نواز شریف کیا سوچ رہے ہیں؟


سن اے خرد مند، ہم جو دو بھائی تھے…خبر آئی ہے کہ برادرِ عزیز سہیل وڑائچ لندن تشریف لے گئے ۔ میاں نواز شریف سے دو گھنٹے طویل ملاقات رہی۔ دانش کے موتی سب سمیٹ لئے ۔ اس پر تکمہ یہ کہ سب گفتگو آف دی ریکارڈ قرار پائی۔ یہ بھی اچھا ہوا ، برا نہ ہوا۔ ایک مجموعی تاثر البتہ نیاز مندوں کی نذر کیا۔ اسی برگ سبز سے ہم اپنا سبو کشید کریں گے۔ یوں ہے کہ مجھے دُرد تہ جام بہت ہے… تجزیے کے لئے لندن جانا کیا ضرور۔ سیر ہوس و تماشا، سو اب نہیں ہے۔ رہی لذت کام و دہن، سو دندان آز نہ رہے، خانہ برباد نے مدت ہوئی ، گھر چھوڑ دیا۔ ایک گہرا مشاہدہ سہیل وڑائچ نے ارزاں کیا ہے۔ فرمایا۔’ میاں صاحب میں ایک نمایاں تبدیلی محسوس کی ہے اور وہ تبدیلی ہے کسی انہونی کا انتظار، کسی معجزے سے حالات بدلنے کی توقع یا پھر یوں کہئے کہ یہ ایقان کہ آخری فتح انہی کی ہو گی۔ نواز شریف کا کوئی مخالف اسے خودفریبی قرار دے گا جبکہ ان کا حامی اسے تیقن قرار دے گا‘۔ تو آئیے اس کا تجزیہ کر لیتے ہیں۔
پانچ نکات پر توجہ فرمائیے۔ اول یہ کہ صورت حال پیچیدہ ہے۔ دوم یہ کہ مشکلات کے پہاڑ گراں ہیں۔ سوم یہ کہ ماضی میں کچھ فیصلے اور اقدامات کئے گئے جن کے نتیجے میں بیانیہ جوہری تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ اب صورت حال کو پیچھے کی طرف نہیں لایا جا سکتا ۔ امریکہ کی ایک دانش مند خاتون کہا کرتی تھیں’ ماضی کو مٹایا نہیں جا سکتا لیکن ماضی کو دہراتے رہنا عقل مندی نہیں‘۔ چہارم یہ کہ میاں نواز شریف نے اپنے وسیع تجربات سے کچھ اصول دریافت کئے ہیں۔ کچھ لکیریں کھینچی ہیں۔ سیاست کی لڑائیاں نواز شریف نے بہت لڑ رکھی ہیں ۔ فتح مند بھی ہے اور شکست بھی کھائی۔ رنگ نشاط دیکھا، بار الم اٹھایا… اب نواز شریف اپنی آتما کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ لڑائی ہماری تاریخ میں تانتیا ٹوپے نے لڑی تھی۔ یہ مرحلہ ذوالفقار علی بھٹو پر گزرا تھا۔ اس رستا خیز میں اعداد و شمار اور دستاویزات کام نہیں آتیں۔ اس معرکے میں حسن بے دست و پا ہو جاتا ہے کیونکہ خود عشق کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ دارورسن کی آزمائش ہوتی ہے۔ پنجم یہ کہ میاں نواز شریف نے ممکنہ حد تک کھیل کے اصولوں کی پاسداری کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ کشمکش کا یہ مرحلہ اخلاقی قامت کی آزمائش کرتا ہے۔ چنانچہ سہیل وڑائچ بھی بتاتے ہیں کہ نواز شریف بہت کچھ جانتے ہیں لیکن لب سی رکھے ہیں۔ گھر کی ملکیت پر تنازع ہے ۔ مکان منہدم کرنے کا ارادہ نہیں۔ امکان کی کھڑکیاں کھلی ہیں ۔ ریاست کو چلانا ہے تو اس کے کسی عضو کو کاٹ پھینکنا ممکن نہیں۔

نفسیات کے ایک معمولی طالب علم کی حیثیت سے کہا جا سکتا ہے کہ اوپر بیان کئے گئے پانچ نکات سے جو ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے اسے انہونی کا انتظار بھی کہا جا سکتا ہے۔ اڈولف ہٹلر برلن کے بنکر میں محصور ہو چکا تھا۔ اپریل 1945 ء کا آخری ہفتہ تھا۔ امریکہ کے صدر فرینکلن روزویلٹ کی موت کی اطلاع آئی۔ ہٹلر کا چہرہ کھل اٹھا۔ اس نے بڑے جوش سے اعلان کیا کہ قدرت غیبی میری مدد کو آن پہنچی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی ہیجانی سوچ تھی۔ زمینی حقیقتوں سے اس کا تعلق نہیں تھا۔ دسمبر 1971 ء میں مشرقی محاذ پر صورت حال ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ اچانک خبر آئی کہ پاکستانی فوج نے مغربی محاذ پر امرتسر فتح کر لیا ہے۔ صدیق سالک روایت کرتے ہیں کہ ڈھاکہ میں بیٹھے جنرل نیازی نے مسرت سے پاگل ہوتے ہوئے ڈنٹر پیلنے شروع کر دئیے۔ آپ کو تو یاد ہو گا پچھلے برس نومبر میں میانوالی سے تعلق رکھنے والے ایک جوان رعنا نے اسلام آباد کی سڑک پر پش اپس لگائے تھے۔ کیا عجب کہ مؤرخ 2016 ء کے برس کو مصباح الحق اور عمران خان صاحبان کے پش اپس سے معنون کر دے۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں بے بنیاد اشاروں سے امید باندھناتدبیر سے ہاتھ اٹھانے کے مترادف ہے۔ اسی کیفیت کی ایک زیادہ امید افزا صورت بھی ہو سکتی ہے۔ الجھی ہوئی صورت حال میں آپ نے اپنے پتے ٹھیک پھینکے ہیں مگر یہ کہ حریف زور آور ہے ۔ آنکھ جھپکنے کی غلطی مہنگی پڑ سکتی ہے۔ آپ چھوٹے چھوٹے سنگ میل قائم کرتے ہیں۔ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنا حتمی منزل سہی لیکن فوری توجہ سامنے کی چٹان پر دی جاتی ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ کسی طرح 2018 ء کے انتخابات تک پہنچا جائے۔ بہت اچھی خواہش ہے لیکن عزیزان محترم ، 2018 ء کے انتخابات سے جو بھی نتیجہ برآمد ہو اسے 2013 ء کے انتخابی منظر سے جوڑ کر دیکھنا پڑے گا۔ 2013 ء میں ایک جماعت نے قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کی۔ اس سادہ اکثریت کے خوف سے دھرنا برآمد ہوا۔

میڈیا کی عدالت لگی۔ پاناما کے ساحلوں پر کان کنی کی گئی۔ طویل قانونی کشمکش سے اقامہ کا کبوتر برآمد کیا گیا۔ اگر 2013 ء کے انتخابی نتائج کا حلیہ بگاڑا جا سکتا ہے تو 2018 ء میں کون سا بھاڑ جھونک لیا جائے گا۔ اگر زحمت نہ ہو تو 2008 ء کے بعد نمودار ہونے والے سیاسی منظر پر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ اکتوبر 2007 ء کا این آر او تھا ۔ خوشا کہ خواجہ سعد رفیق نے فرمایا ہے ’ قیادت جلاوطن ہو تو این آر او کرنا پڑتا ہے‘۔ گویا این آر او زور آور کی اندھی طاقت کے سامنے جمہوری خوابوں سے باندھا جانے والا بند ہے ۔ یہی بات 2008 ء میں عرض کی گئی اور دو ٹوک انداز میں مسترد کر دی گئی۔ 2008 ء میں بھوربن سمجھوتہ افتخار محمد چوہدری صاحب کی بحالی کے سوال پر رنجک چاٹ گیا تھا۔ افتخار چوہدری اب ریٹائرمنٹ کے بعد بلٹ پروف گاڑیوں کے معاملات میں غلطاں ہیں اور مسلم لیگ نواز کو کمرہ عدالت میں ہونے والی ناانصافی کا گلہ ہے۔ یہ مآ ل ہے آزاد عدلیہ کا۔ یہ گزارش 2008 ء میں کی جاتی تھی تو اسے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا جاتا تھا۔ پڑھنے والے کا حافظہ بہت اچھا ہے۔ یقیناََ استحضار ہو گا کہ تب صدر آصف علی زرداری نے ہندوستانی اخبار کو ایک انٹرویو دیا تھا نیز بمبئی حملوں میں قریب 200 افراد مارے گئے تھے ۔ آج بھی کچھ افغان پالیسی، بھارت نوازی نیز یمن تنازع میں فرمائش پوری نہ کرنے کی خبریں ہیں۔ آگ ہے ، اولاد ابراہیم ہے ، نمرود ہے… سیاست میں کوئی ایک فریق سو فیصد کامیابی حاصل نہیں کیا کرتا۔ اس بساط پر ایک ہی وقت میں ان گنت پانسے پھینکے جاتے ہیں۔ کامیابی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اولیں چال سے آگے کی صورت حال پہلے سے سوچ لی جائے۔ خبر یہ ہے کہ اہل دانش سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ پانسہ پھینکا جا چکا ہے۔ اگلی چال کا انتظار ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ پہلے سے نقشہ نہیں بٹھایا۔ ایک نقشہ دستور نے طے کر رکھا ہے۔ ہم میں سے بہت سے عجلت پسندوں کو دستور پر اعتماد نہیں ہے۔ خانہ ساز نسخے تجویز کئے جاتے ہیں۔ یہ لمحہ موجود کا بنیادی تضاد ہے۔ گلشن کے فروغ اور صوت ہزار کے لئے آئین کی طرف پلٹنا ہو گا۔ اچھی بات یہ کہ سہیل وڑائچ خبر دیتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے کشتی ڈبونے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ایسی فراست کو ناامیدی کا اشارہ نہیں ،بالغ نظری کا نشان سمجھنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).