نواز سیریز سے سانحہ کار ساز تک!


 ماضی تاریخ ہے اور مستقبل سربستہ راز!
انسان کو مگر ان دونوں کے مابین ہی زندگی کا سفر طے کرنا ہے۔ برادر کالم نگار سہیل وڑائچ نے ’’پارٹی از اوور‘‘ (Party is over)کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں کہا تھا:’’ایسا پہلے بھی ہوا تھا اور اب پھر ہونے جا رہا ہے۔ قرآئن و آثار بتا رہے ہیں کہ موجودہ وزیراعظم نواز شریف کے لئے ’’پارٹی از اوور‘‘ کی آواز لگ چکی ہے، اسکرپٹ میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو جولائی اور اگست میں آخری رسومات ہوں گی‘‘، پاکستان کے سیاسی ماضی پہ رائے دینے کے بعد اس کالم میں انہوں نے پیش گوئی کی ’’اب بھی دیوار پر صاف لکھا ہوا نظر آ رہا ہے:’’Party is over‘‘، ان کا تازہ ترین کالم بہ عنوان ’’توکلّ یا خود فریبی‘‘ قریب قریب اسی کالم کی صدائے بازگشت کہا جا سکتا ہے۔

جاری دہائی میں واقعات کا تسلسل ان کے امکانی خدشات کی ہرگز تردید نہیں کرتا، ان ہونی کی بات اور ہے جس کی بنیاد پر اب کے بھی ملکی آئین کے الفاظ اور روح کے عین مطابق ووٹ کے نتیجے میں اقتدار کی منتقلی عمل میں آ جائے، ہم ورطہ حیرت میں ڈوب کر پکار سکیں۔

’’پاکستان آئینی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے عظیم بابرکت قومی سفر کی راہ پر چل پڑا ہے۔‘‘
خدشات اور سوالات پر گفتگو اور مکالمہ ہوتا رہنا چاہئے، آنے والے آٹھ ماہ، آئندہ قومی انتخابات کے انعقاد تک کی مدت کے دوران میں ایسی گفتگوئیں اور مکالمے پاکستان کے جمہوری سفر کو تقویت دیں گے، ظاہر ہے جب اخبارات میں ملک کے مقتدر ترین قلمکار متوقع ٹینکو کریٹس حکومتوں کے قیام کا تعین ہی ظاہر نہ کریں بلکہ کھلم کھلا ان کی سربراہی کے لئے ’’جرنیلوں‘‘ میں کسی ایک کے انتخاب کو ’’عظیم قومی فریضے‘‘ کا بیانیہ دے دیں، جب پاکستان پیپلز پارٹی کے پیٹریاٹ گروپ کی تاریخ دہراتے ہوئے ’’ن‘‘ لیگ کی منتخب حکومت کے حوالے سے اعلانیہ ایسے متوقع نقشے کی صورت گری سامنے لائی جائے کہ ’’تبدیلی کے لئے دو ممکنہ منصوبے زیر غور ہیں، ایک حکمران جماعت میں فارورڈ بلاک کی تشکیل اور دوسرا اسلام آباد کی جانب مارچ، پہلا منصوبہ اسی وقت روبہ عمل آ سکتا ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لئے حکمران جماعت میں سے کافی تعداد میں انحراف کرنے والے دستیاب ہوں، ایک کامیاب کوشش سے آخر کار نئے انتخابات کا مطالبہ پھوٹ سکتا ہے لیکن احتساب کے بعد، جس سے پارلیمنٹ کی منظوری سے قومی اتفاق رائے پر مبنی قومی حکومت کی راہ ہموار کی جائے، یہ منصوبہ کس قدر قابل عمل ہے اس کا کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے، چار منحرفین کو مختلف محاذوں پر اپنا راستہ بنانے کا کام تفویض کیا گیا تھا اور ان کی کوششوں کے نتائج پیدا ہوئے ہیں، انہوں نے اسکور کو پچاس تک لانے کا دعویٰ کیا، کون اس گروپ کی قیادت کرے گا اسے ابھی طے نہیں کیا گیا، دوسرا منصوبہ جس پر غور کیا جا رہا ہے وہ ایک سیاسی جماعت کے ذریعے اسلام آباد پر چڑھائی کا ہے جیسا کہ 2014میں ہوا تھا، جس طرح 2016میں محاصرے کی کال کے ذریعے کوشش کی گئی تھی‘‘ جب نامہ نگار باآواز بلند ’’شاہد خاقان عباسی کو رات کے اندھیرے میں پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا مشورہ یا حکم دیا جائے‘‘ کے راستے تجویز کریں یا جب سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کو یہ کہنا پڑے’’ملک میں جمہوریت فلم کے انٹرول کی طرح آتی ہے، پارلیمان وفاق کی شہ رگ ہے جو ہر 10برس بعد کاٹ دی جاتی ہے اور پھر اشرافیہ کی فلم چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی وفاق کانپ رہا ہے، نہ اداروں کو مضبوط ہونے دیا گیا نہ آئین کی حکمرانی کو یقینی بنایا گیا‘‘ یا جب ’’اپوزیشن کا ایک بہت بڑا طبقہ اور کچھ اور افراد تو اچکنیں تیار کروا کر اس انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ چند سال کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت بننے والی ہے پھر ہماری چاندی ہو گی‘‘ اور منہ متھے لگتے دانشور تک، ’’ابیڈو سے لے کر ٹیکنو کریٹس حکومتوں‘‘ کے قوم دشمن اقدامات کی تباہ کن تاریخ کے باوجود ایسے حربوں کو قومی احتساب، کا نام دیتے دیتے ہانپ جائیں ایسے پس منظر میں سہیل وڑائچ ’’Party is over‘‘ لکھ کر کوئی مبالغہ نہیں کرتے، یہ امکانی خوف یقین کی سرحدوں پر کھڑا ہے، پس برادر سمیت ہم سب 2017میں اس حقیقت کو بھی اپنی فہرست میں شامل کر لیں یعنی ’’وقت اور تاریخ غیر آئینی حرکیات سے آگے نکل چکے ہیں‘‘۔

18اکتوبر کا دن سانحہ کار ساز کراچی کی المناک یاد سے وابستہ ہے۔ جب کراچی میں بی بی شہید کے عوامی جلوس پر خود کش حملہ کیا گیا جس میں وہ تو سلامت رہیں بدبختوں نے اپنے اس لعنتی فعل کو 27دسمبر 2007کو مکمل کیا) لیکن 150سے زائد بے گناہ پاکستانی سیاسی کارکن بشمول عام افراد جاں بحق ہو گئے، بی بی شہید برصغیر ہی کی نہیں، عالم اسلام اور عالم تمام میں اس صدی کی سیاست میں شاید سب سے بڑا اور سب سے مرکزی افسانوی سیاسی شاہکار (MYTH)ہیں، ان پر بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جاتا رہے گا، اس کے ذکر کی ضرورت نہیں، اس وقت 18اکتوبر 2003کی اس المناک یاد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے آپ 22اپریل 2013 کے اخبارات میں بی بی کے شائع شدہ ایک خط کے بعض حصے ملاحظہ فرمایئے۔ اس جدوجہد کو سلام کریں جس کے تاج کی وہ سزاوار ٹھہریں، متفقہ قومی شہید کہلائیں اور ہر پاکستانی، بلا نظریاتی تفریق و تقسیم انہیں محترم گردانتا ہے۔

بی بی شہید نے اس خط میں کہا تھا:’’سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور میدان میں موجود کھلاڑیوں سے اس کا خیال رکھنے کی توقع کی جاتی ہے۔ نئے کھلاڑی لا کر نتائج بدل دینے کا خیال کوتاہ اندیشی ہے (پاکستان کے ماضی میں بنیادی جمہوریتوں‘‘ سے لے کر ٹیکنو کریٹس کی حکومتوں‘‘ تک کے فلاسفروں کے ایسے ’’قومی مظالم‘‘ کو ہمیشہ یاد رکھیں)، اس قسم کی غلطیوں کا خمیازہ پاکستان کے عام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور یہ بات میں بڑے افسوس سے کہہ رہی ہوں میرے خاندان اور میری پارٹی نے، میرے کمسن بچوں نے، میری بیمار والدہ نے، میرے شوہر اور میرے سسرال والوں نے تاریک سالوں اور دنوں اور مہینوں میں جو مصائب برداشت کئے ہیں وہ سب ایک ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان کے قیام کے لئے تھے۔ ایسا پاکستان جہاں سیاسی مقاصد کی خاطر انصاف کے اصولوں کو پامال نہ کیا جائے، جہاں ایک کثیر الخیال معاشرہ جو اخوت، ہم آہنگی، قوت برداشت اور ہمدردی کے اصولوں پر مبنی ہو وجود میں لایا جا سکے‘‘۔
’’آئینی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے جس آدرش کے لئے بھٹو خاندان نے نو ڈیرو کی شہادت گاہوں کا انتخاب کیا،افسوس، صد افسوس، گزشتہ روز اسی جماعت کی سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے ’’ووٹ‘‘ کی حرمت کے پس منظر میں ایک علاقے کے مکینوں یا مکین کے سامنے ’’ناقابل اشاعت‘‘ الفاظ استعمال کئے اور اسی جماعت کے ایک رکن نے ووٹ کے لئے ’’دو ٹکے‘‘ کی ترکیب استعمال کی، بی بی شہید کے شوہر، فرزند ارجمند بلاول، صاحبزادیوں آصفہ اور بختاور، سندھ پیپلز پارٹی اور پاکستانی عوام آغا سراج درانی، کے نام پر نفی کی مہر لگا دیں، وہ باقی زندگی منتخب نہ ہونےپائیں پیپلز پارٹی کی قیادت انہیں ہمیشہ کے لئے پارٹی سے نکال دے آغا سراج درانی نے مملکت پاکستان، پیپلز پارٹی، پاکستانی عوام اور بھٹو خاندان کی بے عزتی اور توہین کی تکمیل کر دی ہے۔
نواز سیریز کہانی جاری ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).