پولیس کا مثبت اور قابل تحسین اقدام اور ہمارے معاشرے کی بے حسی


ہمارا مذہب ہمیں انسانیت کا درس دیتا ہے۔ کسی کی مدد کرنا، کسی کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا ہمارے مذہب اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں۔ لیکن آج سے چند دن قبل جی ٹی روڈ پر برہان کے قریب ایک وین کو حادثہ پیش آیا جو کہ راولپنڈی سے پشاور کے لیے محو سفر تھی اس المناک حادثہ میں 11 افراد لقمہ اجل بن گئے اور 7 شدید زخمی ہوئے جن کی حالت تا حال انتہائی تشویش ناک ہے۔

اس حادثہ کے بعد جو مناظر سب سے زیادہ باعثِ شرم تھے وہ لوگوں کا منفی کردار تھا۔ وہاں پرزخمیوں کو ہسپتال پہنچانے اور پولیس کی مدد کرنے کے بجائے لوگ سیلفیاں بنا رہے تھے اور کچھ تو لوگوں کی جیبیں صاف کرنے میں مصروف تھے۔ اس موقع پر ریسکیو 1122 پہنچی اور وہاں سے زخمیوں کو اٹھایا اور اور قریبی ہسپتال حسن ابدال منتقل کرنے کے بجائے حضرو لے گئے۔ جب پولیس نے ان سے بات کی کہ ان زخمیوں کوقریبی ہسپتا ل منتقل کریں تو انہوں نے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ یہ ریسکیو 1122 حضرو کی ہے اس لیے ہم انہوں حضرو منتقل کریں گے۔ اس طرح کئی زخمی راستے میں ہی جان کی بازی ہار گئے۔ اب باری آئی موٹر وے پولیس کی جن کو مثالی پولیس تصور کیا جاتا ہے انہوں نے مسافروں کی جیبیں چیک کیں اور روڈ کلیئر کروا کر چلتے بنے۔ زخمیوں میں سے ایک زخمی نے جب اپنا جیب چیک کیا تو اس میں کچھ نہ پا کر پنجاب پولیس کو مطلع کیا کہ اس کے جیب میں 5 لاکھ روپے تھے جو موجود نہیں ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وہاں موجود پولیس اہلکار نے جب پوچھ گچھ شروع کی تو وہ رقم موٹر وے پولیس کے ایک اہلکار سے برآمد ہوئی۔ اس فرض شناس پولیس اہلکار نے وہ رقم اس شخص کے حوالے کی اور پھر زخمیوں اور میتوں کو سنبھالنے میں لگ گیا۔ اس موقع پر برہان پولیس چوکی کا کردار مثبت اورمثالی رہا۔

اس موقع پرکچھ ایسی چیزٰیں سامنے آئیں جو ہماری ریاست کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ وہ ہیں پولیس کے پاس سہولیات کا فقدان۔ اس موقع پولیس کے پاس ایمبولینس ہونی چاہیے تھی لیکن موجود نہ تھی یہاں تک کہ جائے حادثہ کو کارڈن آف کرنے کے لیے ربن تک موجود نہ تھا۔ زخمیوں کو منتقل کرنے کے لیے ریسکیو 1122تو تھی لیک میتوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے کوئی ادارہ اورانتظام موجود نہ تھا۔ میتوں کو جب منتقل کرنے کے لیے ریسکیو1122 سے بات ہوئی تو انہوں یہ کہ کر انکار کر دیا کہ زخمیوں کی منتقلی ان کی ڈومین میں نہیں آتی۔ اس موقع پر پنجاب پولیس جس کوہم سب برا بھلا کہتے ہیں ان کا مثبت کردار ایک بار پھر سامنے آیا انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت میتوں کو اپنی ٹوٹی پھوٹی ناکارہ گاڑی میں ہسپتال منتقل کیا۔ اس موقع پر وہاں موجود لوگوں کی طرف سے کوئی رسپانس سامنے نہ آیا اور وہ پولیس کی مدد کرنے اور میتوں ہسپتال منتقل کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ان کا کام یہاں ہی ختم نہ ہوا بلکہ انہوں نے زخمیوں کے اہل خانہ کو اطلاع دینے کا بیڑا اٹھایا اور مشکل سے ایک ایک کر کے بہت تگ و دو کے بعد مسافروں کے اہل خانہ کو اطلاع دی۔ یہ مرحلہ مشکل تھا چونکہ مسافروں سے ملنے والے بہت سے فون ٹوٹ چکے تھے اور اور کئی لوگوں کے پاس ریکارڈ بھی موجود نہ تھا اس مرحلے کو برہان پولیس چوکی نے دو تین دن میں سرانجام دیا اور لواحقین کو اطلاع دی۔ اس موقع پر پولیس کے پاس مسافروں سے ملنے والی جو رقم تھی وہ انہوں نے امانت سمجھ کر مسافروں کے اہل خانہ تک پہنچائی اور ان تک پہنچا رہے ہیں۔

ہم پولیس کو برا بھلا تو بہت کہتے ہیں لیکن ان کے مثبت کام کو سرہاتے نہیں ہیں۔ میرا اس کالم کو لکھنے کا مقصد پولیس کے مثبت کام کوسراہنا ہے۔ جب پولیس اہلکار میتوں اور زخمیوں کواٹھا رہے تھے اس وقت ان کو کوئی اٹھانے کے لیے تیارتک نہ تھا۔ ان کے کپڑے خون میں لت پت تھے لیکن وہ اپنا فرض نبھا رہے تھے۔ اور لوگ بجائے ان کا ہاتھ بٹانے کے سیلفیاں بنانے میں مضروف تھے۔ اس سیل فون اور سیلفی کلچر نے ہمارے معاشرے کو برباد کر کے رکھ دیا ہے اور ہم اخلاقیات کے تمام درس بھول گئے ہیں۔ ہمیں صرف ایک بات سوچنی چاہیے کہ وہاں اس گاڑی میں ہم خوب بھی تو ہوسکتے تھے!

میں اس موقع پر موجود برہان پولیس چوکی کے اہلکاروں، طارق محمود اے ایس آئی، بابر ریاض ایچ سی، اور کانسٹیبل طاہر محمود اور محمد یوسف کو ان کی فرض شناسی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ قوم کو آپ جیسے بیٹوں پر فخر ہے۔

آخر میں میں حکومت پنجاب سے دست بستہ گزارش کروں گا کہ خدارا ایسے حادثات سے نمٹنے کے لیے خصوصی پولیس تشکیل دیں جو ہر قسم کے سامان سے لیس ہو جن کے پاس بنیادی فرسٹ ایڈ دینے والے لوگ، ایمبولیس، میتوں کو منتقل کرنے کے لیے گاڑی اور جائےحادثہ کو کارڈن آف کرنے کا مکمل انتظام موجود ہو۔ پھر تینوں اداروں ریسکیو 1122، موٹروے پولیس اور پنجاب پولیس کے درمیان کوآرڈینشن کا مربوط نظام موجود ہو۔ تاکہ وہ حادثات سے ملکر نمٹ سکیں۔ میں سفر کرنے والے شخص سے گزارش کروں گا کہ جب بھی آپ سفر کے لیے نکلیں اپنا آئی ڈی کارڈ اور گھر کے دو تین افراد کے نمبر اپنے جیب میں ضرور رکھیں۔ تاکہ ایسے حادثہ کی صورت میں بروقت اطلاع دی جاسکے۔ میں عوام سے صرف اتنا کہوں گا کہ خدارا اپنی موت ضرور یاد کرلیا کریں اور ایسے موقع پر پولیس کی مدد ضرور کریں نہ سیلفیاں لیں۔ تاکہ کل اگر آپ کے ساتھ خدا نخواستہ ایسا حادثہ پیش آئے تو کوئی آپ کی بھی مدد کے لیے تیار ہو۔ اللہ ہم سب کو ایسی ناگہانی آفات سے محفوظ فرمائے۔ (امین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).