پارلیمانوں کی ماں اور دستوروں کا باپ


اپنے ایک اعترافی بیان سے ہم کبھی نہیں مکرے۔ آپ بھی سن لیں، اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں کہ ہم اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران ہونہار طلبہ میں سے تھے اور اس سے بڑا سچ کوئی نہیں کہ ملک میں رائج ناقص نظام تعلیم کی بدولت ہم نے ماسٹرز اور لا کی ڈگریوں کی پر بھی ہاتھ صاف کر لیے۔ اپنے موقف کے حق میں ہمارے پاس ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ اگر طالب علم برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں ”ہائوس آف کامنز‘‘ کا اردو ترجمہ دارالعوام کی بجائے متعدد پرچوں میں ”دارالعلوم‘‘ لکھ کر بھی ایم اے سیاسیات کا امتحان پاس کر لے تو پھر طالب علم کی قابلیت اور نظام تعلیم کی فعالیت پر مزید کسی تبصرے کی گنجائش نہیں رہتی۔

سیاسیات اور قانون کے طالب علم کی حیثیت سے ہم نے ماضی قریب میں دنیا کے ہر بڑے ملک کے آئین کو رٹا لگایا۔ آپ خود اپنے تجربے کی بدولت آگاہ ہیں کہ رٹا لگانے سے امتحان تو پاس ہو جاتا ہے مگر اس کے بعد ذہن ملکی خزانے کی طرح خالی ہو جاتا ہے۔ تاہم گھوٹ گھوٹ کر رٹا لگانے سے دماغ میں اتنا سبق ضرور باقی رہ جاتا ہے، جتنی دولت دنیا بھر میں در در کشکول گردی اور منی بجٹ وغیرہ سے خزانے میں جمع ہو جاتی ہے۔ ایسے میں ہم ایسے طالب علموں کی معلومات اور ملکی معیشت‘ بیک وقت لاغر قرار پاتی ہیں مگر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں انہیں توانا ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا عاجزانہ موقف یہ ہے کہ خزانہ تو خزانہ ہوتا ہے، چاہے خالی ہو یا بھرا ہوا اور ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، چاہے رٹا لگا کر حاصل کی جائے یا جعلی بنوا لی جائے۔

رٹا ہذا کے طفیل آئین کے متعلق جو خشک سی باقیات آج ہمارے ذہن میں موجود ہیں، ان کے مطابق جمہوریت کی دو بڑی اقسام صدارتی طرزِ حکومت اور پارلیمانی طرزِ حکومت میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اول الذکر طرزِ حکومت میں غیر لچکدار جبکہ ثانی الذکر میں لچکدار آئین کار فرما ہوتا ہے۔ غیر لچکدار آئین میں ترمیم کا طریقہ کار مشکل اور لچکدار آئین میں آسان ہوتا ہے۔ اسی بنا پر سیاسیات کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ صدارتی طرزِ حکومت میں آئین جبکہ پارلیمانی طرزِ حکومت میں پارلیمنٹ کو بالا دستی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا میں بہترین صدارتی جمہوریت امریکہ‘ اور بہترین پارلیمانی جمہوریت برطانیہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ برطانوی پارلیمان کو بے پناہ اختیارات کی وجہ سے ”پارلیمانوں کی ماں‘‘ بھی کہا جاتا ہے، جس کی بڑی وجہ شہرت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مرد کو عورت اور عورت کو مرد نہیں بنا سکتی‘ باقی سب کچھ کر سکتی ہے۔ یہ تو خیر کتابی اور رٹا جاتی باتیں ہیں۔ عملی زندگی میں آ کر ہم حیران ہیں کہ ہماری بے پناہ اختیارات کی حامل پارلیمنٹ کی موجودگی میں برطانوی ادارے کو پارلیمانوں کی ماں کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ چلیں مان لیتے ہیں، لیکن دنیا میں کم از کم اتنا انصاف تو ہونا چاہیے کہ یا تو ہمارے دستور سے زیادہ لچکدار کوئی آئین دکھایا جائے یا پھر ہمارے آئین کو دنیا بھر کے دستوروں کا باپ مان لیا جائے۔ اس خواہش کے پیچھے مقصد یہ کارفرما ہے کہ کرۂ ارض کے کسی آئین یا پارلیمان کو لاوارث نہیں ہونا چاہیے، ان کے ماں باپ ضروری ہیں۔

رٹی ہوئی پچھلی تاریخ تو ہمارے ذہن سے پرواز کر گئی ہے البتہ یہ ہمیں یاد ہے کہ وطن عزیز کے 1973ء کے آئین میں پارلیمانی طرزِ حکومت ہی اپنایا گیا تھا۔ برطانوی پارلیمانی جمہوریت کی مبینہ برتری کے پیچھے اغیار کا تعصب کار فرما ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ 1973ء کا ہمارا آئین ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ لچکدار اور پارلیمان خود مختار ہے۔ مغربی جمہوریت میں آئین میں تبدیلی کے لیے بہرحال ممبران پارلیمنٹ کی اکثریت درکار ہوتی ہے‘ جبکہ ہمارا آئین اس قدر لچکدار ہے کہ فردِ واحد بھی بیک جنبش قلم اس کا تیاپانچہ کر سکتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1977ء میں ایک مردِ مومن نے اس دستور اور جمہوریت کے ساتھ یہی کچھ کیا تھا۔ مردِ حق نے آئین کی لچکداری کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اسے دوہرا، چوہرا کرکے گیارہ برس تک ناقوسِ حکمرانی بجایا۔ اس نے آئین میں تبدیلیاں کرکے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کرائے اور پارلیمانی و عسکری جمہوریت کا حسین امتزاج پیش کیا۔ پارلیمانی جمہوریت میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت حکومت بناتی ہے جبکہ اس صاحبِ کشف بزرگ نے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے پہلے پارلیمنٹ قائم کی اور بعد میں اکثریتی جماعت بنانے کا معجزہ کر دکھایا۔ مردِ مومن نے لچکدار آئین میں آرٹیکل 62,63 کا دخول فرمایا اور ہر زاویے سے ان دفعات پر پورا اترنے والے ممبران پارلیمنٹ اکثریتی جماعت میں جوق در جوق شامل ہوتے گئے۔ خود مختار و خودکار پارلیمان نے اس کی گلکاریوں کو آٹھویں ترمیم کی صورت منظور کرکے انہیں مزید آئینی بنا دیا۔ مردِ مومن نے تو قوم کو واشگاف الفاظ میں یہ بھی بتا دیا تھا کہ تمہارے منتخب نمائندوں کا منظور کردہ آئین محض کاغذ کا ٹکڑا ہے، جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ تاہم اس عبادت گزار نے اپنی روایتی حلیمی کی بدولت ایسا نہ کیا۔

لچکداری ہٰذا کی ایک اور روشن مثال 1999ء میں سامنے آئی، جب ایک روشن خیال سپہ سالار نے لچکدار آئین کو بالجبر تبدیل کیا۔ آزاد اور بااختیار عدلیہ نے نظریۂ ضرورت کی افادیت تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف اس کی حرکت جائز قرار دی بلکہ اسے دستور کو استوار کرنے کا اختیار بھی مرحمت فرمایا۔ عظیم سپہ سالار نے اس اختیار کے تحت آئین کو مشرف بہ مشرف کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس نے قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ایک دفعہ پھر عسکری جمہوریت کا نسخۂ کیمیا تجویز کیا۔ منتخب پارلیمان نے اپنے لامحدود اختیارات کے تحت ان اقدامات کو سترہویں ترمیم کی شکل میں کامل آئینی بنا دیا۔ ہر دو بزرگان نے عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کردہ آئین کی متعدد دفعات کو تبدیل کیا، مگر لچکدار آئین نے انہیں اپنے آرٹیکل چھ کا مجرم ہونے کے باوجود کچھ نہ کہا۔ لچکدار آئین میں 58-2B کا دخول بھی کیا گیا، جس سے فردِ واحد کو اختیار مل گیا کہ وہ جب چاہے عوام کے مینڈیٹ کو جوتے مار کر گھر بھیج دے۔

1985ء کی غیر جماعتی سیاست میں جہاں وفاداریوں کی خرید و فروخت اور کرپشن جیسی روایاتِ جلیلہ قائم کی گئیں، وہاں 1988ء میں ایک اور تابندہ روایت کی داغ بیل بھی ڈالی گئی کہ کسی منتخب حکومت کو دو اڑھائی سال سے زیادہ پرفارم کرنے کا موقع نہ دیا جائے تاکہ جمہوریت شتر بے مہار نہ ہونے پائے اور کرپٹ عوامی نمائندے اوقات میں رہیں۔ اگرچہ گزشتہ پارلیمان نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے 73ء کے آئین کو کسی حد تک اپنی اصلی حالت میں لانے کی سعی کی تاہم اس کی لچکداری میں آج بھی کوئی شبہ نہیں۔ بے شک دنیا کے جمہوری ممالک نے آئین کے مطابق ووٹ کی پرچی کے ذریعے اپنے نمائندوں کو احتساب کی چھلنی سے گزار کر مضبوط نظام اور ترقی کی منازل طے کی ہیں، لیکن ہمارے چارہ گر ایسے لانگ ٹرم منصوبوں کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور لچکدار آئین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک دفعہ پھر کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں ہیں۔ آئین کی مایہ ناز لچکداری کے طفیل بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے کہ بنام صدارتی نظام یا بہ حیلہ ٹیکنوکریٹس حکومت، تبدیلی کی جو بھی صورت بنے گی، اسے بآسانی ”آئینی تبدیلی‘‘ میں ڈھال لیا جائے گا۔

یہ آئین کی لچکداری، پارلیمان کی بالا دستی کی ایسی درخشندہ مثالیں ہیں‘ جن کا مغربی جمہوریت کے محدود اور لگے بندھے نظام میں تصور بھی محال ہے۔ ہمارا رٹا جاتی علم حیران ہے کہ اس کے باوجود برطانوی پارلیمان کو پارلیمانوں کی ماں کیوں کہا جاتا ہے؟ حالانکہ میرٹ پر ہماری پارلیمان سب کی ماں اور آئین تمام دستوروں کا باپ قرار دیا جانا چاہیے۔ کیا برطانوی پارلیمنٹ کسی آمر کی طرف سے عوامی حقوق سے کھلواڑ اور عوامی مینڈیٹ کو فٹبال بنا لینے جیسے اقدامات کو آئینی ترامیم کے ذریعے خلعت جواز عطا کرنے کا کوہِ ہمالیہ جتنا حوصلہ رکھتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).