وی آر ناٹ لاس ویگاس، وی آر ناٹ مانچسٹر


اگر مرنے والوں کا تعلق پیرس سے ہوتا، لندن کی پُرفریب فضاؤں میں انہوں نے آنکھ کھولی ہوتی، نیویارک کی ٹھنڈی ہواؤں نے ان کی سانسوں کو کبھی مہکایا ہوتا، کیلیفورنیا کی سڑکوں نے ان کے قدموں کی بھی چاپ سنی ہوتی، مانچسٹر کے ریستوراں ان کے قہقہوں سے گونجے ہوتے، برسلز کے بازاروں میں انہوں نے کبھی دام لگائے ہوتے، فرانس کی خوشبوؤں نے ان کے بدن کو مہکایا ہوتا، اسکاٹ لینڈ کے قہوہ خانوں میں فارغ وقت ہی بتایا ہوتا یا کم از کم میڈرڈ کی ٹرینوں میں سفر کا ارمان ہی پورا کیا ہوتا تو آج پوری دنیا میں ان کی موت کا واویلا ہوتا، پرچم سر نگوں ہوتے، میڈیا چیخ رہا ہوتا، عوام ساکت ٹی وی کے آگے بیٹھے ہوتے، مرنے والوں کی یاد میں اخبارات میں خصوصی صفحات تیار کیے جاتے، ٹوئٹر اور فیس بک پر سانحے کی تصاویر شیئر کر کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا جاتا، ساری دنیا کے مسئلے ایک طرف کر کے شمعیں روشن کی جاتیں۔

لیکن افسوس ایسا کچھ نہ ہوا، کیوں کہ مرنے والوں کا تعلق تو موغادیشو سے نکلا۔ اس سے کیا ہوتا ہے کہ بم دھماکا انتہائی درجے کا شدید تھا جو تین سو جانوں کو پلک جھپکتے موت کے دروازے سے اندر دھکیل گیا۔ اہم بات تو یہ ہے کہ مرنے والوں کی چمڑی کالی تھی۔ اوپر سے غریب بھی اور سونے پہ سہاگہ، مسلمان بھی۔ اتنے سارے عیبوں کے بعد موغادیشو کی اہمیت ہی کیا رہ جاتی ہے؟ ارے جناب! ان کو تو عادت ہو جانی چاہیے لاشیں دفنانے کی، امن حاصل بھی ہوا تو اب انہیں راس کہاں آئے گا؟ ایک ہی بار سارے موغا دیشیوں بلکہ سارے صومالینز کو ابدی نیند کیوں نہ سلا دیا جائے، یوں ان کو فاقوں سے بھی نجات مل جائے گی اور 80کی دہائی سے جاری خانہ جنگی سے بھی! نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری!

ہاں ایک صورت ہوتی تو ان کی مدد کو آیا بھی جاتا، اگر یہاں اکثریت میں عیسائی یا یہودی ہوتے، چلیے بدھ مت کے پیروکار ہی ہوتے، تو بھی کچھ سمجھ آنے والی بات تھی! ان کالے حبشی موغادیشیوں کے لیے کون شور مچائے گا! کس کو اتنی فرصت میسر ہے؟ اور جب مسلمان ہی اپنے اپنے مسئلوں سے سر پھوڑنے میں مصروف ہیں، تو پھر کس کو پڑی ہے بلبلانے کی؟ ایک ترکی ہے جس کو آج کل امت مسلمہ کا درد بہت زور سے اٹھ رہا ہے، وہ کھڑا ہوا ہے ان موغادیشیوں کے لیے۔ لیکن چھوڑیے، دیگر اسلامی ممالک ہی اس کے خلوص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ترکی ہیرو بن کر اپنا کھویا ہوا راج پھر حاصل کرنا چاہتا ہے۔

رہ گیا میڈیا تو اس کی ڈوریں تو جہاں سے ہلائی جاتی ہیں وہ دنیا کو پتا بھی نہیں لگنے دیں گے کہ ٹوٹے پھوٹے موغادیشو کی اجڑی گلیوں میں کون سا انسانی المیہ وقوع پذیر ہوا ہے؟ پانچ سو کے قریب جلے ہوئے لوگوں کے اسپتالوں کے بستروں کی ’’زینت‘‘ بننے کا احوال کون سنائے گا؟ سیکڑوں مائیں جن گم شدہ بچوں کی تلاش میں اب بھی ماری ماری پھر رہی ہیں ان کے درد کو بیان کرنے کی کون سا چینل ہمت کر پائے گا؟ دنیا کو بھلا کون پتا لگنے دے گا کہ موغا دیشو کے اسپتالوں میں زخمیوں کی جان بچانے کے لیے خون موجود نہیں۔ کئی دہائیوں سے مصائب جھیلنے والے موغادیشیوں کے جسموں میں اب اتنا خون بچا بھی کہاں ہو گا کہ دیا جا سکے؟ البتہ ہاتھوں میں اب تک دم ہے کہ لاشیں دفنا دفنا کر بھی شل نہ ہوئے۔

اس بم دھماکے کو نائن الیون کے بعد کا بدترین دہشت گردی کا واقعہ قرار دے کر میڈیا نے اپنے لبوں کو سی لیا۔ وہی میڈیا جس نے اسی سال مئی میں مانچسٹر میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں22 گوروں اور اکتوبر میں لاس ویگاس میں فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے59 گوروں کی ہلاکت پر کتنا شور مچایا تھا، مچانا بھی چاہیے تھا۔ جان تو کسی کی بھی ارزاں نہیں ہوتی۔ لیکن موغادیشو کے باشندوں کے خون کا رنگ شاید لال نہیں! ستم بالائے ستم اس بم دھماکے کے اگلے روز ہی معروف برطانوی اخبار کے پہلے صفحے پر سیکس اسکینڈل کی بڑی سی سرخی موغادیشو کے جُلے بُھنے باشندوں کو دنیا کی ترجیحات اور ان کی اوقات جتا رہی تھی۔

میڈیا اور حکم رانوں کی بات تو چھوڑیے اگر ’’وی آر موغا دیشو‘‘ کے بینر اٹھائے کہیں ایشیائی، امریکی یا یورپی عوام ہی ذرا دیر کو سڑکوں پر آجاتے تو شاید انسانیت اس قدر شرم سار نہ ہوتی، فیس بک اور ٹوئٹر پر موغادیشیوں سے اظہار ہم دردی ہی کر لیا جاتا تو ٹیکنالوجی کے مثبت اثرات کے سامنے ہم گردن جھکا دیتے، انسانیت کے بلند بانگ دعوے کرنے والی تنظیمیں ان مصیبت کے ماروں کے لیے فنڈ جمع کرلیتیں تو ان پر لگا، نادیدہ قوتوں کے آلہ کار ہونے کا دھبا کچھ مٹ جاتا۔ لیکن کون سی امداد، کون سی شمعیں، کہاں کے مظاہرے اور کیسی مہم۔ یہ سب کام اس وقت کیے جاتے ہیں جب معاملہ سفید چمڑی والے دولت مندوں کا ہو۔ مساوات، انصاف، انسانیت اور برابری کی باتیں بہت اچھی ہی سہی لیکن کسی فورم پر کھڑے ہو کر تقریر کی حد تک یا میڈیا کے سامنے خود کو بے وقوف عوام کا اصل ہیرو قرار دینے کے لیے، اور بس!

یوں لگتا ہے دنیا نے طے کر لیا ہے کہ موغادیشو کے عوام کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے کیوں کہ ٹوٹنے کے بعد خود جُڑنے کی عادت ڈال لینا ہی غریبوں کے لیے اچھا ہے۔ ان کے کالے چہروں پر اداسی ہی جچتی ہے، یہ لمبے چوڑے جسم قدرت نے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کو ہی تو بنائے ہیں۔ اور پھر یہ جو افریقا کو قدرتی جنگلات کی دولت سے مالا مال کیا گیا ہے، اسی لیے تو کہ یہ جاہل، کالے اور غریب واپس جنگلوں کو لوٹ جائیں درختوں کے پتے کھائیں بھی اور ان سے اپنا جسم بھی ڈھانکیں۔ اور جو کبھی ترقی یافتہ دنیا کی رونقیں دیکھنے کو دل کرے تو سفید چمڑی والوں کا غلام بن کر جینا سیکھ لیں، اپنے حال پر جلنا، کُڑھنا، رونا اور واویلا کرنا بھول جائیں، اور ہاں سب سے اہم بات! رات کو جب اپنے بچوں کو سُلائیں تو ایک لوری ضرور سنائیں، وی آر ناٹ لاس ویگاس، وی آر ناٹ مانچسٹر۔ وی آر موغا دیشو، وی آر موغا دیشو۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).