کرشنا و ارجنا میں کون صحیح ہے اور کون غلط؟


مشہور زمانہ بھگوت گیتا (Bhagavad Gita ) مہا بھارت کے ایک چھوٹے سے حصے کا نام ہے جس میں دراصل دو اہم افراد کے درمیان اخلاقی پوزیشن کی بحث کا بیان ہے۔ ایک طرف کرشنا ہے جسے ہندو مذہب میں خدا کے اوتار کا درجہ حاصل ہے جبکہ ارجنا اس کا رتھ بان، دوست اور پیروکار ہے۔

مہا بھارت ایک جنگ کی مکمل داستان ہے جبکہ سات سو مصرعوں (verses) پر مشتمل بھگوت گیتا اس جنگ کی شام کو ان دو افراد کے درمیان اس بحث کی کہانی سناتی ہے جس میں کرشنا اس لئے پیش پیش ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ جنگ لڑنا اس کی ذمہ داری ہے، اس پر فرض ہے، جبکہ اس کا رتھ بان ارجنا اپنے دلائل میں اس جنگ کی اس لئے مخالفت کرتا ہے کیونکہ اس کا انجام تباہی اور معصوم انسانوں کی ہلاکت ہے۔ ارجنا اپنے گرو (کرشنا) سے سوال کرتا ہے :‘ کیا ایک جنگ محض اس لئے ضروری ہے کیونکہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کا مقصد بلند ہے اور اس مقصد کے لئے لڑنا آپ پر فرض ہے چاہے اس جنگ کا انجام لوگوں کی تباہی اور تنگدستی ہی کیوں نہ ہو؟ ‘

کرشنا کا جواب مختلف دلائل کے بعد یہی ثابت کرتا ہے چونکہ یہ جنگ اس پر فرض ہے اس لئے اسے ہر صورت انجام دینا ہی بہترین عمل ہے۔ مگر ارجنا اس سے اتفاق نہیں کرتا اور اس کے سامنے وہ تباہ کن مناظر رکھتا ہے جو جنگ کے بعد اس کے انجام میں سامنے آئیں گے۔

باوجود اس کے کہ کرشنا ہندو مذہب میں ایک بڑے دیوتا کا درجہ رکھتا ہے مگر بھگوت گیتا دونوں کے دلائل کے بیان میں مکمل انصاف کرتی ہے۔ اگرچہ بعد کے ہندو فلسفہ میں کرشنا کے دلائل کو ہی اہمیت ملی ہے مگر امرتیا سین اپنی ایک بہترین کتاب The Argumentative India میں لکھتے ہیں کہ دور جدید میں آ کر کرشنا اور ارجنا کی یہ بحث بہت زیادہ ہی اہم ہو گئی ہے اور بہترین دلائل اور اخلاقی پوزیشن کا تمغہ بالاخر ارجنا کے سینے پر ہی سجتا ہے جو کسی بھی عمل کو اس کی ساکن اخلاقی پوزیشن سے نہیں بلکہ انجام یعنی نتائج سے جانچتا ہے۔

اخلاقی پوزیشن کی یہ بحث مختلف کرداروں اور دلائل کے ساتھ زرعی عہد کے تقریبا ہر مذہب میں ملتی ہے اور دلچسب یہ کہ تقریبا تمام مذاہب و نظام ہائے زندگی کا جھکاؤ فرض کی بجا آوری یا اندھی تقلید کی طرف ہی ہے۔ کنفیوشس ازم ڈیوٹی یعنی سونپی گئی ذمہ داری کو اہم مانتا ہے اور بدھ ازم میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اسی سبب سے قدیم چینی تہذیب میں انہوں نے ایک منفرد کردار ادا کیا ہے جو فرض کو سوال و جواب اور تنقید و تحلیل کے عمل سے گزارنا پسند نہیں کرتے۔ ابراہیمی ادیان بھی فرض کو تتیجہ پر فوقیت دیتے ہیں جس کی زیادہ ٹھوس حالت یہودی مذہب میں پائی جاتی ہے۔ ذرعی معاشروں کا مذہب سے ہٹ کر عمومی رجحان بھی اسی طرف تھا جس کا ثبوت زرعی روایات کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ روایت اور فرض یعنی ڈیوٹی میں تقسیم کا عنصر زرعی عہد میں کم ہی ملتا ہے۔ ڈیوٹی یعنی فرض کی بے لچک اطاعت میری رائے میں چونکہ عہد کی ناگزیر ضرورت تھی اس لئے اسے مذہب و روایت دونوں طرف سے فوقیت ملتی رہی کیونکہ اس کے بغیر سماجی درجہ بند تنظیم (hierarchical order) قائم نہ ہو سکتی تھی جیسے مثال کے طور پر اگر رعایا شاہی احکام پر سوال اٹھاتی تو بادشاہت کا ادارہ کیسے قائم رہ سکتا تھا؟

سولہ اکتوبر 2017 بروز اتوار، میں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے لوگوں سے پوچھا کہ اگر آپ کو ایک ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے جس میں ایک طرف فرض کی بجا آواری ہو باوجود اس کے کہ اس فرض کی ادائیگی سے برے نتائج برآمد ہوں تو کیا اس صورت میں آپ فرض کی اندھی تقلید کریں گے یا انجام (نتیجہ ) کو معیار مان کر ایسے کسی عمل سے پرہیز کریں گے؟ تقریبا اسی فیصد لوگوں نے نتیجہ کو بطور ایک معیار کے قبول کیا، دس فیصد کا جھکاؤ فرض کی بے لچک ادائیگی کی طرف تھا جبکہ بقیہ دس فیصد نے سچویشن کے مطابق فیصلہ کرنے کو اہم مانا۔

گزشتہ صدی میں ایک صاحب گزرے ہے جو سماجیات اور تاریخ کے بہت بڑے عالم تھے ان کا نام ہے سیموئل ہنٹگنٹن، ان کی مشہور کتاب Clash of Civilization بہت مقبول ہے۔ یہ کتاب پاکستان میں ان کتابوں میں سے ایک ہے جس پر ہمارے پاکستانی دانشوروں کی اکثریت نے بغیر پڑھے اور غورکیے محض کتاب کے نام اور موضوع کی بنیاد پر اندھا دھند تنقید کی ہے۔ اس کتاب میں ہنٹگنٹن جس ٹکراؤ کی بات کرتے ہیں وہ یقینا موجود ہے جس کے بڑے اسباب ترقی پزیر معاشروں میں شناخت کا بحران (Identity Crisis) اور عہد حاضر سے مطابقت (Compatibility) پیدا نہ ہونا ہی ہیں جو چیلنجز کی شکل میں ہر قدامت و جدت کے درمیان لٹکی قوم کے تقریبا ہر فرد کو درپیش ہیں۔ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، صحیح کے صحیح ہونے کا معیار کیا ہے اور غلط کے غلط ہونے کا زاویہ کیا ہے؟ ہمارے تصورات جتنے طبیعاتی ہوتے جا رہے ہیں مگر مابعدالطبیعات ہمارا دامن نہیں چھوڑ رہی، کبھی پاؤں سے لپٹ جاتی ہے تو کبھی کندھوں پر سوار۔ ہم اس کا چولا اتار پھینکتے ہیں تو خود کو ننگا پاتے ہیں اگر دوبارہ سے پہن لیتے ہیں تو زمانہ سے غیر متعلق ہو جاتے ہیں۔ نہیں معلوم علم کے باب میں نسل انسانی کا مستقبل کیا ہے۔

مذہبی پس منظر کی وجہ سے میں جہادی ذہن رکھنے والے لوگوں سے وقتا فوقتا ملتا رہتا ہوں۔ دوران مکالمہ میں انہیں اس جہاد یا تخریب کاری کے انجام کی طرف جب توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہوں تو جواب یہی ملتا ہے کہ یہ ان پر فرض ہے اور اس دنیا میں بہتر نتیجہ معیار نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ عمل کرنا ہمارے ذمہ ہے اور اس کا انجام یا نتیجہ خدا کی مرضی پر منحصر ہے، یوں عمل سے اس کے نتیجہ کا تعلق براہ راست نہیں۔ وہ عام طور پر کہتے ہیں کہ چاہے پاکستان کیا ساری دنیا تباہ ہو جائے جو خدا نے ڈیوٹی ہمارے سپرد کی ہے وہ ہم نے انجام سے بے پرواہ ہو کر ادا کرنی ہے۔

ایک طرف یہ دہشت گردی کا معاملہ ہے تو دوسری طرف فکر کی دنیا میں بھی کیا صحیح ہے اور کیا غلط جیسے مباحث میں نتیجہ کو بطور ایک معیار ماننے کا رجحان ہمارے سیکولر مکاتب فکر میں بھی کم ہی پایا جاتا ہے۔ جدید سماجی علوم تجریب پسندی (Experimentalism) اور نتیجہ پسندی (empiricism) کے معیار پر قائم ہیں مگر ہمارے ہاں منطق، تصوریت اور گمان پر مبنی فکری تشریحات کا غلبہ ہے۔ ہم بےتکان بولتے جاتے ہیں، کسی تصور کو جانچ پڑتال کے عمل سے گزارے بغیر لکھتے جاتے ہیں اور پھر یہ امید رکھتے ہیں کہ اس سب کچھ کو علم مان لیا جائے۔ اور جو نہیں مانتا اسے جہالت کا طعنہ مارنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہی سبب ہے کہ ہم نہ صرف فکری ارتقا سے محروم ہیں بلکہ ہمارے علمی مباحث بھی بہترین نتائج دینے سے قاصر ہیں۔

اسی طرح ہماری سماجی زندگی ہو یا انفرادی زندگی ہم عموما روایات کی انجام دہی کو فرض سمجھتے ہوئے اس صحیح پر عمل کرنے سے قاصر رہتے ہیں جو اس عمل کے نتائج سے سمجھ آرہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خواتین کے حقوق کے معاملہ کو دیکھ لیں۔ اس وقت خواتین کی آبادی دو ہزار سترہ کی مردم شماری کے مطابق مردوں سے زائد ہے مگر حقوق کے معاملہ میں ہنوز ہمارا معاشرہ پدر سری اقدار کو تھامے ہوئے ہے، قدم قدم پر خواتین سے امتیاز برتا جاتا ہے ان کی پیدائش کی خوشی سے لے کر تعلیم اور پسند کی شادی کے حق سے لے کر زندگی کے ہر معاملہ میں کم عقل اور کم فہم سمجھا جاتا ہے۔ ایسا صرف کم تعلیم یافتہ لوگ نہیں کرتے بلکہ تعلیم یافتہ اور باشعور لوگ بھی ان روایات کو فرض سمجھ کر پوج رہے ہیں، ان میں ان لوگوں کی بھی اکثریت ہے جو سمجھتے ہیں کہ آدھی سے زیادہ آبادی سے امتیازی سلوک برتنے کا انجام ملک و قوم کے لئے تباہی ہے مگر کرشنا کی سن رہے ہیں اور اپنے ذہن کے ارجنا کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ جہیز اور شادی بیاہ میں اسراف کی لعنت بھی ان میں سے ایک ہے جس کے معاملہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کم تعلیم یافتہ طبقات میں تقسیم نہیں پائی جاتی۔ ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ جب تک ہم اپنی انفرادی و سماجی زندگی کے معاملات میں اپنے اعمال کے نتائج کو معیار اور کسوٹی نہیں بنائیں گے ہم اصلاح احوال کی جانب نہیں بڑھ سکتے۔

ہماری ریاست و حکومت کا معاملہ دیکھئے ہم اس میدان میں بھی انجام سے لاپرواہ ہو کر پرانی غلطیاں بار بارکیے جا رہے ہیں۔ ملک ٹوٹا، یہ حادثہ نہ ہماری قومی یادداشت میں ہے اور نہ ہی ہم نے اس سے کچھ سیکھا ہے۔ سیاسی میدان میں ویسے ہی اکھاڑے گرم ہیں جیسے پوری تاریخ میں رہے ہیں۔ قومی اداروں میں جمود و تنزلی ہے اور با اختیار افراد نتائج سے بے پرواہ ہیں۔ ہماری ناکامی و نامرادی کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے نہ پبلک پالیسی کو اور نہ ہی قومی پالیسی کو ان کے نتائج کی کسوٹی سے گزارا ہے اور نہ ایسی ہماری نیت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی مقصد۔

قصہ مختصر یہ کہ معرکہ ہنوز درپیش ہے اور کرشنا و ارجنا کے درمیان مکالمہ جاری ہے۔ کرشنا بطور بھگوان پوجا جا رہا ہے مگر ارجنا پورے طمطراق کے ساتھ اپنے دلائل کے زور پر کھڑا مسکرا رہا ہے اور جانتا ہے کہ ایک دن زمانہ اسے دریافت کر لے گا۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan