ہمارے معاشرے میں جنسی ہراس اور اس سے بچاؤ


ثمن جب پانچ سال کی تھی تب پہلی مرتبہ اسے جنسی ہراس کا سامنا کرنا پڑا، بچپن اور نا پختگی تھی کہ اسے یہ بھی سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہورہا ہے، وہ تو اس کا رشتے کا ماموں تھا۔ اسی لئے والدین کو بتاتے ہوئے ڈر لگا کہ کہیں ڈانٹ نہ پڑے، پھر اس کے دل میں ایسا خوف بیٹھا کہ اس خوف کی پرچھائی آج بھی پیچھا کرتی ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والی ہر خاتون کو زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی ہراس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گھر سے باہر جاتے ہوئے، دفتر میں کام کرتے ہوئے یا پھر اپنے خاندان میں ہی۔ ناگواریت کا احساس ساری زندگی پر خوف کی پرچھائی چھوڑ جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ جنسی ہراس کیا ہے، جنسی ہراس کا مطلب ہرگز ریپ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب کسی کی جانب سے کہی گئی کوئی بھی ایسی بات، احساس، جنسی خواہش کا اظہار جو آپ پر ناگوار اثر چھوڑے جنسی ہراس میں شمار ہوتا ہے۔ پھر وہ کسی خاتون کو گھورنا ہو یا پھر دفاتر یا کہیں بھی کسی بہانے سے کسی خاتون کو چھونے کی کوشش کرنا ہو۔ یعنی کسی کی مرضی کے بغیر اٹھایا گیا کوئی بھی قدم جنسی ہراس کے زمرے میں آتا ہے۔

پاکستان میں جنسی ہراس کے بارے میں بات نہیں کی جاتی، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2004سے 2016 میں جنسی ہراسگی کے صرف چار ہزار سات سو چونتیس 4734 واقعات رپورٹ ہوئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان میں جنسی ہراس کے واقعات نہیں ہوتے۔ یہ تو بھلا ہو ہالی وڈ کے سب سے بڑے جنسی اسکینڈل کا کہ جس کے بعد می ٹو کے ہیش ٹیگ نے دنیا بھر میں ہونے والے جنسی ہراس کے واقعات پر سے پردہ اٹھا دیا اور پھر معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں کتنی بڑی تعداد میں خواتین کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جنسی ہراس ایک جرم ہے اور پاکستان کے قانون میں اس کی سزا بھی موجود ہے جو کہ تین سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ شکایت کون کرے؟ کیونکہ جب بات آتی ہے شکایت کرنے کی تو لڑکیوں کو عزت کا بہانہ بنا کر چپ کرادیا جاتا ہے یا پھر اس کی بات کا یقین ہی نہیں کیا جاتا کہ بدنام کرنے کے لئے جھوٹ بول رہی ہے۔ پھر ایسے میں قوانین کا کیا فائدہ۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کئی دفعہ مرد حضرات کو بھی جنسی ہراس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جنسی ہراس کے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟ اس کا تعلق سیکس سے نہیں بلکہ اس کا تعلق مائنڈ سیٹ سے ہے یعنی طاقتور کے کمزور پر سبقت لے جانے کی خواہش۔ ہمارے معاشرے میں طاقت دکھا کر مخالف صنف کو نیچا دکھانے کے لئے ایسے جرائم کیے جاتے ہیں۔ پدر شاہی نظام میں مرد حضرات زیادہ طاقتور ہیں اور وہ اپنی طاقت دکھا کر صنف نازک کو جنسی ہراسگی کا زیادہ نشانہ بناتے ہیں۔

پاکستان کی معیشت جتنی مردوں پر منحصر کرتی ہے اتنی ہی اسے خواتین کی بھی ضرورت ہے، دفاتر میں کام کرنے والی مردوں کے شانہ بشانہ ساتھ دینے والی خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا بہت ضروری ہے لیکن ایسے واقعات اگر تواتر سے ہوتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب خواتین ڈر کر گھر بیٹھ جائیں گی اور یہ کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لئے انتہائی خطرناک بات ہے۔

جنسی ہراس سے کیسے بچا جاسکتا ہے اس کے لئے ہمیں چھوٹی بچیوں کو بھی ٹریننگ دینے کی سخت ضرورت ہے، اور یہ ٹریننگ ڈیڑھ سال کی عمر سے شروع کردینا چاہیے جیسا کہ میں نے کیا، ایک ماں ہونے کے ناطے میں نے اپنی بیٹی کو سکھایا کہ کسی کی گود میں نہ بیٹھو، کوئی منہ پر پیار نہ کرے اور اگر کبھی ایسی کوئی بات ہو تو فورا مجھے بتاؤ۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہم بہت حد تک اپنے بچوں کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ اپنے بچوں سے بات کیجیے انہیں دوست بنائیے اگر وہ کہیں جانا نہیں چاہتےیا کسی کو پسند نہیں کرتے تو ان پر زور نہ دیجیے بلکہ ان سے وجہ پوچھیے۔

اگر آپ اپنے معاشرے کی بچیوں کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اپنے بیٹوں سے بات کرنے کی ضرورت ہے اور ایسی خواتین جو جنسی ہراس کا شکار ہو چکی ہیں ان کا حوصلہ بڑھائیے، ان پر یقین کیجیے، ان سے نفرت نہ کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).