اب ضرورت سخت مگر غیر مقبول فیصلوں کی ہے


ملکی معیشت کو سنوارنے کے اپنے تئیں تمام نسخوں سے مالا مال ”حکمائ“ جنہیں آج کے دور میں ٹیکنوکریٹس کہا جاتا ہے، اس حکومت کا حصہ بننے کو مرے چلے جا رہے ہیں جو ” کم از کم تین برس تک“ کام کرے اور پاکستان کو ”جاہل و بدعنوان“ سیاستدانوں سے محفوظ رکھتے ہوئے فیلڈ مارشل ایوب خان کے ”دس سالہ سنہری دور“ میں واپس لے جائے۔ قومی معیشت کے غم میں مبتلا یہ دونمبری ”ماہرین معیشت“ دانشوارانہ اعتبار سے بدعنوان ہیں۔ سارتر جیسے باضمیر لکھاریوں نے ایسے لوگوں کو ”Bad Faith“کے مرض میں مبتلا بتایا تھا۔ ان کا Bad Faithانہیں کبھی یہ اعتراف ہی کرنے نہیں دیتا کہ ایوب خان کے زمانے میں ہماری معیشت بہت شاندار نظر آئی تو بنیادی وجہ اس کی وہ صنعتی اور زرعی ”انقلاب“ تھا جو سرد جنگ کا حصہ بننے کے بعد پاکستان نے US Aidکے بھیجے ماہرین کی بدولت برپا کیا۔

اس ”انقلاب“ کو مگر 1965کی جنگ نے شدید زک پہنچائی۔ امریکی امداد بند ہوئی تو پاکستان میں چینی کی قلت پیدا ہوگئی۔ امیر اور غریب کے مابین تقسیم بھی خوفناک حدوں کو چھوتی نظر آئی۔ اسی زمانے میں ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم جیسے ماہر معیشت نے ایک طویل تحقیق کے بعد دریافت یہ بھی کیا کہ محض 22 خاندانوں نے پاکستان کی معیشت پر قبضہ جما لیا ہے ہر نوعیت کے کارخانے ان خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ بینک اور انشورنس کمپنیاں بھی ان ہی کی اجارہ داری میں کام کررہی ہیں اور سب سے خوفناک بات یہ بھی کہ ”دس سالہ سنہری دور“ کی تمام تر رونقیں صرف مغربی پاکستان تک محدود ہوچکی ہیں۔ اس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں محرومی کا احساس شدید تر ہوا جس کا خوفناک نتیجہ ہم نے 1971میں بنگلہ دیش کے قیام کی صورت بھگتا۔

ہمارے دونمبر ماہرینِ معیشت آپ کو کبھی نہیں بتائیں گے کہ جنرل ضیاءالحق نے جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا تو قومی خزانہ اس وقت بھی تقریباً خالی ہوچکا تھا۔ ریاستی بندوبست چلانے کے لئے غلام اسحاق خان جیسے ”اصول پسند“ اور پالیسی سازی کے حوالے سے ”قدامت پرست“ سمجھے جانے والے سیکرٹری خزانہ نے آغا حسن عابدی کے بنائے BCCIسے رجوع کیا۔ آغا صاحب نے کپاس کی فصل کی فروخت سے متوقع زرِ مبادلہ کا ”دوستانہ تخمینہ“ لگاتے ہوئے اسے Collateral شمار کیا اور ہمیں قرض کی صورت ریاستی کاروبارچلانے کے لئے کچھ رقوم فراہم کردیں۔

جولائی 1977سے 1981 تک کے ٹھوس اعداد و شمار یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ وہ برس ہماری معیشت کے لئے کتنے کٹھن تھے۔ ہمارے ملک میں اس کے باوجود رونق لگی رہی تو وجہ اس کی بنیادی یہ تھی کہ عرب اور خلیجی ممالک میں گئے مزدوروں نے اپنے خاندانوں کی کفالت کے لئے جو رقوم جمع کیں وہ پاکستان میں پراپرٹی کے دھندے میں خرچ ہوئیں۔ ہمارے شہروں کے نواح میں رہائشی کالونیوں کی تعمیر شروع ہوگئی اور اس کی وجہ سے تعمیرات کے شعبے میں روزگار کو بے تحاشہ فروغ ملا۔

پاکستانی ریاست کے خزانے میں ”رونق“ مگر اسی وقت نظر آنا شروع ہوئی جب امریکی صدر ریگن کی حکومت نے ”افغان جہاد“ میں بھرپور حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ سعودی عرب کی جانب سے انتظام یہ بھی ہوا کہ وہ اپنے خزانے سے پاکستان کو اتنی ہی رقوم فراہم کرے گا جو مجموعی طور پر واشنگٹن سے فراہم کی جائیں گی۔ 1988کے آنے تک مگر سوویت یونین افغانستان خالی کرچکا تھا اور یہ وہی سال ہے جب ضیاءالحق کے چہیتے ”ماہرِ معیشت“ ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم پاکستان کا IMFکے ساتھ ایک تین سالہ سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔

جنرل ضیاءکی فضائی حادثے میں وفات کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو وہ اس معاہدے کی پاسداری پر مجبور ہوئیں۔ اس پاس داری کو یقینی بنانے کے لئے وزارتِ خزانہ کے ایک اہم ترین افسر وی۔ اے۔ جعفری کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد محترمہ کا مشیر بنوایا گیا تھا۔ IMFکے ساتھ معاہد ے کی پاسداری بھی لیکن محترمہ کے کام نہیں آئی کیونکہ 1989 میں امریکی صدر بش نے اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا تھا کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کو ”فوجی صورت“ دینے کی کوششیں نہیں کر رہا ہے۔ اس سرٹیفکیٹ کی عدم موجودگی کی بدولت ہم امریکی Sanctionsکا شکار ہوئے محترمہ کو ”کرپشن“ کے الزامات لگاکر گھر بھیج دیا گیا۔ بنیادی وجہ مگر وہ معاشی بحران تھا جو امریکہ کی جانب سے ہمارے ایٹمی پروگرام پر لگائی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا۔

محترمہ کے بعد نواز شریف کی پہلی حکومت نے معیشت کو سرکاری ضوابط سے آزاد کروا کر چلانے کی کوشش کی۔ تارکینِ وطن کی جانب سے بھیجی رقوم کو ہنڈی کی بجائے بینکوں کے ذریعے جمع کروانے کا بندوبست ہوا تو ہمارے بینکوں میں بے تحاشہ رقوم جمع ہونا شروع ہوگئیں۔ 1992میں مگر امریکہ نے اعلان کردیا کہ پاکستان نہ صرف اپنے ایٹمی پروگرام کو ”فوجی“ بنائے چلاجارہا ہے بلکہ اس نے ”ہمسایہ ممالک“ میں ”دہشت گردی“ بھی پھیلانا شروع کردی ہے۔ معاشی بحران اور امریکی امداد پر مزید پابندیوں کے خوف سے نواز حکومت کو بھی گھر بھیجنا پڑا۔

پابندیوں کی یہ کہانی محترمہ کے دوسرے دور میں پاکستان کے میزائل پروگرام اور طالبان کی نموداری کی بدولت دہرائی گئی۔ وہ فارغ ہوئیں تونواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں ایٹمی دھماکہ کردیا۔ جنرل مشرف کے نمودار ہونے تک پاکستان دنیا کا Most Sanctionedملک کہلاتا تھا۔ 1999سے 2001تک کے اعدادوشمار ہماری معیشت کی تباہ حالی کے ٹھوس ثبوت فراہم کرتے ہیں مگر پھر نائن الیون ہوگیا۔ امریکہ کو افغانستان کے حوالے سے ایک بار پھر پاکستان یاد آگیا۔ ہم یاد آئے تو اس ملک میں ڈالر بھی آنا شروع ہوگئے۔ رونق لگ گئی۔ اس رونق کے پیچھے شوکت عزیز جیسے ”معجزہ فروش“ ماہرین معیشت کا کوئی حصہ نہ تھا۔ نہ ہی ڈاکٹر عشرت حسین جیسے ”مفکروں“ کی ذہانت نے اس میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔

امریکہ کو ایک بار پھر افغانستان ہی کے حوالے سے پاکستان کی یاد ستارہی ہے۔ ہم مگر اس کی ترجیحات کے مطابق Deliverکرنے کو تیار نہیں ہیں۔ موجودہ ہیجان اور بحران لہذا آنے والے کافی دنوں تک جاری رہے گا۔ اس سے نجات کی صرف ایک صورت ہے کہ ہماری اشرافیہ ایک دوسرے پر الزامات لگاکر ”اپنی جند“ چھڑانے کی بجائے مل بیٹھ کر کچھ سخت مگر غیر مقبول فیصلے کرے اور ملک کو بچانے اور آگے بڑھانے کا بندوبست کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).