درخت پر چڑھا بچہ پوچھتا ہے، اب میں نیچے کیسے اتروں گا؟


جب بچے تھے تو باپ سے ڈر لگتا تھا۔ بھوسے والے گودام کے اندھیرے اور اندھیرے میں چھپے بھوتوں اور چڑیلوں سے ڈر لگتا تھا۔ سکول گئے تو پی ٹی ماسٹر سے ڈرتے تھے۔ سائیکل اور موٹرسائیکل پر بیٹھے تو پتہ چلا کہ پولیس بھی کوئی چیز ہوتی ہے اس سے بھی ڈرنا چاہیے۔

لکھنے پڑھنے کے دھندے میں آئے تو یار لوگوں نے الطاف بھائی کا خوف دل میں ڈالا، ایجنسیوں سے ڈرایا۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہمارے ایمان کا حساب کتاب کرنے والوں سے تو ڈرنا بنتا ہی ہے۔

کراچی میں موبائل چھیننے والوں سے نظر بچا کر چلنا سیکھا لیکن جیسے جیسے ادھیڑ عمری بزرگی میں بدل رہی ہے پرانے خوف کم ہوتے جا رہے ہیں ان کی جگہ ایک نئے ڈر نے لے لی ہے۔

مجھے پارکس میں بیٹھے ہوئے ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور نیم ریٹائرڈ ٹھیکیداروں سے بہت خوف محسوس ہوتا ہے۔ بچہ چھوٹا ہے اس لیے پارکس میں جانا بھی مجبوری ہے۔ اکثر جانا ڈیفینس اور کلفٹن کے پارکس میں ہوتا ہے۔

آپ ڈی ایچ اے والوں کو کچھ بھی کہہ لیں پارک اچھے بناتے ہیں۔ بزرگوں کے لیے آرام دہ بینچ، خواتین کے بیٹھنے کے لیے علیحدہ جگہ، ایک کونے میں نماز کا بھی انتظام۔ بچوں کے جھولوں کے معاملے میں کچھ بخیلی کرتے ہیں لیکن یہ ہم سویلین لوگوں کی عادت بن چکی ہے کہ فوج کی دی گئی سہولتوں کے مزے بھی لوٹتے ہیں اور شکایت بھی کرتے جاتے ہیں۔

میں جس پارک میں جاتا ہوں اس میں ریٹائرڈ سرکاری افسران آتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال اور ساتھ ایک خادم کی موجودگی سے لگتا ہے کہ 22ویں، 23ویں گریڈ کے بزرگ ہیں۔ کبھی ہلکی پھلکی چہل قدمی کرتے ہیں مگر اکثر بینچوں پر بیٹھ کر وہی کرتے ہیں جو پوری قوم کرتی ہے یعنی حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ۔ بچے کے پیچھے بھاگنے میں کبھی وقفہ آتا ہے تو چلتے چلتے ان بزرگوں کے تبصرے بھی سن لیتا ہوں۔

مجھے ان سے ڈر پچھلے مہینے اس وقت لگنا شروع ہوا جب ہر بینچ سے نارتھ کوریا، نارتھ کوریا کی صدائیں آنے لگیں۔امریکہ کو ہمیں وہی جواب دینا چاہیے جیسے نارتھ کوریا نے دیا ہے۔ کیا کر لیا کسی نے نارتھ کوریا کیا؟ لیڈر ایسے ہوتے ہیں، قومیں ایسی ہوتی ہیں۔

اتنی دیر میں بچہ کسی تتلی یا بلّی کے پیچھے بھاگتا ہے میں اس کے پیچھے بھاگتا ہوں۔ دل میں ہول سا اٹھتا ہے۔ بزرگوں کی غیرت گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ دل ہی دل میں کہتا ہوں کہ اپنی عمریں دیکھو، اپنی حرکتیں دیکھو۔ آپ نے ساری عمر سرکاری کرسی پر بیٹھ کر حکمرانی کی، سرکاری کار میں سفر کیا، بچے کینیڈا میں سیٹل کروا دیے، خود بھی سرکاری دوروں پر یورپ، امریکہ اور دبئی دیکھ چکے ہیں۔ اگلی مرتبہ نارتھ کوریا کا ہی چکر کیوں نہیں لگا لیتے۔

پھر دل میں خیال آتا ہے، میں بھی سنکی بڈھا بنتا جا رہا ہوں۔ آخری عمر میں جب اعضا مضمحل ہونے لگتے ہیں دنیا پر چھا جانے والی مردانگی کے خواب دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ اس سے پہلے کچھ ایسے ہی لوگوں نے میرے شہر کراچی کو بیروت بنانے کا خواب دیکھا تھا، وہ نہ بن سکا تو اپنے ہی بنگلوں میں چھوٹا موٹا دبئی ٹائپ ماحول بنا کر صبر کر لیا۔

ساری جوانی انھوں نے ہمیں پاکستان کو افغانستان بنانے کا خواب دکھایا جہاں پر سپر پاور کا فالودہ بنایا جائے گا، جہاں انصاف ہوگا۔ اب اسی افغانستان کو سارے فساد کی جڑ بتاتے ہیں۔ (یہاں ایک بزرگ بلوچ کی بات دہرانے کی اجازت چاہتا ہوں۔ فرمایا تم ہمیں کہتے ہوں کہ پوری تاریخ میں کوئی طاقت افغانستان کو فتح نہیں کر سکی تو تم کیسے کر لو گے ماما۔)

میرے پارک کے بزرگوں کے سرخیل اکثر آپ نے ٹی وی پر دیکھے ہوں گے۔ ایک جنرل اسلم بیگ ہیں جنھوں نے فوج کے حاضر سروس چیف ہوتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو عراق سے سبق سیکھتے ہوئے امریکہ کو ٹھینگا دکھانا چاہیے۔ اب انھی کے قبیل کے بزرگ کہتے ہیں کہ ہمارا شکر ادا کرو ورنہ پاکستان عراق بن جانا تھا۔

سویلین بزرگوں کے سردار جناب روئیداد خان ہیں۔ انھیں کہیں سے انقلاب کی افواہ بھی سنائی دے جائے تو فوراً رہنمائی کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ وہ تو انقلاب انھیں آتا دیکھ کر شرما جاتا ہے اور پتلی گلی سے نکل لیتا ہے۔

میرے پارک کے بزرگ بھی نارتھ کوریا کا حوالہ دے کر آہ بھرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے اپنے دور مار راکٹوں پر ابھی تک ایٹمی بند کیوں نہیں باندھے۔ پھر دل کی بات زباں پر آ جاتی ہے۔ یہ چور، یہ لٹیرے، یہ زرداری، یہ شریف بدمعاش کہاں چلنے دیں گے اس ملک کو۔

یہ کہتے ہوئے مجھے پردہ دار گھرانوں میں پلی وہ شہزادیاں یاد آ جاتی ہیں جو اس انتظار میں رہتی ہیں کہ کوئی شہزادہ آ کر ان کی روکھی زندگی سے نجات دلوائے گا۔ گھوڑے والا شہزادہ، تلوار والا شہزادہ۔

ہمارے بزرگ بھی تو بس اتنا ہی مانگتے ہیں کہ کوئی جی دار آئے جس کے ایک ہاتھ میں ڈنڈا ہو اور دوسرے میں کیلکیولیٹر، جو ہمارے خزانے بھی بھر دے اور ہمارے کس بل بھی نکال دے۔

بزرگ اپنے اپنے خادم کو اشارہ کرتے ہیں اور اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں۔ میں بچے سے پوچھتا ہوں کہ درخت پر چڑھو گے، وہ خوش ہو کر کہتا ہے کہ ابھی چڑھوں گا۔ میں اسے اٹھا کر جہاں تک ہاتھ پہنچتے ہیں کسی بلند شاخ کر بٹھا دیتا ہوں۔ وہ وہاں بیٹھ کر مجھ سے پوچھتا ہے کیا میں دنیا میں سب سے اونچا ہوں؟

میں کہتا ہوں، ہاں بچے تم سب سے اونچے ہو۔

تھوڑی دیر بعد وہ بور ہو کر پوچھتا ہے لیکن اب میں نیچے کیسے اتروں گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).