پارٹی از ناٹ اوور


محترم سہیل وڑائچ نے کچھ عرصہ قبل ایک کالم لکھا کہ پارٹی از اوور ۔ اس کالم کا شہرہ ہر طرف ہوا۔ اس وقت حالات ہی کچھ اس قسم کے تھے۔ پاناما کیس اپنے جوبن پر تھا۔ لندن فلیٹس کی رسیدوں کا قصہ زبان زد عام تھا۔ واٹس اپ کالز کا تذکرہ ہو رہا تھا۔کرپشن کے نام پر طوفان مچا ہوا تھا۔ جے آئی ٹی کی تشکیل پر سوال اٹھائے جا رہے تھے۔ عدالتیں ، مقدمے ، پیشیاں اور حاضریوں کے قصوں سے ٹی وی کی اسکرینیں بھری ہوئی تھیں۔ لوگ گو مگو کی کیفیت میں تھے۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس موقع پر سہیل وڑائچ نے وہ معرکتہ الاراکالم لکھا اور بحث کا نتیجہ نکال کر سامنے رکھ دیا۔کسی بھی صحافی کی کامیابی اس خبر کو کہتے ہیں جو آنے والے دنوں کا حال بتا دے۔ کیا ہونے والا ہے اس کا اشارہ دے دے۔

برادرم عمر چیمہ میرے لئے بہت قابل احترام ہیں ۔ وہ سچ بولنے کے لئے ہر مشکل مقام سے گزر سکتے ہیں۔ ہر سختی جھیل سکتے ہیں۔ ہر کٹھن مرحلے کو برداشت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بھی کچھ عرصہ پہلے بڑی تفصیل سے لکھا کہ پارٹی از اوور۔ کیا ہونے والا ہے اس کی طرف اشارہ بھی کر دیا۔ اپنی تحریر میں لانگ مارچ کے امکان کا اظہار بھی کیا۔عدالتوں کے سامنے ہونے والے متوقع مڈ بھیڑ کا ذکر بھی کیا۔ ٹیکنو کریٹس والے فارمولے کی طرف بھی کچھ عندیہ دیا۔ عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کے نتائج سے بھی آگاہ کیا۔ مستقبل کے امکانات کی طرف بھی روشنی ڈالی اور دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔

میرے لئے سہیل وڑائچ صاحب بھی محترم ہیں اور برادرم عمر چیمہ کی بھی میں بہت عزت کرتا ہوں ۔ ان ہر دو افراد کی دیانت ، صحافت اور حق گوئی کسی بھی شبے سے بالاتر ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود میں بڑے احترام سے ان دونوں افراد سے اختلاف کی جسارت چاہتا ہوں ۔ میرے خیال میں پارٹی از ناٹ اوور۔ ابھی کھیل باقی ہے۔ ابھی کشمکش کے دن باقی ہیں۔ ابھی ہم جواب کے منتظر ہیں۔کہانی کا آغاز تو یہ محترمین درست بتا رہے ہیں لیکن انجام پر بحث ہو سکتی ہے۔اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔نتیجہ مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ شطرنج کے مہرے کوئی اور چال بھی چل سکتے ہیں۔ شاہ کو مات بھی ہو سکتی ہے۔ ترپ کا پتہ کھیلا بھی جا سکتا ہے۔شکاری کی بندوق جام بھی ہو سکتی ہے۔ کہانی اچانک تمام بھی ہو سکتی ہے۔نیزے کے طرح تنی ہوئی تلوار نیام بھی ہو سکتی ہے۔

یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ تماشہ ہم نے بہت باردیکھا ہے۔ کئی دفعہ یہ کہانی دہرائی جا چکی ہے۔ اب تو ہر منظر، ہر کردار ، ہر موڑ دیکھا بھالا سا لگتا ہے۔ پارٹی اس طرح پہلے بھی کئی دفعہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلے بھی عوام کے حق حاکمیت پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ پہلے بھی عوامی خواہشات کو بوٹوں تلے روندا گیا ہے۔ پہلے بھی گمنام کرپشن کے قصے زبان زد عام ہوئے ہیں۔ پہلے بھی جمہوریت کے نام کو پامال کیا گیا ہے۔ پہلے بھی لوگوں کو کم مائیگی کا احساس دلایا گیا ہے۔ پہلے بھی ان کو انکے حق سے محروم کیا گیا ہے۔ پہلے بھی انصاف کے ترازو کا پلڑا لرز چکا ہے۔ پہلے بھی آئین ملیا میٹ ہو چکا ہے۔ پہلے بھی محسن ، مجرم بن چکے ہیں۔ پہلے بھی مجرم ، محسن کہلا چکے ہیں۔پہلے بھی امید کی دیوی جل کر خاک ہو چکی ہے۔ پہلے بھی بہتر مستقبل کا خواب بکھر چکا ہے۔پہلے بھی آرزئوں کا محل دھڑام سے گر چکا ہے۔پہلے بھی یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔ پہلے بھی ہم سے رستہ کھو چکا ہے۔پہلے بھی فلک اس ظلم پر رو چکا ہے۔لیکن جبرو استبداد سے کبھی پارٹی ختم نہیں ہوتی۔ ظلم اور قہر سے پارٹی ختم نہیں ہوتی۔ آوزیں بند ہونے سے بھی خاموشی نہیں ہوتی۔آہنی زنجیریں بھی قید نہیں کر سکتیں۔سانس تو بندکی جا سکتی ہے، سماعتوں پر تو بندش ہو سکتی ہے۔ نظر پر تو قدغن لگائی جا سکتی ہے۔ سوچ پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے۔اس بیان کا چشم دید گواہ یہ سارا ملک ہے۔ یہ سارا سماج ہے۔ یہ سار ا حلقہ عوام ہے۔

کوئی مجھے بتائے کہ پہلے جب پارٹی از اوور کا نعرہ لگا تھا تو کیا لوگوں کو ادراک نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟۔پہلے کب لوگوں کے دلوں سے نظریات کی جنگ ختم ہوئی ہے؟۔ پہلے بہتر مستقبل کی خواہش کب کم ہوئی ہے؟اس ملک کے بھوکے ننگے عوام کو یہ اعجاز حاصل ہے کہ اگر ان کے دلوں میں جمہوریت کا سودا سما جائے۔ کسی نظریئے کی سمجھ آجائے۔ کوئی لیڈر بھا جائے تو پھر وہ دلوں میں ہی رہتا ہے۔اسی کی پوجا ہوتی ہے۔ اسی کی مالا جپی جاتی ہے ۔ اس کی نسلوں سے پیار کیا جاتا ہے ۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر محترمہ مریم نواز نے ایک بہت لاجواب جملہ کہا کہ بے انصافی بہت عارضی سی کیفیت ہے۔ اس کی عمر کم ہوتی ہے۔ اس کو پذیرائی حاصل نہیں ہوتی۔اس کو بالآخر راہ راست پر آنا پڑتا ہے۔ سچ کو واشگاف ہونا پڑتا ہے۔ اس سچ کو تلاش عوام کرتے ہیں۔ اسکی دلیل وہ اپنے خون سے دیتے ہیں۔ اس کا ثبوت وہ اپنی محبت سے دیتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب اصل مجرم کی شناخت ہوتی ہے۔ جب اصل مافیا کا پتہ چلتا ہے ، جب اصل غلطی کی شناخت ہوتی ہے۔ اس وقت عوام کا غیض و غضب تفتیش نہیں کرتا ، سوال نہیں پوچھتا ، دلیلیں نہیں دیتا ، جواب سے مطمئن نہیں ہوتا۔پھر جنون سے چڑھ کر بولتا ہے۔ پھر قید کرنے والا خود آہنی پھاٹک کو کھولتا ہے۔

پارٹی کبھی سنگ و خشت کی بارش سے زبر دستی ختم نہیں ہوتی۔ پارٹی کے اختتام کا حتمی فیصلہ عوام کا ہوتا ہے۔ یہ انکی منشا ہو تی ہے، یہ انکی رضا سے ہوتا ہے۔ پارٹی ختم کرنے کے لئے پارٹیوں میں دراڑیں بھی ڈالی جاتی ہیں ۔ تقسیم کا مر حلہ بھی سامنے آتا ہے۔ دوست ، دشمن بھی بن جاتے ہیں۔ وفادار ، بے وفائی بھی کر جاتے ہیں۔فصلی پرندے کہیں اور دانہ دیکھ کر اڑ بھی جاتے ہیں۔ لیکن یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے۔ یہ لمحہ وقتی ہوتا ہے۔ہم نے ماضی میں بارہا دیکھا ہے کہ فصلی پرندے راہ کھو جاتے ہیں۔ دراڑیں خود بخود مندمل ہو جاتی ہیں۔کٹھن رستے خود سہل ہو جاتے ہیں۔اس سے پارٹی ختم نہیں ہوتی ۔ کھیل توقف کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ شطرنج کے کھیل میں آخری مہرہ کبھی شاہ کو مات دے دیتا ہے۔ کبھی ترپ کا پتہ بظاہر ہارنے والے لشکر کے پاس ہے۔ابھی سیاست کی گلیوں میں اندھیرا نہیں ہوا ہے۔یاد رکھیئے جنگ میں عارضی قیام کو توقف کہتے ہیں شکست نہیں۔ پارٹی تب ختم ہوتی ہے جب اس ملک کے عوام کی منشا ہوتی ہے۔ پارٹی تب ختم ہوتی ہے جب اس ملک کے عوام کے دلوں سے کوئی اتر جاتا ہے۔ پارٹی تب ختم ہوتی ہے۔ جب لوگ احسان مند نہیں رہتے۔پارٹی تب ختم ہو تی ہے جب نظریہ شکست کھاتا ہے۔پارٹی تب ختم ہوتی ہے جب جڑیں زمین میں نہیں ہوتیں۔ پارٹی تب ختم ہوتی ہے جب محبت کا سہارا نہیں ہوتا۔ پارٹی تب ختم ہوتی ہے جب امید باقی نہیں رہتی۔ پارٹی تب ختم ہوتی ہے جب جرم سامنے آتا ہے ۔ ابھی بہت سے مرحلے باقی ہیں۔ جرم اور مجرم دونوں کی شنا خت کا مرحلہ باقی ہے۔محب وطن اور غداروں کی شنا خت کا مر حلہ باقی ہے۔ وفاشعاروں اور ابن الوقتوں کی شنا خت کا مرحلہ باقی ہے۔ ابھی پارٹی از ناٹ ایٹ آل اوور۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar