ننھے منے خواب


\"naseerہمیں خواب دیکھنے کی بہت عادت ہے۔ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے یہاں تک کہ چلتے پھرتے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ ہمارے اکثر خواب ہماری طرح سادہ سے ہوتے ہیں۔ جن کی تفہیم و تعبیر کے لیے نہ آگسٹائن نہ کارل یونگ نہ فرائڈ نہ لاکاں کو پڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ کسی ایڈی پس یا الیکٹرا کامپلیکس کو سمجھنے کی۔ نہ ڈیلفی کی دیوی کی نہ کسی اور سروشِ غیبی کی۔ آج علیٰ الصباح ابھی ہم خوابِ غفلت میں تھے کہ ہمارے ہفت سِن نواسے فوزان نے آ کر یکلخت جگا دیا۔ نانا ابو میں نے عجیب خواب دیکھا ہے۔ ہم متجسس ہوئے کہ اس ننھی سی جان نے ابھی سے خواب دیکھنے شروع کر دیے ہیں، آگے چل کر کیا ہو گا۔ نانا ابو سنیں بھی اس نے ہاتھ سے ہماری آنکھوں کے پپوٹے کھولتے ہوئے کہا۔ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ پہاڑ آئس کریم کے بنے ہوئے ہیں، زمین چاکلیٹ کی، درختوں پر پتوں کے بجائے کینڈیز لگی ہوئی ہیں اور سمندر جُوس سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہم فوراً ہی اس خواب کی تعبیر سمجھ گئے اور وعدہ کیا کہ شام کو اسے قریبی مارکیٹ ضرور لے کر جائیں گے۔ یہ سنتے ہی وہ خوشی سے تالیاں بجانے لگا میرا خواب سچا ہو گیا۔ نانا ابو کیا آپ بھی اس طرح کے سچے خواب دیکھتے ہیں۔ ہم نے کہا ہاں بیٹا سچے خواب دیکھ دیکھ کر ہی ہماری یہ حالت ہوئی ہے کہ اب نیند میں بھی ہاتھ پاؤں چلتے رہتے ہیں۔

فوزان کی طرح ہمارے خواب بھی چھوٹے چھوٹے ہیں۔ کیونکہ بوڑھے بھی طفل مزاج ہوتے ہیں۔ ہم تو ویسے بھی اندر سے بچے ہیں، باہر سے بھلے سینئر سیٹزن لگتے ہیں۔ ہمارے دوست بھی ہمیں بچہ سمجھ کر رنگ برنگی گولیاں دیتے رہتے ہیں اور ہم  سب کچھ جانتے ہوئے بھی طفلِ دبستاں بن جاتے ہیں تا کہ ان کی دوستانہ طفولت کا بھرم قائم رہے۔ خیر بات خوابوں کی تھی۔ ایک بار ہم نے خواب میں دیکھا کہ ہماری گاڑی اچانک عین سڑک کے بیچ بند ہو گئی ہے ۔ فوراً ہی ایک پولیس والا آ جاتا ہے اور کہتا ہے سر مَیں دھکا لگاتا ہوں آپ گاڑی کو ایک طرف کھڑا کر لیجیے۔ ہم بہت حیران اور خوش ہوتے ہیں اور گاڑی ایک طرف کرنے کے لیے اسٹیئرنگ موڑتے ہیں تو اچانک احساس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاتھ گاڑی کی ڈگی پر اور پاؤں سڑک پر ہیں۔ آنکھیں ملنے پر پتا چلتا ہے کہ ہم خود ہی گاڑی کو دھکا لگا رہے ہیں اور پولیس والا سامنے کھڑا ہمیں گھور رہا ہے۔ ایک اور ننھے منے خواب میں ہم نے بقالہ سے کچھ سامانِ خور و نوش خریدا۔ جب دکاندار نے ہمیں بقایا پانچ روپے کا سکہ واپس کیا تو حیرانی ہوئی کہ ہم نے تو کب کا سکوں کو جیب نکالا دے دیا ہے۔ بینکوں، دکانوں، ٹول پلازوں میں سکے لینا یا وصول کرنا خلافِ شان \”جرم\” ہے۔ جب بقالے سے باہر آ کر قدرتی روشنی میں آنکھ کھلی تو دیکھا سکہ چیونگم میں تبدیل ہو چکا تھا۔ حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ ایک سے پانچ تک سکوں کے برابر بچنے والی رقم واپس نہ کرنے پر یا اس کے بدلے میں ایک چیونگم یا ٹافی پکڑا دینے پر کروڑوں کا نفع کمایا جا رہا ہے۔ ایک خوابِ خُرد نے افراطِ زر کی پوری معیشت اور ثقافت سمجھا دی۔

یوں تو خوابوں کے بہت سے فوائد ہیں، لیکن سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ خواب میں آپ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو اصل زندگی میں کرنا کیا سوچنا بھی ممکن نہیں۔ خواب میں آپ صدر مملکت سے مصافحہ کر سکتے ہیں اور اگر زیادہ بے تکلفی ہو تو معانقہ بھی۔ وزیراعظم سے گلے مل سکتے ہیں اور چاہیں تو ان کے پیٹ میں گدگدی بھی کر سکتے ہیں،گپ شپ کر تے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہہ لگا سکتے ہیں۔ ایک بار ہم قریبی سپر مارکیٹ گئے تو دیکھا نواز شریف مارکیٹ کے دروازے میں کھڑے ہیں۔ ہم بڑے خوش ہوئے کہ ہمارے وزیرآعظم بھی خود شاپنگ کرنے آتے ہیں۔ ہم نے سوچا چلو ہاتھ ہی ملا لیتے ہیں اور کچھ بچگانہ سوالات بھی پوچھ لیتے ہیں جو ہمارے طفلانہ ذہن میں خوامخواہ اچھلتے کودتے رہتے ہیں۔ مثلاً کہ وہ کھابے کھانے کے شوقین کیوں ہیں؟ موقع محل بھی نہیں دیکھتے، سانحہ پشاور پہ آل پارٹیز میٹنگ ہو یا کراچی کے حالات پہ بریفنگ انہیں کھانے کی پڑی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ ترکی زلزلہ افتادگان کے لیے اظہار افسوس کرنے گئے ہوں تو وہاں بھی ہوائی جہاز سے اترتے ہی ترکی کباب کھانے کی خواہش کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انہی بچگانہ سوالوں میں گم دستِ صغیر آگے بڑھایا تو کہنے لگے سر جی آج اکیلے آئے ہیں بیگم صاحبہ ساتھ نہیں۔ آواز کچھ جانی پہچانی سی لگی۔ آنکھیں مل کر غور سے دیکھا تو وزیر اعظم کی جگہ مارکیٹ کا گارڈ ہمارا ہاتھ پکڑے بلکہ جکڑے مسکرا رہا تھا۔

ایک دفعہ ہم پیدل کہیں جا رہے تھے۔ دیکھا تو پنجاب کےخادم وزیر اعلیٰ سائیکل چلاتے ہوئے پاس سے گزر رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر  کہنے لگے آئیے پیچھے کیریئر پر بیٹھ جائیے۔ ہم نے پوچھا سر آج آپ سائیکل پر کیسے۔ فرمایا ڈرائیور کی بیوی بیمار تھی اور وہ چھٹی پر چلا گیا ۔ ہم سے گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوئی تو سوچا سائیکل پر ہی ڈینگی مار مہم پہ چلتے ہیں یا کسی ہسپتال میں اچانک چھاپہ مارتے ہیں، پٹرول کی بچت بھی ہو گی ورزش بھی ہو جائے گی اور عوام کی خدمت بھی۔ ہم نے پوچھا کہ آپ پرائیویٹ شعبے کو ساتھ ملا کر ہیلتھ انشورنس اسکیم کیوں نہیں شروع کرواتے۔ اس پر تو حکومت کا کچھ خرچ نہیں ہونا۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کو پابند کیجیے کہ نائب قاصد سے لے کر اعلیٰ ترین عہدے کے افسران تک کی یکساں ہیلتھ انشورنس کروائیں چاہے ان کی تنخواہوں سے پریمیم ادا ہو تاکہ سب کو بہترین مساوی علاج معالجے کی سہولت میسر ہو۔ آپ کو اسپتالوں پر چھاپے مارنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ابھی وہ جواب دینے ہی لگے تھے کہ ایک رکشے کی ٹکر سے ہمارا انجر پنجر ہل گیا اور آنکھوں کے آگے ترمرے ناچنے لگے۔ شکر ہے خواب کے غلبے میں ہم رکشے کے نیچے نہیں آ گئے۔ اگلے روز ہم ویگن میں سفر کر رہے تھے۔ ایک اسٹاپ پر عمران خان ہمارے ساتھ والی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئے۔ ہم نے پوچھا خان صاحب آپ یہاں کہاں یہ تو پبلک ٹرانسپورٹ ہے۔ آپ کو تو کنٹینر پہ ہونا چاہیئے تھا یا کم از کم میٹرو میں بیٹھ جاتے۔ فرمانے لگے آپ کو نہیں پتا تبدیلی آ چکی ہے۔ میں چھپ کر دوسری جماعتوں سے اتحاد، اوہ خو اتحاد نہیں مفاہمت، نہیں مفاہمت بھی نہیں وہ تو پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان ہے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے جا رہا ہوں۔ بلٹ پروف گاڑی پیچھے پورے پروٹوکول کے ساتھ  آ رہی ہے لیکن کسی کو بتانا نہیں۔ اور آپ میٹرو کا نام نہ لیں میرے سامنے ورنہ میں ابھی ویگن رکوا کر آپ کے خلاف دھرنا دے دوں گا۔

کچھ روز پہلے تو حد ہی ہو گئی۔ ہم سنیما میں فوزان کے ساتھ تھری ڈی فلم جریسک ورلڈ دیکھنے گئے۔ بڑا رش تھا۔ دیکھا کہ ہمارے پیچھے زرداری صاحب بھی قطار میں لگ گئے ہیں۔ ہمیں یقین ہی نہیں آیا، لاکھ خاموش رہنے کی کوشش کی لیکن پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ جناب آپ کا وطنِ عزیز تو دبئی ہے، گھر گرہست بھی وہیں، علاج معالجہ یورپ اور امریکہ، پاکستان کیسے آنا ہوا اور آتے ہی \”بلاول ہاؤس\” کے بجائے یہاں \”سنیما ہاؤس\” کیوں؟ ننھے منے بلاول کو وزیر اعظم اور خود کو پھر سے صدر بننے کے خواب تو نہیں دیکھنے لگے؟ آہ بھر کر کہنے لگے پرانا زمانہ یاد آ گیا ہے، احتساب کے خوف نے ناسٹیلجیا کو زندہ کر دیا ہے۔ کیا اچھے دن تھے جب ہم سنیماؤں پر راج کرتے تھے، عوام کی سہولت اور انہیں قطار کی زحمت سے بچانے کے لیے ٹکٹیں بلیک کرتے تھے، تھڑوں پہ بیٹھ کر یاروں سے گپیں اور سوٹے لگاتے تھے۔ جو مزا بلیک کی وائٹ مَنی یعنی محنت کی کمائی میں تھا وہ کچھ کیے بغیرکروڑوں اربوں کی تھری ڈی کرپشن میں کہاں! اس سے پہلے کہ ہم مذید کچھ پوچھتے ہماری باری آ گئی مگر عین اسی وقت ٹکٹوں والی کھڑکی پر ہاؤس فل کا بورڈ لگ گیا۔ ہمیں فوراً زرداری صاحب کی خدمت حاصل کرنے کا خیال آیا کہ ممکن ہے یہاں بھی انہوں نے مفاحمتی ساز باز کر کے دھندے کا بندوبست کر لیا ہو۔ لیکن پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ غائب تھے اور ہم بیڈ پر لیٹے لیٹے کمرے کی کھڑکی کی طرف ہاتھ بڑھا رہے تھے۔ فوزان بڑوں کی طرح پاس کھڑا ہمیں یوں تشویش ناک نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے ہم نے خواب میں الطاف حسین کو دیکھ لیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments