گناہ گار عورتیں


یہ تصویر سندھ کے ضلع خیر پور کےگاؤں کشمیر عیسانی کی رخسانہ کٹوہر کی ہے جس کو اپنے ہی شوہر نے غیر مردوں کے ساتھ ناجائز تعلقات کے شک کی بناء پر اپنی بہن اور ماں کے ساتھ مل کر تشدد کا نشانہ بنایا اور سزا کے طور پر اس کے سر کے بال مونڈ ڈالے۔ اس افسوس ناک واقعے کے بعد رخسانہ نے بڑی ہمت اور جراُت کر کے ذرائع ابلاغ تک پہنچ کر اپنی دکھ کی داستان سنائی اور کیس داخل کروایا۔ اور دوسری طرف اسی ہی دن خیرپور کی شھباز کالونی کی جنت چنہ اپنی بوڑھی ماں کے ہمراہ حیدر آباد میں پریس کانفرس کر کے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اور اپنی چھوٹی بہن کے اغوا کی درد ناک داستان سنا رہی تھی۔

ہمارے اس بے رحم سنگ دل معاشرے میں روزانہ ایسی سیکڑوں خواتین جنسی زیادتی، گھریلو تشدد، کارو کاری اور ونی جیسی فرسودہ روایات کا شکار ہوتی آ رہی ہیں۔ ان میں سے ایسی بے شمار خواتین شامل ہیں جن کی خبریں الیکڑانک و پرنٹ میڈیا یا پھر سوشل میڈیا کی زینت نہیں بنتی ہیں اور بہت کم ہی واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ ناجائز تعلقات کے شک کے بنیاد پر مرد ہو یا عورت اس کے ساتھ سر مونڈنے والا کام کیا جاتا ہے اور کبھی کبھار تو سر مونڈنے کے ساتھ منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھا کے پورے گاؤں میں پھرایا جاتا ہے۔ اس طرح کے لوگ فرسودہ رسومات کو اپنی شان سمجھتے ہیں۔

اکثر و بیشتر اس طرح کے لوگوں کی خواتیں کھیتوں کھلیانوں میں کام کرتی ہیں یا پھر پیٹ پالنے کی لیے دستکاریاں کرتی ہیں۔ اور ان کے مرد عموماً جواری، کام چور ہوتے ہیں۔ سارا دن آوارہ گردی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اور جب رخسانہ کٹوہر جیسی خواتین ان کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں تو اس وقت یہ لوگ ان کے سر مونڈوا کر اپنے غیرت مند ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ کہ ان قبیلوں کی خواتین خود اپنے مردوں کے ساتھ مل کر اپنی جیسی عورت کو ذلیل و خوار کرتی ہیں۔ جس طرح رخسانہ کٹوہر نے بتایا کہ اس کے شوہر نے اپنی بہن اور ماں کے ساتھ مل کر ان پر تشدد کیا اور اس کا سر مونڈوا ڈالا۔ رخسانہ کٹوہر نے تو اپنے خلاف ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز اٹھائی اور کیس داخل کروا کر اپنے شوہر کو گرفتار کروا دیا۔

مگر افسوس یہ کہ ان جیسے لوگوں کو سزا دینا والا کوئی نہیں ہے۔ پولیس لے دے کر اسے آزاد کر دے گی اور قبیلے کے سردار کی مٹھی گرم کر دی جائے گی اور وہ رخسانہ کی اپنے شوہر کے گھر واپسی کا فیصلہ سنائے گا اور رخسانہ کٹوہر کو مجبوراً اسی گھر دوبارہ جانا پڑے گا جہاں پر اس کی عزت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے تھے۔ ہائے ری بیچاری عورت اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے ثبوت و گواہ بھی ساتھ رکھنے پڑتے ہیں جنت چنہ کی اپنے ساتھ ہونی والی جنسی زیادتی کی گواہی تو صرف اس کی بوڑھی ماں ہی دے سکتی ہے اور اس کی چھوٹی بہن تو ابھی بھی اسی عزت کے لٹیرے کے پاس ہے جس کی اپنی عزت بھی غیر محفوظ ہے۔ پتہ نہیں ان بہنوں کی گواہی اور اس بوڑھی ماں کی آہ و پکار سنی جائے گی یا پھر عدم ثبوت کی بنا پر ملزم بری ہو جائے گا۔ عورت کا استحصال ہمارے معاشرے میں ہوتا آ رہا ہے اور اس کو روکنے نے کے لیے آگاہی، قانون سازی سے لے کر محتسب بھی بنائے گئے ہیں۔ مگر انصاف کے حصول کے لیے خواتین کو گواہوں اور ثبوتوں کے ساتھ یہ ثابت کرنا پڑتا ہےکہ اس کو کس طرح جنسی زیادتی، تشدد اور ہرا ساں کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ واقعہ کس طرح وقوع پزیر ہوا جو شاید سیٹلائیٹ کی مدد کے سوا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔

ہم گنہ گار عورتیں ہیں
جو اہل جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں
نہ جان بیچیں
نہ سر جھکائیں
نہ ہاتھ جوڑیں
یہ ہم گنہ گار عورتیں ہیں
کہ جن کے جسموں کی فصل بیچیں جو لوگ

وہ سرفراز ٹھہریں
نیابت امتیاز ٹھہریں
وہ داور اہل ساز ٹھہریں
یہ ہم گنہ گار عورتیں ہیں
کہ سچ کا پرچم اٹھا کے نکلیں
تو جھوٹ سے شاہراہیں اٹی ملے ہیں

ہر ایک دہلیز پہ سزاؤں کی داستانیں رکھی ملے ہیں
جو بول سکتی تھیں وہ زبانیں کٹی ملے ہیں
یہ ہم گنہ گار عورتیں ہیں
کہ اب تعاقب میں رات بھی آئے
تو یہ آنکھیں نہیں بجھیں گی

کہ اب جو دیوار گر چکی ہے
اسے اٹھانے کی ضد نہ کرنا!
یہ ہم گنہ گار عورتیں ہیں
جو اہل جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں
نہ جان بیچیں
نہ سر جھکائیں نہ ہاتھ جوڑیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).