قصور ہمیشہ عورت ہی کا نکلتا ہے


ایک ننگی کریہہ حقیقت ہے، ایک تھپڑ ہے اگر زور سے لگے تو مردانہ اختیار رکھتے ہوئے کاغذ پر گالی دے دیجیے، کاغذ پر گالی بہت دور تک جا تی ہے اس کی گونج خاموشی سے طول و عرض میں پھیل جا تی ہے۔ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے جتنی تکلیف پہنچی ہے کسی سے نہیں پہنچی۔ عالموں نے جتنا ایذا ایک دوسرے کو پہنچایا ہے کسی اور کو نہیں پہنچایا، سچ ہے عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ یہ بھی حق ہے کہ غریب ہی غریب کی روٹی چھینتا ہے۔ مظلوم ہی مظلوم کا ساتھ دینے کے بجا ئے ظالم کا ساتھ دے کر اپنا بچا ؤ کرتا ہے۔ کبھی آدمی کے ہاتھوں آدمی کی تذلیل دیکھنی ہو تو کرا چی کی پبلک بسوں میں سفر کیجیے۔ آپ ٹیچر ہیں یا ڈاکٹر، کنڈیکٹر کی نظروں میں صرف ایک مسافر ہیں آپ کو چلتی بس میں بھا گتے ہو ئے چڑھنا ہے اور چلتی بس میں ہی اترنا ہے دیر کی تو اپنی ماں بہن کی عزت و تکریم کنڈکٹر کی زبانی سن لیجیے۔ بات یہیں تک نہیں یہ تو پھر قابلِ بر داشت ہے، ناقابلِ برداشت کو بھی کیسے ذہر کی طرح نگلا جا تا ہے، یہ بس میں سفر کیے بغیر معلوم نہیں ہو سکتا۔ آپ میں سے اکثر مرد خواتین کے ساتھ ہونے والے مردوں کے ناروا سلوک کو عورت کی بے پردگی سے جو ڑ دیتے ہیں، تو ایک دن کے لیے آپ برقعہ پہن لیجیے، اور کچھ ذہنی کنگالوں کی حرکتوں کو دیکھ کے شاید آپ اس ازیت کو محسوس کر سکیں جو ایک بے پر دہ یا با پر دہ عورت محسوس کرتی ہے۔

کراچی کی بسوں میں اب پارٹیشن لگا دیا گیا ہے ہے لیکن بس کے کھچا کھچ بھری ہو نے کے باعث مرد زنانہ پورشن میں بھی آجاتے ہیں اور خواتین کے ساتھ چپک کر کھڑے ہو کر د انشوروں کے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ عورت مرد کے شانہ بہ شانہ کھڑی زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ عورت سمٹ کر جلدی سے آگے کی طرف دیکھتی ہے تو ڈرائیور کی چبھتی ہوئی نظریں اس کی نظروں کو زخمی کر نے کے لیے کافی ہیں۔ ان میں سے کچھ بے چارے مردانہ کمزوری میں مبتلا ذرا سی بریک لگنے پر اپنا توازن کھو کر کسی خاتون کا سہارا لینے پر مجبور ہو جا تے ہیں۔

اسی دوران کسی غریب عورت نے اگر ڈرائیور سے کہہ دیا کہ بس روکو مجھے اترنا ہے تو نازک مزاج ڈرائیور فوراً ایک دھاڑ مار کر کہے گا کہ پچھلے اسٹاپ پر کیوں نہیں رکی، اور اگر وہ کہے کہ اسٹاپ سے تو تم نے بھی نہیں چڑھا یا تھا تب وہ اچانک بریک لگا دے گا غریب عورت کنڈکٹر پر، کسی بے پردہ عورت نے مرد کی زبان کو لگام دینے کے لیے کہا تو وہ اس کی بے پردگی کو اس کی بے حیائی سے جوڑتے ہوئے کھری کھری سنا دے گا۔ وہ عورت بے بسی سے بس میں بیٹھے ہو ئے تمام مردوں کو تائید طلب نظروں سے دیکھے گی، مردوں کی نظروں میں تمسخر، طنز نظر آئے گا جو کہہ رہے ہوں گے۔ روزی کمانے کے لیے نکلی ہو اسے بھی نو کری کا حصہ سمجھو گھر سے پہلا قدم نکالتے ہی تمہا ری ڈیوٹی شروع ہو جا تی ہے۔

ایک بار بس میں سفر کے دوران میں ایک با پردہ خاتون کے برابر میں بیٹھی تھی وہ خاتو ن کھڑ کی کی سائڈ والی سیٹ پر بیٹھی تھی، وہ بار بار بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی۔ مجھے کہنے لگی سائڈ سے ایک ہاتھ میرے بدن کو چھو رہا ہے۔ میں نے کہا تم بولتی کیوں نہیں۔ کہنے لگی میرے میاں ساتھ ہیں وہ بہت غصیلے ہیں اسے جان سے ہی مار دیں گے۔ میں نے اسے کھڑ ا ہو نے کے لیے کہا اور کھسک کر اس کی سیٹ پر آگئی۔ اور اسے اپنی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ میں موقع کے انتظار میں تھی جیسے ہی مجھے اس کا ہاتھ محسوس ہوا میں نے اس کی انگلیا ں سختی سے پکڑ لیں میں نے اسے خوب کھری کھری سنائیں۔ ڈرائیور نے گاڑی روک دی بولا بی بی بے پردہ ہو گی تو ایسا ہی ہو گا، اسلام نے جب ہی تو پردے کا حکم دیا ہے۔ میں نے کہا تم صرف عورت دیکھتے ہو۔ اپنی عقل سے پردہ ہٹاؤ۔ کنڈکٹر نے اپنے استاد کے بچاؤ کے لیے عورتوں کو دھکیلتا میری طرف بڑھا اور بولا تم مسلمان ہو کہ نہیں، میں نے کہا میں تم سے زیادہ مسلمان ہوں۔ بس کے اندر سے مجھے ایک آواز آئی او بھا ئی بس چلا کیوں ٹر ٹر سن رہا ہے اس کی۔ میں نے بس میں سارے مردوں کو باری باری باری دیکھا شاید کوئی میری حمایت میں بولے مگر شاید سب کو اپنی منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی، اور اس پردہ دار عورت کے غصیلے میاں کو بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).