رانی جنداں تخت لاہور نہ بچا سکی


خالصہ سرکار عرف تخت لاہور کے بانی اور تاجدار مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مشاغل میں کشور کشائی کے علاوہ ہتھیار، عورت، شراب اور ہیرے جوہرات شامل تھے۔ جب رنجیت سنگھ کا انتقال ہوا تو اس کی ریاست ملتان سے درہ خیبر اور جموں سے لداخ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے توپ خانے کی نگرانی امریکی اور یورپی ماہرین کر رہے تھے اور اس کے پاس اپنے آخری وقت میں مندروں، مساجد اور گوردواروں کو خیرات کرنے کے بعد بھی اس وقت کے سب سے بڑے ہیرے کوہ نور سمیت جوہرات کا ایک خزانہ موجود تھا۔ ان کی چتا کے ساتھ چار بیووں اور سات کنیزوں کے ستی ہونے کے بعد بھی کئی بیویوں سمیت کنیزوں کی ایک فوج موجود تھی۔

جنداں رنجیت سنگھ کی آخری بیوی تھی جس سے اس نے شادی کی تھی۔ وہ رنجیت سنگھ کی دوسری بیووں کی طرح کسی بڑے گھرانے سے نہیں آئی تھی وہ تخت لاہور کے کتوں کے رکھوالے یا تازی خانے کے نگران گجرانوالہ کے منا سنگھ کی جواں سال بیٹی تھی ۔ جس وقت جنداں کو اپنے حرم میں داخل کیا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کو دل عارضہ لاحق ہو چکا تھا اور وہ اپنی زندگی کا آخری پہر گزار رہے تھے۔ مہاراجہ کی گرتی صحت کے دوران جنداں کی بطن سے اس کے واحد بیٹے دلیپ سنگھ کے جنم پر لوگوں نے نومولود کے نسب پر چہ مگوئیاں کیں تو رنجیت سنگھ نے دلیپ کو اپنا نطفہ قرار د ے کر سب کو خاموش کروا دیا۔ یہ رنجیت سنگھ کی روایت تھی کہ اس کو اپنی کسی بیوی یا کنیز سے جنم لینے والی اولاد پر شبہ ہوتا کہ وہ اس کا خون نہیں تو وہ ایسی اولاد کو شہزادے یا شہزادی کا درجہ نہیں دیتا تھا چاہے وہ کسی اعلیٰ النسب ماں کی بطن سے ہی کیوں نہ ہو۔

رانی جند کور

جب رنجیت سنگھ کی چتا جل رہی تھی تو جنداں اپنے نومود بچے دلیپ سنگھ کی کفالت کی وجہ سے ستی ہونے سے بچ گئی ورنہ وہ بھی رنجیت سنگھ کی محبت میں نہیں تو کم از کم غیرت یا اپنے باپ کی عزت کے لئے ہی سہی دوسری بیووں اور کنیزوں کے ساتھ اپنے شوہر کے ساتھ ستی ہوجاتی ۔ رنجیت نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کو اپنی زندگی میں ہی ولی عہد مقرر کرکے اپنے درباریوں سے وفاداری کا حلف بھی لے رکھا تھا ۔ تخت لاہور یا خالصہ سرکار کی اصل طاقت خالصہ تخت کے پاس تھی جو سکھوں کی ایک تنظیم یا پنچائت تھی جس میں امرتسر کے ہری مندر سے وابستہ بڑے نام شامل تھے۔ یہ پنچائت تخت لاہور کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتی تھی اور اس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو بھی ایک مسلمان لڑکی سے بیاہ کرنے پر سزا وار ٹھہرایا تھا۔ کھڑک سنگھ کو تخت نشین ہوتے ہی بہت جلد سکھوں کی اس پنچائت نے شراب اور عورتوں میں دلچسپی اور امور حکومت میں لاپرواہی کی وجہ سے معزول کرکے اس کے نوجوان بیٹے نونہال سنگھ کو مہاراجہ کے درجے پر فائز کیا۔ کھڑک سنگھ کی اس دوران موت واقع ہوئی اور اس کی آخری رسومات کی آدائیگی کے بعد واپسی پر اس کے جوان سال بیٹے مہاراجہ نونہال سنگھ کے اپر لاہور کے حضوری باغ کے ایک دروازے سے گزرتے ہوئے شہتیر گر جانے سے سر پر زخم آئے اور وہ بھی اپنے باپ کی چتا کی آگ ٹھنڈی ہونے سے پہلے ہی مر گئے۔ سکھ پنچائت نے فیصلہ کیا کہ نونہال کی بیوی جو امید سے تھی اس کی زچگی کا انتظار کیا جائے اور اس وقت تک امور مملکت خالصہ تخت کی زیر نگرانی نونہال کی ماں کے سپرد کئے۔ شومئی قسمت نونہال کی بیوہ نے ایک مردہ بچے کو جنم دیا اور تخت لاہور پھر بغیر وارث کے رہ گیا۔ اب جو نام سامنے آیا وہ رنجیت سنگھ کی پہلی بیوی مہتاب سے اس کے بیٹے شیر سنگھ کا تھا جس کے مہاراجہ بنتے ہی اس کے ماموں زاد نے اپنی نئی رائفل دکھاتے دکھاتے ہوئےاس کے وزیر اعظم سمیت گولی کا نشانہ بنایا اور تخت لاہور کے لئے وارث کی تلاش پھر سے شروع ہو گئی۔

جنداں اپنےکمسن دلیپ سنگھ کو لے کر لاہور میں رونما ہونے والے واقعات سے دور کشمیر میں قیام پذیر تھی جہاں شیر سنگھ کے ساتھ قتل ہونے والے مہاراجہ رنجیت کے وزیر اعظم دھیان سنگھ کے بھائی گلاب سنگھ نگران تھے۔ سکھ پنچائت نےجب فیصلہ کیا کہ پانچ سالہ دلیپ سنگھ کو مہاراجہ تسلیم کیا جائے تو جنداں اپنے بیٹے کو لیکر لاہور پہنچی اوراپنے بھائی جوہر سنگھ کی مدد سے بطور بیٹے کی نگران امور مملکت سنبھال لئے۔ اس دوران رنجیت سنگھ کے ایک اور بیٹےپشاورا سنگھ نے بغاؤت کی تو معاملہ کو حل کرنے کے بعد جوہر سنگھ نے اپنی بہن کے لئے خطرہ سمجھ کر اس کو قتل کر دیا جس کی پاداش میں جنداں کے واحد بھائی کو بھی خالصہ تخت کی پنچائت نے قتل کر دیا اور اب وہ اپنے کمسن بیٹے کی انگلی پکڑنے کے لئے بالکل اکیلی رہ گئی۔

تخت لاہور کی محلاتی ریشہ دوانیوں میں محض چند سالوں کے اندر چار تخت نشینوں کی چتائیں صندل کی لکڑی کے شعلوں میں راکھ ہو چکی تھیں، رنجیت کا حاشیہ بردار گلاب سنگھ جموں وال اور اسکے بھائی دیہان نے شیر سنگھ کی سادگی اور اعتماد سے خوب فائدہ اٹھایا اور لوٹ کر خزانہ خالی کر دیا تھا جس کی وجہ سے اب جنداں کو فوج کو تنخواہ دینے کے لالے پڑگئے تھے۔ لاہور دربار میں اب فقیر عزیزالدین جیسا عالم، فاضل، زمانہ شناس، ہفت زبان نابغہ بھی میسر نہیں تھا جو رنجیت سنگھ کا نہ صرف وزیر خارجہ تھا بلکہ اس کا ایسا دست راست تھا جو ان کے ہونٹوں کے اشارے سمجھ کر آخری وقت تک ان کی زبان بنا رہا۔ اب تخت لاہور پر ایک کمسن بچے کے ساتھ اس کی اکیلی ماں کھڑی تھی جو اپنوں اور غیروں کی سازشوں میں گھری ہوئی تھی۔ ایسے حالات میں چند میل دور سرحد کے اس پار اس وقت کی سپر پاور جس کی راجدھانی پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اپنی فوجیں کلکتہ سے لاکر جمع کر رہا تھا۔

دلیپ سنگھ انگریزی لباس میں

انگریز وں نے بلا اشتعال اور بلا وجہ جنگ چھیڑ کر حملہ کردیا۔ رنجیت سنگھ کا وہ توپ خانہ جو اس دور میں پورے ایشیا میں بے مثال تھا کام نہ آیا کیونکہ فوج کا سپہ سالار اور ملک کا وزیر اعظم دونوں ہی دشمن کے ہاتھوں بک چکے تھے۔ پنجاب کی فوج جب انگریزوں پر فتح حاصل کرنے قریب تھی تو فوج کے سپہ سالار نے پسپائی کا حکم دیا جس کے بعد رنجیت سنگھ کی ناقابل شکست فوج گاجر مولی کی طرح کاٹی گئی۔ ایک محاز پر شکست کے باوجود بھی پنجابی سورماوں کی ایک بٹالین ڈٹی رہی اور ستلج کے پل پر قبضہ کر کے اپنی سرزمیں کا دفاع کیا۔ یہاں بھی سپہ سلار تیج سنگھ نے دغا کیا جس کے نتیجے میں نو ہزار جوان مارے گئے اور تخت لاہور زمیں بوس ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور تخت لاہور کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق کمسن دلیپ سنگھ کو برائے نام مہاراجہ اور اس کی جائیداد اور زمینوں پر اس کا حق تسلیم کیا گیا۔ اس معاہدے کے بعد خالصہ فوج کے سپہ سالار تیج سنگھ کو سیالکوٹ کی جاگیر دینے کے کاغذ پر کمسن دلیپ نے اپنی ماں جنداں کے ایک غدار وطن کو اپنے ہاتھوں سے انعام دینے سے منع کرنے پر دستخط کرنے سے انکار کیا ۔ اس واقعے سے انگریز افسر سیخ پا ہو گئے اور جنداں کو اس کے بیٹے سے جدا کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ بہت جلد ہی انگریزوں نے ملتان کے ایک واقعہ کو بہانہ بنا کر دوسری جنگ شروع کی جس کو جیتنے میں ان کو کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ دوسری جنگ کے بعد خالصہ سرکار عملاً ختم ہوگئی اور انگریزوں نے اپنے ہی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمسن دلیپ سے نہ صرف اس کی ریاست چھینی بلکہ اس کو بشمول کوہ نور کے ہیرے کے اس کی موروثی جائیداد سے بھی محروم کر دیا۔ جنداں کو باغی قرار دے کر لاہور سے بہت دور منتقل کر کے دلیپ سنگھ کو ایک یتیم بچے کی طرح کسی انگریز جوڑے کے سپرد کردیا گیا ۔

جنداں نے زندان کی اونچی دیواریں پھلانگیں اور قید سے فرار ہوکر آٹھ سو میل دور ہمالیہ کے پہاڑ اور جنگلوں سے گزر کر کھٹمنڈو نیپال پہنچی۔ نیپال کے مہاراجہ نے جنداں کو ایک رانی کا درجہ تو دیا مگر طاقتور انگریز سامراج کی نظروں میں رہتے ہوئے اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکا۔ جنداں کی خواہش تھی کہ کسی طرح زار روس کو دعوت دی جائے جو انگریز کا مقابلہ کرے۔ اس کا خیال تھا اگر ایسا ہوا تو پنجاب کے لوگ روس کا ساتھ دیں گے۔ جنداں نیپال میں اپنے محل میں ایک شاہین کی طرح پنجرے میں پھڑپھڑاتی رہی جس کی وجہ سے اس کی صحت گر گئی۔ جوانی میں اپنے بے مثال حسن کی وجہ سے مقبول رانی جنداں بہت جلد اپنی عمر سے سے زیادہ بوڑھی نظر آنے لگی اور آنکھوں کی بینائی بھی کھو بیٹھی۔ ادھر دلیپ کو ماں سے ملنے کی ارزو مچلنے لگی تو اس نے انگریز نگرانوں ان سے ملاقات کی اجازت لی اور ماں بیٹے کی ملاقات لاہور سے بہت دور کلکتہ میں ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد جنداں نے باقی زندگی اپنے بیٹے کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ لندن چلی گئی۔

دلیپ سنگھ، جوانی سے بڑھاپے تک

تخت لاہور کے زمین بوس ہوتے ہی رنجیت سنگھ سے وفاداری کا دم بھرنے والے بہت سارے انگریزوں کے وفادار ہوکر عزت دار اور تمندار بن گئے اور دہلی میں آخری مغل تاجدار کا تاج اچھالنے میں اپنے نئے آقا کے گھوڑے کی لگام تھامے دامے، درمے سخنے ساتھ رہے۔ تخت لاہورسے غداری کے انعام میں جاگیریں تقسیم ہوئیں۔ گلاب سنگھ جس پر جنداں نے خزانہ لوٹنے کا الزام ثابت کیا تھا اور وہ رقم واپس کرنے پر راضی بھی ہوا تھا اس نے اسی لوٹی ہوئی رقم کی آدائیگی پر انگریزوں سے کشمیر کی ریاست کو بطور انعام حاصل کیا اور خود ہی مہاراجہ کہلایا۔ خالصہ تخت نے، جو رنجیت سنگھ کو محض ایک مسلمان لڑکی سے بیاہ کرنے پر سزا کا مستحق ٹھہراتا تھا ، جس کے ایک اشارے پر تمام سکھ اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار ہوجاتے تھے، نئے آقا کے سامنے چپ سادھ لی تھی۔ معمولی باتوں پر ایک دوسرے پر خنجر نکالنے اور ایک دوسرے کی گردن اتارنے والے سورما بھی انگریزوں کے سامنے بھیگی بلی بن چکے تھے۔

ایسے حالات میں جب ہندوستان میں سب اپنے نئے آقا کی خوشامد میں مصروف تھے اور اس کی مداح سرائی میں قصیدے گا رہے تھے تو جنداں انگریزوں کی سر زمین پر ان ہی کو کوسنے دے رہی تھی اورکہہ رہی تھی کہ وہ کتنے جابر اور ظالم ہیں جو اس کے کم سن بچے سے دغا کر کے برطانیہ لے آئے۔ جنداں گی للکار دیکھ کر دلیپ سے بظاہر پیار کرنے والی ملکہ برطانیہ کو اس کی ماں سے ملنے کی جرات نہ ہوئی ۔ اپنے آخری دو سالوں میں جنداں نے اپنے بیٹے کو دوبارہ  اس کی کھوئی ہوئی میراث اور ماضی سے روشناس کروا دیا اور دلیپ سنگھ سب کچھ چھوڑ کر وطن واپس آنے پر آمادہ ہوئے جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ جنداں کے مرنے کے بعد بھی انگریز اس سے ایسا خوفزدہ رہے کہ اس کی خواہش کے مطابق اس کی میت کو لندن سے بمبئی منتقل کرنے کی اجازت ایک سال تک نہ دی ۔ بعد میں دلیپ سنگھ کی واحد زندہ رہنے والی اولاد اس کی بیٹی نے لاہور میں سکونت اختیار کی اور اپنی دادی جنداں کی راکھ کئی دہائیوں بعد لاکر لاہور میں اس کے شوہر رنجیت سنگھ کے پہلو میں رکھ دیا۔ مرتے دم تک اپنے دشمن کو معاف نہ کرنے والی جنداں کو مگر افسوس رہا کہ وہ اپنوں کی غداری کی وجہ سے تخت لاہور نہ بچا سکی۔

رانی جند کور کی پوتی اور دلیپ سنگھ کی بیٹی صوفیہ

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan