آصف زرداری صاحب، پرانی سیاست بدل چکی ہے


 \"mujahidپیپلز پارٹی کے معاون چیئرمین آصف علی زرداری کا تازہ ترین انٹرویو 2018 کے انتخابات کی تیاری کا اعلان نامہ ہے۔ انہوں نے ان سب باتوں کی تردید کی ہے جو بوجوہ زرداری یا پیپلز پارٹی کی سیاسی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام رہی تھیں اور ایک بار پھر ”مظلوم جمہوریت“ کا لبادہ اوڑھ کر یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ ملک کی سیاست میں رول ادا کرتے رہیں گے۔ یہ انٹرویو ایک طویل مدت کے بعد دیا گیا ہے لیکن اس سے کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی۔ صرف یہ پتہ چلا ہے کہ وہ حکومت حاصل کرنے کے دیرینہ خواب کی تکمیل کے لئے پرانے ہتھکنڈوں پر ہی یقین رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ انٹرویو ان لوگوں کے لئے مایوس کن بھی ہو گا جو پیپلز پارٹی کو بہرصورت ملک کی ایک محترک اور روشن خیال سیاسی قوت سمجھتے ہوئے، یہ امید کرتے ہیں کہ ملک کی یہ بڑی پارٹی معاشرے میں فکری اور سیاسی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں پر موقف اختیار کرتے ہوئے قوم کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرے گی۔ ماضی کے مقابلے میں یہ بات آصف علی زرداری نے کھل کر کہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم کی بجائے تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ ان کی اعانت کے بغیر اکیسیویں ترمیم سینیٹ سے منظور نہیں ہو سکتی تھی۔ تاہم اس دعویٰ کے تناظر میں یہ سوال، جواب طلب رہے گا کہ کیا 2014 میں آرمی پبلک اسکول سانحہ کے بعد ملک کی کسی سیاسی قوت کے پاس اس قسم کا اختیار موجود بھی تھا۔

یہی نکتہ دراصل آئندہ ملک میں سیاسی منظر نامے کی تشکیل اور سماجی فکری رویوں میں ترویج کے حوالے سے اہم کردار ادا کرے گا۔ سب مبصر معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور ان کے خلاف مزاحمت کرنے والی قوتوں کی کشمکش کو محسوس کر رہے ہیں۔ یہ اہم تبدیلیاں ہیں جو پاکستانی سماج کو ایک طویل عرصہ تک جمود اور یک طرفہ فکری و سیاسی تسلط سے باہر نکالنے کے حوالے سے بے حد اہم ہیں۔ پہلی افغان جنگ کے ساتھ جہادی تصور ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنے کی جو حکمت عملی پاکستان میں مسلط کی گئی تھی، اس نے اس ملک کی کم از کم دو نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ اور وہ اس دائرہ سے باہر سوچنے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہیں جو اسلام کی نشاة ثانیہ کے خواب کو تکمیل کے قریب دیکھنے والی قوتوں نے ان کے گرد کھینچ دیا تھا۔ یہ نسلیں سوچ اور فکر کے اس جبر کی وجہ سے نہ ماضی پر نظر ڈالنے اور اس سے سبق حاصل کرنے کے قابل رہیں اور نہ انہیں اپنے اردگرد رونما ہونے والی تبدیلیوں اور انسانی ارتقا کا ادراک ہو سکا۔ افغانستان سے 1989 میں سوویت فوجوں کے انخلا کو جس طرح عقیدہ کی قوت پر ایک سپر پاور کی شکست یا \"mujahid\"ایک سپر پاور کو شکست دینے کی صلاحیت سے تعبیر کیا گیا تھا، اس نے 80 اور 90 کی دہائی میں پیدا ہونے والی نسلوں کو چکا چوند کر دیا تھا۔ بعد کے برسوں میں افغانستان کی سرزمین اور پاکستان کے کونے کونے میں اس چکا چوند اور گمراہ کن احساس نرگسیت کے ثمرات بھی سمیٹے گئے۔ ابھی تک ان تباہ کن اثرات سے مکمل نجات حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ ”بے تیغ بھی لڑتا ہے مومن“ کے سلوگن کے ساتھ پروان چڑھنے والی نسلوں کے بعض جوان اب بھی جسم سے بم باندھ کر ملت کو اس منزل کی جانب لے جانے میں مگن نظر آ جاتے ہیں جو ان کے رہنماﺅں نے متعین کی ہے اور جس کا راستہ افغانستان میں سوویت فوجوں پر نام نہاد فتح کے ذریعے طے کر لیا گیا تھا۔ اس لئے جب امریکہ افغان طالبان سے مذاکرات کی بات کرتا ہے تو فخر سے گردن اکڑا کر یہ رہنما اسے سوویت یونین کے بعد دنیا کی واحد سپر پاورامریکہ کی شکست سے تعبیر کرتے ہوئے پیش گوئیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اب منزل دور نہیں ہے۔ غیر واضح منزل کی اس تلاش میں ہونے والی تباہ کاری اب افغانستان اور پاکستان کے بعد مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اللہ کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے پوری دنیا مختلف قسم کے اتحاد بنانے اور معاہدے کرنے میں مصروف ہے۔ ان نسلوں کے جو لوگ براہ راست جنگی مشن میں شامل ہونے پر آمادہ نہیں ہو سکے، انہیں مختلف مواقع پر اجتماعات میں نعرے لگانے، بینر بنانے اور سیاستدانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

دسمبر 2014 کے سانحہ سے رونما ہونے والی تبدیلی کا اصل ٹارگٹ یہی سوچ اور اس سے جنم لینے والے گروہ تھے۔ آپریشن ضرب عضب کی مکمل کامیابی کے لئے قومی ایکشن پلان بنایا گیا اور آئین میں اکیسویں ترمیم کی گئی۔ فوجی قیادت نے یہ سمجھنے میں زیرکی کا مظاہرہ ضرور کیا کہ ملک کی سیاسی قیادت ، منتخب پارلیمنٹ اور عوامی نمائندوں کو ساتھ ملائے بغیر معاشرہ میں دور رس تبدیلیاں لانا ممکن نہیں ہو گا۔ ان کے بغیر نہ آپریشن ضرب عضب کامیاب ہو سکتا ہے اور نہ دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ نہ صرف بم دھماکے کرنے والوں اور دہشت کے ذریعے دینی یا سیاسی مقاصد حاصل کرنے والوں کو مار کر یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اس کے لئے اس سوچ اور مزاج کا خاتمہ بھی ضروری ہے جس کی وجہ سے خود کش بمبار یا دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں۔ ملک کے سیاستدان ابھی تک اس بات کو پوری طرح سمجھنے یا سمجھتے ہوئے بھی اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے صدق دل سے عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اسی لئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر قومی ایکشن پلان کے حوالے سے الزامات عائد ہوتے ہیں اور اسی لئے آصف علی زرداری کا بیان مایوس کن لگتا ہے کہ اس سے تو صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ حکمرانی کے بدستور خواہشمند ہیں اور ایک شاطر سیاستدان کی طرح بیان دینے اور بیان بدلنے کے فن سے آشنا بھی۔ یہ کام تو گزشتہ 68 برس سے ہوتے چلے آئے ہیں۔ اس وقت تو پاکستانی قوم کو کسی ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو فوج کی طرف سے تبدیلی کے لئے ہونے والے اقدامات کو عوامی رنگ اور مقبولیت دلوانے کے لئے سیاسی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر میدان عمل میں کود پڑے۔

میاں نواز شریف کی حکومت دو برس کی مزاحمت کے بعد کسی حد تک اس ضرورت کو محسوس کر رہی ہے البتہ یہ تفہیم پارٹی ڈھانچے اور مزاج میں کتنی گہری ہے، اس کا اندازہ 2018 کی انتخابی مہم سے پہلے کرنا مشکل ہو گا۔ تاہم یہ ایک قومی کاز ہے۔ اس کی تکمیل کے لئے معاشرہ کے صرف ایک طبقہ یا گروہ یا ادارے کا مستعد ہونا کافی نہیں ہو گا۔ اس کے لئے سیاستدانوں ، سماجی کارکنوں ، فوج اور مذہبی قوتوں کو مل کر کوشش کرنا ہو گی۔ ابھی تک ملک کی بڑی سیاسی قوتیں معاشرے میں برپا ہونے والی اس تبدیلی کو محسوس کرنے ، اس کی ضرورت اور اہمیت کو سمجھنے اور اس پر عمل میں پوری طرح شامل ہونے کے اشارے دینے سے قاصر ہیں۔ اسی لئے وہ ابھی تک چھوٹی سیاسی ضرورتوں اور مسائل کے لئے باہم دست و گریباں نظر آتی ہیں اور روشن مستقبل کی طرف قوم کی رہنمائی کرنے کے عظیم مقصد کے لئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا ضروری نہیں سمجھتیں۔ اس صورت حال میں انتہا پسندی کی سوچ کو بدلنے کے لئے فوج کی طرف سے جو عملی اقدام کئے جا رہے ہیں ، ان کے ثمرات تو نظر آتے ہیں۔ وفاقی حکومت کسی حد تک اپنا رویہ بھی تبدیل کر رہی ہے۔ لیکن اقتدار سے باہر سیاسی قوتیں چونکہ اس معاملہ پر باہمی اشتراک کی ضرورت کو سمجھنے اور قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ، اسی لئے انتہا پسند مذہبی عناصر کو میدان عمل میں کی جانے والی کوششوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے زائل کرنے کا موقع میسر آ رہا ہے اور وہ انہیں بروئے کار لا کر ایسے مباحث چھیڑ رہے ہیں جو اس اہم سماجی تبدیلی کا راستہ روک سکے۔ پنجاب میں تحفظ نسواں قانون پر ردعمل اور ممتاز قادری کی سزائے موت پر مختلف الخیال مذہبی گروہوں کا اشتراک اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔

سیاست کے طالب علم نے اسی پس منظر میں آصف علی زرداری کے انٹرویو کو غور سے پڑھا اور سنا ہے اور مایوس ہوا ہے۔ وہ ابھی تک سیاسی ضرورتوں کے تحت ”فریق مخالف“ کے موڈ کا جائزہ لینے کے لئے جاری ہونے والے دو بیانات کے حصار میں گھرے ہیں۔ ان کی باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک 2008 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جذباتی سیاسی کیفیت کے سحر سے باہر نکلنے میں ناکام ہیں اور 2018 کا انتخاب بھی انہی نعروں اور پرفریب باتوں کے ذریعے جیتنے کی خواہش رکھتے ہیں جو ان کا طرہ امتیاز کہی جا سکتی ہیں۔ آپ ہزار بار یقین دلانے کی کوشش کریں کہ گزشتہ برس اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات آپ نے فوج کی بجائے سیاستدانوں کے لئے کہی تھی …. کوئی اس بات کا یقین نہیں کرے گا۔ اگر آپ کے گرد بدستور ایسے لوگ موجود ہیں جو آپ کو یہ بتا رہے ہیں کہ عوام اتنے ہی بھولے اور سیاست سے نابلد ہیں تو آپ کو 2013 کے بعد 2018 میں ایک نئی شرمناک شکست کی تیاری کر لینی چاہئے۔ اسی طرح آپ نے چند ہفتے قبل جنرل راحیل شریف کی طرف سے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے بیان دے کر ماحول کو پرکھنے کی جو کوشش کی تھی، اس کا نتیجہ تو آپ کو مل گیا ہو گا لیکن اس قوم کے ہر شخص کو بھی یہ پتہ چل چکا ہے کہ آپ مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ گویا اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ آپ کی پیشکش کو قبول کریں یا مسترد کر دیں۔ لیکن سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ کسی پارٹی کا اقتدار میں آنا ، یا فوج کی حمایت یا مخالفت میں مہم جوئی کرنا اب اہم نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا آپ فوج کی طرف سے انتہا پسندی کے رجحان کو ختم کرنے کے لئے شروع کی جانے والی سماجی مہم کا حصہ بننے کے لئے تیار ہیں۔ کیا آپ اس قومی مقصد کو سیاستدانوں کے قبضہ قدرت میں لانے کے لئے کام کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ کیا آپ اس بات کو سمجھ پا رہے ہیں کہ ملک میں جنرل راحیل شریف زندہ باد کے نعرے اور ”جانے کی باتیں نہ کرو“ کے بینر کیوں لگتے ہیں۔ اگر آپ ابھی تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ فوج کی عسکری قوت کا کمال ہے یا اس کے دفتر تعلقات عامہ کی مستعدی ہے تو اس گمان سے باہر نکلئے۔ کیونکہ اب یہ قوم اس لئے فوج زندہ باد پکارتی ہے کیونکہ 30 برس میں پہلی بار فوج نے اس آگ کو بجھانے کے لئے صدق دل سے کام کا آغاز کیا ہے جو ملک کی سب قوتوں نے مل جل کر بھڑکائی تھی اور جس کی تپش میں 50 ہزار پاکستانی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ معاشرے کا ڈھانچہ مسخ ہو چکا ہے۔ لوگوں کے لئے زندگی کی امید ختم ہو چکی تھی اور وہ محسوس کرنے لگے تھے کہ سب طاقتور مل کر ان کا شکار کرنے کے درپے ہیں۔ اب یہ تصور تبدیل ہوا ہے تو بے ساختہ جنرل راحیل شریف اور فوج پر عقیدت اور احترام کے پھول نچھاور ہو رہے ہیں۔

اگر آصف زرداری اور دوسرے سیاستدان اس تبدیلی کے لئے پیدا ہونے والی اس خواہش کو محسوس نہیں کریں گے اور عوام کی رہنمائی کے لئے موجود رہنے سے گریز کریں گے تو ان کے پاس فوج کو مسیحا سمجھنے اور اس کے لئے نعرہ بلند کرنے کے علاوہ کیا چارہ رہ جاتا ہے۔ لیکن ایسا ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ چوٹ جمہوریت کے اس تصور کو پہنچے گی جس کے لئے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور آصف علی زرداری کی اہلیہ بے نظیر بھٹو نے جان دینا قبول کر لیا۔ آپ پر ان قربانیوں کا قرض واجب ہے۔ یہ قرض محض بدعنوانی کے مقدمات میں ملزموں کا گواہ بن کر ادا نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے آپ کو سماج میں فکری تبدیلی کے عمل کی قیادت کرنا ہو گی۔ فی الوقت یہ جنگ چند سرپھرے قلمکار اور قوم سے محبت کرنے والے فنکار ہی لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی قوتوں نے اس تحریک کا ساتھ دینے کے لئے اسی عزم کا مظاہرہ نہ کیا جو وہ حصول اقتدار کے لئے کرتی ہیں تو تبدیلی کے اس عمل میں جمہوریت کو فروغ دینے کا خواب چکنا چور ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments