینٹ شرٹ نہ پہنے، وینا ملک ہماری پسند کے لباس میں رہے، میرا ٹھیک انگریزی بولے، ماریہ طورپکئی نیکر پہن کے سکواش کھیلنا چھوڑ دے، قندیل بلوچ تو ویسے ہی نکرے لگ گئی، عائشہ گلالئی کسی میسیج کی بات نہ کرے۔ عاصمہ جہانگیر عوامی مقامات پر سموکنگ نہ کریں۔ عابدہ پروین گانا چھوڑ دے۔ ویمن کرکٹ ٹیم گھر بیٹھ جائے اور اشتہاروں میں بھی خبردار جو ویمن کرکٹ کی بات ہوئی! فلاں لیڈر لندن میں بھی وہی حلیہ رکھیں جو یہاں رکھتی ہیں چاہے لوگ ان کی طرف مڑ مڑ کے دیکھتے رہیں۔ بے نظیر نے آکسفورڈ میں ولائتی کپڑے کیوں پہنے… مطلب حد ہے بھئی۔ ایسا نہیں کریں گے تو پھر آپ ایک کلومیٹر دور سے پہچانے جائیں گے!

یہ بیان ہمارا آئینہ ہے۔ بخاری صاحب نے کچھ نیا ہرگز نہیں کہا۔ ہم لوگ صدیوں سے یہی سنتے اور بھگتتے آ رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت اپنے لیے بھی تیار ہو سکتی ہے۔ اسے میک اپ کرنا پسند ہوتا ہے، اسے رنگ برنگے کپڑے پسند ہوتے ہیں، وہ جدید تراش خراش کا لباس پہن کر اچھا محسوس کرتی ہے، ایسا نہ ہوتا تو بچیاں چھوٹی عمر میں گڑیوں سے کھیلنا اور انہیں بنا سنوار کے رکھنا پسند نہ کرتیں۔ یہ عورت کی جبلت ہے۔ اور جان لینا چاہیے کہ وہ بھی ایک کلومیٹر دور سے ہم جیسے مردوں کی بدنظری جان لیتی ہیں‘ لیکن وہ اگنور کرتی ہیں۔ وہ اس معاشرے میں زندہ رہنا چاہتی ہیں اس لیے ہر تاڑنے والے پہ شور شرابہ نہیں کرتیں۔ ایسے معاملات دبا جاتی ہیں۔ وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ آخر میں جا کے بھلے فیصلہ ان کے حق میں ہو، ان پر سے یہ ٹیگ عمر بھر نہیں ہٹتا، “یہ وہ ہے جسے چھیڑا گیا۔ “

ہر طرف فحاشی کا شور مچا کے معاشرے سے بدظن ہو جانے والے بھائیو، اصل فحاشی یہ ہے جس میں کوئی انسان ایک کلومیٹر دور کسی دوسرے انسان کو دیکھ کر یہ بتانے کا دعویٰ کرے کہ وہ اچھے کردار کا ہے یا برے کردار کا، اور اچھائی یا برائی کے سٹینڈرڈز بھی اس کے اپنے طے کردہ ہوں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain