مدارس کے طلبہ کا ذہنی لیول – جواب حاضر ہے


مصنف مفتی محمد توصیف قاسمی دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں اور حیدر آباد دکن میں رہتے ہیں۔ ان کا تعلق لکھنو سے ہے۔

چند دن قبل ایک مدرسہ کے فارغ کی تحریر دیکھی جو اسی عنوان سے معنون تھی جو میں نے لگایا ہے، موضوع تھوڑا حساس ہے، اس میں اشکال نہیں کہ بہت پہلوؤں میں انحطاط کے سبب اس بابت بھی بہت انحطاط آیا ہے، اور علاوہ ازیں مذکورہ تحریر میں کئی معنوں میں جھول موجود ہے، لیکن میرے خیال سے اس مسئلہ پر فقط جوابی نہیں، خالی الذہن ہوکر دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے، اور راقم کے ذہن بھی یہی ہے، اس لئے اسے تردیدی مضمون سمجھنا اس کی حق تلفی ہوگی۔

میں نے اس سلسلہ میں اکابر اور بعض بڑوں کی کتابوں میں اسے اشارة و اختصارا دیکھا ہے، جس کے پیش نظر یہ خیال تو ہوا کہ اس پر کوئی مفصل تحریر ہونی چاہیے، تاہم نہ تو کسی اور سے دیکھنے کو ملی اور نہ ہی خود بے مائگی سے ہمت کرسکا، تاہم اس تحریر سے مجبور کیا کہ اپنے ٹوٹے پھوٹے خیالات ہی مرتب کردیئے جائیں۔

*تنبیہ* کچھ کہنے سے قبل اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ایک اجمالی گفتگو ہے، اور ہمارا جائزہ بھی اجمالی ہی ہوگا، اور اگر تفصیل اور فرد بفرد کی تحقیق کی جائے تو وہاں قاعدہ کلیہ نہ چلے، مطلب یہ کہ بات مدراس کے طلبہ بنام اسکولی طلبہ ہے اور یہ اجمال ہے، لیکن اگر ہم مدارس کے طلبہ کی سطح ثابت کریں اور کوئی اس کے مقابل فلاں اور فلاں عصری تعلیم یافتہ کے کارنامے بیان کرے تو مقابلہ برابری کا نہیں، بلکہ ایک طرف اجمال اور عموم ہے تو دوسری ایک متعین فرد یا چنندہ شخصیات، اگر برابری ہی کرنا ہے تو پھر اس طرف سے بھی کچھ شخصیات کو منتخب کرنا ہوگا تاکہ تقابل میں برابری پیدا ہو، اور جس سے یہ ایک طرف سے ناقابل قبول ہے اسی طرح دوسری طرف سے بھی ناقابل قبول ہے۔

** سب سے پہلے ہم نے قرآن کو دیکھا تو اس نے بھی عقلمدوں اور اہل دانش کا پتہ دیا ہے، چنانچہ ارشاد باری ہے:
زمینوں اور آسمانوں میں اور دن و رات کے بدلنے میں اہل دانش کے لئے نشانیاں ہیں، جو کھڑے، بیٹھے اور پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اور زمینوں اور آسمانوں کی تخلیق میں فکر و تدبر کرتے ہیں۔ (آل عمران 190، 191)

اس آیت کریمہ میں اہل عقل و دانش اور حکماء کی دو صفات بیان ہوئی ہیں، ایک اللہ کا ذکر، دوسرے تدبر و فکر اور غور و فکر کر لیا جائے زمین اور آسمان ایک کرلیا جائے یا دنیا کے کنہی دو مقدموں کو ملا جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا کے ان دونوں صفات کا جامع اہل مدارس کے سوا کوئی طبقہ، کوئی جماعت، کوئی فرقہ، یا کوئی بھی بحیثیت طبقہ و جماعت روئے زمین پر موجود نہیں۔

** احادیث پر نظر جو ڈالی تو یہاں تو بے شمار شواہد موجود ہیں تاہم بطور نمونہ چند پر اکتفا کی جاتی ہے۔
رسالت مآب رحمة للعالمین۔ صلی اللہ علیھ وسلم۔ کے حضور سے ارشاد ملا ہے:
(رواہ الترمذی) پوری دنیا اللہ کے یہاں ناپسندیدہ ہے مکروہ ہے، اور جو کچھ اس دنیا میں وہ سب بھی، سوائے اللہ کے ذکر اور جو اس جیسی چیزیں ہیں یا علم رکھنے والا یا علم سیکھنے والا۔

یہ بھی بالکل صاف و سیدھی سی سند ہے ہماری بحث پر، بلکہ اس سے مستزاد پر وہ اس طرح کہ اگر کسی کی ذہانت و فطانت بھی اور وہ اس سے بڑے بڑے کارنامے بھی انجام دے رہا ہے تب بھی وہ عند اللہ ملعون اور نا قابل اعتناء ہے، بلکہ اگر ذہنیت بہت زیادہ پختہ نہ بھی ہو بس جو عطیہ خدائی میں میسر آئی اسی کو ذکر اللہ اور اللہ کی عبادات (تمام عبادات اللہ کے ذکر کے قائم مقام ہیں) میں لگاتا ہے یا اس سے علم سکھاتا ہے یا ابھی حصول علم میں ہی لگا ہوا ہے وہ البتہ اللہ کو پسند ہے، معلوم ہوا کہ کوئی اعلی عقل نہیں کا نہیں پھر بھی اگر ذکر و فکر اور عبادات میں مشغول ہے تو وہ عند اللہ قبولیت کا درجہ رکھتا ہے، اور اگر کسی کے پاس اعلی عقل کمال درجہ کی ذہانت موجود تو ہے لیکن اس کا استعمال وہ مذکورہ چیزوں کے علاوہ کسی بھی دنیاوی شغل میں رکھے تو اس کی یہ بلند سطح عقل و ذہانت کسی کام کی نہیں، جو اللہ کو قبول نہیں ایسی عقل سے بے عقلی اچھی ہے۔

مشہور و زبان زد حدیث پاک ہے:
تم میں سے سب سے بہتر وہ لوگ ہیں کو قرآن کو سیکھیں اور سکھائیں۔ (بخاری و ابو داود)

اسی طرح ایک روایت میں ہے:
میری امت کے شرفاء حاملینِ قرآن ہیں۔ (الترغیب و الترہیب اور مجمع الزوائد وغیرہ)

بطور نمونہ ان نصوص و آثار پر اکتفاء کیا گیا بہتیرے آیات قرآنیہ اور بے شمار احادیث و اقوال سلف موجود ہیں جو مطلق اس عقل کی تعریف و توصیف میں وارد ہیں جو طلبہ علوم اسلامیہ اور آج کی زبان میں اہل مدارس کے حق میں آئے ہیں۔
چونکہ سب سے پہلی نظر نصوص کی طرف رجوع ضروری ہے اس لئے ان کے بغیر کلام ناقص تھا۔

دوسری طرف اہل مدارس پر زبان چلانا والا طبقہ ہمیشہ عقل پرستوں کا ہے، خود فریبی کا جن ان پر سوار رہا ہے، جب کہ اگر عقل سلیم کا تقاضا دیکھا جائے تو اس کا عقیدہ ہی نہیں عملی نمونہ بھی اہل مدارس میں موجود ہے، جیسا عرض ہوگا۔
نصوص کے بعد عقلی لحاظ سے بھی اس کا جائزہ لینا ازبس ضروری ہے ورنہ یہ کلامِ ناقص ہوگا۔

** سب سے پہلے تو مناسب ہو گا کہ ہم کوئی معیار مقرر کریں تاکہ برابری کا فیصلہ ہوسکے، اور جب بات معیار کی آتی ہے تو اس میں پہلو کا متعدد ہونا مانع بنتا ہے، جس کے سبب ایک معیار ملنا ناممکن ہوجاتا۔

مثلا اگر معیار مانا جائے علوم سے علوم کی تخلیق کا تو یہ بھی ایک معیار ہے، ایسے ہی کسی ایک نوعِ علم کی تخریجی و تفریعی کارروائی اور اس میں عموم و ترقی کو بھی معیار مانا جاسکتا ہے، اور یہ بھی ایک علمی بھی ترقی ہے کہ کسی علم کی تنویع کی جائے یعنی اس میں شاخیں نکال کر اسے وسیع تر کیا جائے۔
اب سنئے کہ یہ تینوں ہی کام اہل مدارس عربیہ کر چکے ہیں اور کر بھی رہے ہیں، علوم کی تخلیق تفسیر، حدیث اور فقہ ان سب کے لئے اصول و قواعد وضع کیے گئے، یہ علمی تخلیق، منطق و فلسفہ کو کلمہ اسلام پڑھایا گیا یہ علوم میں نوعیت اور شاخ نکالنا ہے، اور اجتہاد کے بیسیوں مراتب ہیں جن پر آج بھی فائز آج ہی کے مدارس کے فارغین فائز کام۔ کر رہے ہیں اور امت کی تشنگی کو دور کر رہے ہیں۔
جب کہ کھلے دل سے اعتراف ہے کہ علوم عصریہ کے محققین نے بھی یہ کمالات و جوہر انسانی دکھایا ہے۔

بس میدان کا فرق ہوگیا ہے، وہ علل پیدا کرتے ہیں ہم اس پر مسئلہ مرتب کردیتے ہیں، وہ اشیاء کی حقیقت پر اثر انداز ہوتے ہیں علماء اس نئی حقیقت کو بھی کھوج اس پر حکم لگاتے ہیں، وہ کہیں جمع تو کہیں تفریق کردیتے ہیں، یعنی کسی ایک حقیقت میں تعدد اور کبھی متعدد حقائق کو اتحاد کی شکل بخش دیتے ہیں اہل مدارس اس کی ہر ہر نوع اور شق پر پہنچ جاتے ہیں اور اسلامی عالمگیری اصول سے اس کا ربط بنا دیتے ہیں۔

** اب اسے اہل مدارس عربیہ کی خوش قسمتی کہیے یا علوم دنیوی کے فریفتاؤں کی بد نصیبی کہ جو سلسلہ ایجادات و اختراعات آج دنیا دیکھ رہی ہے وہ کسی نا کسی نوع سے کسی عربی مدارس کے فارغ یا تعلیم یافتہ ہی کی مرہون ہے، کہیں بعینہ تو کہیں بمثلہ، بس ہوا کہ چونکہ مسلمانوں میں اپنے تواریخ کے ضبط کا مادہ تو خوب تھا مگر تشہیر وہ بھی مبالغہ آمیز۔ آج کی طرح۔ کرنے کا مرض کبھی سے نہیں رہا اس لئے ضرور عربی تعلیم یافتوں کے کارنامے اب بھی خود مسلمانوں سے ہی مخفی ہیں، سوائے ان کے جنھیں تواریخ جھانکنے کی نوبت آئی ہو، حساب، آپریشن کا عمل جراحی، نقلی انسان بنانے والے، راکٹ لانچر کے لئے مرہون منت سبھی اس وقت کے مسلمان ہیں جب سوائے عربیت کے کوئی دوسرا علم نہیں کہلاتا تھا۔

** عربی خوانی کا ایک سب سے بڑا فائدہ جو راست عقل کو مہمیز دیتا ہے اور جس سے دوسرے علوم بالکلیہ عاری ہیں وہ ہے احتمال آفرینی اور تشقیق، یہ صرف عربیت کا ہی خاصہ ہے، جبکہ دوسرے علوم عصریہ اس سے یکسر خالی ہیں، بلکہ اس کے بر عکس جو ان علوم کے موجد یا مرجع ہیں ان کے ڈالے ہوئے گھیرے سے باہر قدم رکھنا اس علم کا انہدام ہے، کوئی دوسرا ہی بلکہ ڈیڑھوا بھی آپشن و انتخاب بچ نہیں رہتا جس پر آپ اپنے عقل کی نفاذیت اور فعالی کو جانچ سکیں۔

** دو المیے ہمارے مسلمان معاشرے کے ہیں، جن کا شکوہ حکیم الامت حضرت والا تھانوی نور اللہ مرقدہ نے اپنے زمانہ میں کیا ہے، جب اس وقت یہ انحطاط تھا تو اس وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ کس درجہ گرا ہوا ہوگا۔
وہ یہ مدارس میں پڑھنے کے لئے گھر کے بچوں میں سے اس کا انتخاب ہوتا ہے جو انگریزی پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، یعنی جو کند ذہن ہیں ان کا انتخاب مدارس کے لئے جارہا ہے اور جس ذہین و فطین ہے اسے لاکھوں کی فیس دے کر عصری تعلیم پر لگاجا رہا ہے۔

** دوسرا یہ کہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کی اکثریت و اغلبیت غریب طبقہ کی ہے اور کچھ متوسط طبقہ کی اور اس کچھ سے کچھ امیر گھرانوں کی۔
اور یہ بات بالکل بدیہی ہے، جس کے استدلال کے لئے کسی دلیل کی حاجت نہیں کہ جو جتنا زیادہ فراخ اور فارغ البال ہوگا اس کی ذہنی سطح اتنی بلند ہوگی، اور وجہ بھی صاف ہے کہ جسے اپنے نان و نفقہ کی فکر مشغول رکھتی ہو وہ کیونکر سیرابی سے فکر کو کام میں لاسکتا ہے، گھر والوں کے افکار کا اثر بچوں پر پڑتا ہے، جو ان کی ذہنی بلوغ و ارتقاء میں حائل ہوتا ہے۔
یہ دونوں اسباب ایسے ہیں جنھیں حضرت حکیم الامت بیان فرمایا ہے۔
اس کا حل بالکل واضح ہے، کہ ذہین بچوں کا انتخاب مدراس کے لئے لیا جائے۔

** دوسرا سبب بھی ایک غیر معمولی ہے کہ کسی چھوٹی موٹی کوشش و کاوش سے سب کا مسئلہ حل ہوجائے ایسا نہیں، آج مدارس کے ایک سے بڑھ کر ایک علماء فضلاء نکل رہے ہیں کچھ تو اہنے مقدر سے آگے نکل کر مدرسہ کی راہ کو ہی خیر باد کہدیتے ہیں کہ ان کی امیدیں اور اہداف تو مدرسہ کی آمدنی سے پورے ہو نہیں سکتے لہذا اس سے علیحدگی کو سب سے پہلی سیڑھی سمجھتے ہیں اپنی فراخ و فارغ زندگی کی۔

** جو ہمت کرکے رہ جاتے ہیں تو انہیں بھی اتنا ملتا ہے جس سے اس کے فرائض نفقہ ادا ہوسکیں، پھر اوہر سے دنیا کے متعلقات کے مار کبھی بیوی تو کبھی بچے اور کبھی گھربار، اب ان کی ضروریات پوری جائیں گی یا اپنی، بس اسی میں گزار لیتا ہے یہ بندۂ خدا۔
یعنی ایک اچھی صلاحیت کا حامل ہوکر بھی ذہنی کوفت یا کم از کم آمدنی سے یکسو نا ہونے کے سبب ذہنی یکسوئی کھو چکا ہوتا ہے۔
اب میں سے بھی بعض معدودے بچے کچے جو ہر طرح سے فارغ البال ہیں جو کچھ کر سکتے ہیں کر رہے ہیں۔

** مجھے ہندی مسلمانوں کے اہل حل و عقد طبقہ سے یہ شکایت ضرور ہے کہ آج وہ ان پرانے اصول پر چلنے کو دل و جان سے آمادہ ہیں جو جنگ آزادی سے قبل حصول آزادی کے لئے مرتب کیے گئے تھے، اور ظاہر ہے کہ ان اصول سے یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی جس سے آج ہم سب جوجھ رہے ہیں، بلکہ ضرورت ہے ایک نئے نظام و تنظیم کی ایک نئی فکر کی اور نئے روڈ میپ کی، ایک دریافت کی، ایسی پالیسی کے اختیار کرنے کی جو ہمیں آج نہیں تو کل سیاسی، سماجی اور معاشی احوال میں خود کفیل بنائے اور امن کے بھکاری بن کر در بدر ٹھوکر نہ کھائیں۔
یہ ہماری طرف سے ایک یقینی کوتاہی جس کا مجھے تہ دل اعتراف ہے لیکن اس کوتاہی کا سبب میں یہ کہوں ان کا ذہنی لیول اور فکری معیار گر یا مر چکا ہے؟ ہرگز نہیں۔
اس لئے کہ عملی کوتاہی ہمت و حوصلہ کی کے کمی سے ہوتے ہیں، ذہنیت کے سطح سے اس تعلق نہیں، یہ ضرور کہہ سکتے ہیں ہمارے حوصلہ ٹوٹے پڑے ہیں، کسی روح پھونکنے والے کی دیری ہے۔

** بہتیرے عصری علوم کے دلدادہ اس کی ایجادات و اختراعات کا مقابل اہل مدارس سے مانگتے ہیں، کہ علوم عصریہ نے آج دنیا کو یہ دیا، وہ دیا، مدارس نے کیا دیا۔
اس کا ایک سیدھا سا جواب تو یہ ہے مدراس میں بنیادی طور پر دیے جانے والے علوم بعینہ فضیلت والے ہیں، جس پر قرآن و احادیث کے بیانات بالکل واضح اور کھلے ہوئے ہیں، بر خلاف علوم عصریہ کے یہ ان کی کوئی فضیلت خاص نام سے نہیں وارد، تاہم یہ علوم مقاصد دینیہ یا خدائی مطلوبات کا واسطہ اور ذریعہ ہونے کی حیثیت سے ضرور موجب فضائل ہیں۔

** دوسری بات یہ کہ جب یہ علوم نہیں، فنون ٹھہرے تو ایک کا مقابلہ دوسرے سے بے جا ہوا، اگر یوں کہا جائے کہ کان جسم کے زیادہ ضروری ہے یا ناک کی کرامات زیادہ ہیں؟ جتنا یہ سوال نا قابل توجہ ہے اسی طرح عصری و دینی علوم کا تقابل معیوب ہے۔
دونوں کے مقاصد ہی جدا ہیں تو ظاہر ہے مساعی کے نتائج میں کیوں نہ فرق ہوگا۔

** اس بات کا اعتراف نہیں، بلکہ ہماری تشکیل رہی کہ عصری علوم بھی انسانی ذہن و عقل کے ارتقاء، تہذیب و تمدن کی تحسین اور جاہلیت کے نرغہ سے بچنا کا ایک درجہ واسطہ ضرور ہیں، اس لئے اگر معمولی دینداری اور ٹھوس اسلامی عقائد پر مشتمل ماحول میں اگر عصری علوم کا نظم ہوتو اس کا فائدہ دنیا و اہل دنیا پر ناقابل بیان تاثیر رکھتا ہے، ادھر تدین کے سبب انسانی اپنی آخرت بھی برباد نہیں کرنے پاتا، ماضی میں بھی اس کی مثالیں رہی اور آج بھی ہیں۔

** فقط علوم عصریہ کو اگر جاہلیت کا دشمن کہا جائے تو میں ضرور اسے تحکم اور بے حقیقت امر کہوں گا، کہ اگر چہ یہ دلائل شرعیہ کے خلاف ہے ساتھ ہی مشاہدہ و واقع الامر بھی اس کا منکر ہے، کاش کہ میں اس بین المختصر والطویل تحریر میں کچھ مثالیں لکھ پاتا۔

** ایک آخری بات اپنی طرف سے یہ کہنا چاہوں گا کہ مسلمانوں خصوصا مدارس کے فضلاء و محققین کے وجود میں کوئی کمی نہیں، اسباب کی بھی فی الجملہ کسر نہیں، نتائج مطلوبہ کا نا برآمد ہونا اور احوال کا مائل بتنزل ہونا اس لئے بھی کہ آج ذہن وعقل کا معیار گر چکا ہے، بلکہ اس لئے ہے کہ اس کا استعمال کما حقہ نہیں ہورہا، ہمارے پاس کسی تحریک کا کوئی لائحہ عمل نہیں، جو بظاہر تحریکیں ہیں بھی تو کوئی مرتب نظام نا ہونے سے مثل انفرادی محنت کے ہوکر رہ گئی ہیں۔

آج یہود و نصاری کوئی چھوٹا سا بھی ہدف بنائیں تو اس کی سالوں تنظیم و ترتیب ہوتی ہے، اور پھر اس ترتیب کو لائن پر ڈال کر چھوڑ دیا جاتا ہے، لیکن ہمارے یہاں ایسا کچھ نہیں بچا، خیر دیر ہی ہے، اندھیر نہیں۔

** اوپر جس مضمون کا ذکر ہوا کہ انہوں نے مدراس کے طلبہ کے ذہنی لیول کو گرانے کے لیے اپنی تحریر مرتب کی، اس پر باقاعدہ نقد تو ضروری نہیں سمجھا، لیکن ایک بات جو اس میں ذکر ہوئی نہایت درجہ ذہنی پسماندگی کا برہان ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ ”مدرسہ الاصلاح“ جب وہ پڑھ رہے تھے تو ان کو یہ محسوس ہوا کہ وہ ایک دشمن ملک میں رہتے ہیں۔
ہمارے اصلاحیوں سے لاکھ فکری نزاعات اپنی جگہ لیکن یہ کاتب کا ایسا بھونڈا الزام ہے کہ مجھے ایک اعشاریہ بھر بھی تسلیم نہیں، اول تو اگر انہوں نے اس کی کوئی دلیل یا کم از کم علامت و قرینہ ہی لکھا ہوتا تو بھی غور کا متقاضی تھا، لیکن یہاں تو سرے سے کچھ نہیں جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ موصوف اپنی ذہنی انحطاط کے اسباب کو تلاش کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اسباب انہوں نے اپنے مادر علمی پر تھوپ دیے، ماضی کی غلطیاں اور خامیاں اپنی جگہ، بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اخطاء اجتہادیہ ہیں، لیکن موجودہ وقت میں کسی مدرسہ کا یہ تاثر کہ وہ کسی دشمن ملک میں رہتا ہے، یہ کم ازکم بندے کے نزدیک از قبیل محالات ہے۔


اسی بارے میں

مدارس کے طلبہ کا ذہنی لیول کیا ہے؟

مدارس کے طلبہ کا ذہنی لیول – جواب حاضر ہے

مطلب مدارس والے نہیں سدھریں گے؟

محمد توصیف قاسمی (فاضل دارالعلوم دیوبند)۔
Latest posts by محمد توصیف قاسمی (فاضل دارالعلوم دیوبند)۔ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد توصیف قاسمی (فاضل دارالعلوم دیوبند)۔

مصنف مفتی محمد توصیف قاسمی دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں اور حیدر آباد دکن میں رہتے ہیں۔ ان کا تعلق لکھنو سے ہے۔

muhammad-tauseef-qasmi has 2 posts and counting.See all posts by muhammad-tauseef-qasmi

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments