ایمبولینس اور زندگی راستہ مانگتے ہیں


ہم لوگ مزے سے اکٹھے رہتے تھے۔ ابا پی آئی اے میں نوکری کرتے تھے، بھائی بہن پڑھ رہے تھے اور اپنی جاب چل رہی تھی۔ ابا کی ٹرانسفر ملک سے باہر ہو گئی۔ اسی دوران بھائی کی نوکری لگی تو وہ اسلام آباد چلا گیا۔ ٹرانسفر ہونے پہ ظاہری بات ہے ایک دم بندہ اٹھ کے نہیں بھاگ جاتا، تو امی ابا اور بہن کے ویزے وغیرہ کا معاملہ چل رہا تھا، کچھ عرصے بعد انہوں نے چلے جانا تھا۔ اس وقت جو باس تھے انہیں معلوم ہوا تو انہوں نے ایک پروموشن آفر کر دی۔ کہا لاہور آ جاؤ اور ریجن سنبھال لو۔ مشورہ کیا، سبھی باہر جا رہے تھے تو اجازت مل گئی۔ یوں ہم سب الگ الگ رہنے لگ گئے۔

چار برس بعد ابا اماں واپس آ گئے۔ اب عیدوں پر ملنا مقدر تھا۔ ایسی ہی ایک عید سے پہلے ہم لوگ صبح صبح ملتان جانے کے لیے روانہ ہو ئے۔ اپنی گاڑی میں جانے کا فائدہ یہ تھا کہ ایک تو سفر مختصر ہو جاتا اور دوسرے جہاں ضرورت ہوتی وہاں بچوں کے لیے گاڑی روکی بھی جا سکتی ہے ۔

بہت زبردست موسم تھا، بادل تلے ہوئے تھے، ایسے لگ رہا تھا کہ اب بارش ہوئی یا تب۔ پورا ماحول بنا ہوا تھا اور گاڑی میں ہلکے ہلکے گانے چلائے ہم لوگ رواں دواں تھے۔ ملتان سے تیس کلومیٹر دور بوندا باندی شروع ہو گئی۔ ایک ٹرک سامنے اچھا خاصا اپنی لائن میں جا رہا تھا۔ اسے اوور ٹیک کرنے کے لیے لائٹ دکھائی، اسی کلومیٹر رفتار تھی، جیسے ہی گاڑی سائیڈ میں آنے لگی تو ٹرک ایک دم اپنے ٹریک سے ہٹ کے سامنے آ گیا۔ اب دوسری طرف سڑک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والا ڈیوائیڈر تھا اور اس میں جو چھوٹا سا راستہ مقامی آبادی نے توڑ پھوڑ کے نکالا تھا، وہاں سے ایک موٹر سائیکل یوٹرن کے لیے آ رہی تھی۔ ٹرک سے بچنا تھا، موٹر سائیکل کو بچانا تھا، گاڑی ڈیوائیڈر میں ٹھک گئی۔

اوما کا سر ونڈ سکرین پر لگا، شیشہ ٹوٹ گیا اور اوما کا ماتھا ایک جگہ سے بہت زیادہ سوج گیا۔ ٹانگ سے بھی خون نکل رہا تھا، آنکھ کے نیچے جامنی سا نشان پڑ چکا تھا اور اسے بہت زیادہ چکر آ رہے تھے۔ پیچھے بیٹھی بھائی کی اہلیہ کا چہرہ جو اگلی سیٹ میں لگا تو ناک سے خون نہیں رکتا تھا۔ بچے بھی پیچھے تھے، خدا نے بچا لیا۔ مقامی لوگ بے چارے فوراً اکٹھے ہو گئے۔ کھینچ کھانچ کے گاڑی سڑک کے دوسری طرف لے گئے۔ کسی نے ایمبولینس کے لیے فون کیا اور پانچ منٹ بعد 1122 سامنے کھڑی تھی۔ اندر مددگار عملہ تھا اور باقی ایمبولینس خالی تھی۔ اوما جیسے تیسے سوار ہوئی، صدف اپنی ناک کو مضبوطی سے دبائے اندر جا بیٹھیں، عالی بھی ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ایمبولینس انہیں لے کر ہسپتال پہنچی تو آدھے پونے گھنٹے بعد ابو وغیرہ بھی وہیں پہنچ گئے۔ چار پانچ گھنٹوں میں سب لوگ گھر پہنچ چکے تھے۔ گاڑی اور میں ورکشاپ کے اندر تھے۔

یہ روڈ ایکسیڈنٹ کا ایک عام سا واقعہ تھا۔ کیا آپ میں سے کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایمبولینس نہ پہنچ پاتی تو یہ واقعہ کس قدر بھیانک ہو سکتا تھا؟ ایک عورت ماتھا پکڑے بیٹھی کراہ رہی ہے، شدید چکر ہیں، دوسری کی ناک سے بلیڈنگ نہیں رک رہی، وہ بھی تکلیف اور خوف سے رو رہی ہے، بچے الگ سہمے ہیں، گھر والے کم از کم پینتالیس منٹ کی دوری پہ ہیں، ڈرائیور خود بدحواس ہے، گاڑی چل نہیں سکتی، خون کیسے روکا جائے اور چکروں کا بندوبست کیا ہو؟ اس وقت جب ایمبولینس آ کے رکی تو ایک بہت عجیب سا خیال دماغ میں آیا، یار یہ تو خالی ہے؟ اس وقت تک اگر کوئی ایمبولینس ہارن بجاتے ہوئے شوٹم شوٹ بھاگ رہی ہوتی تھی اور اندر نظر پڑنے پر دِکھتا کہ خالی ہے اور سٹریچر پہ کوئی نہیں لیٹا ہوا تو ہم لوگ ڈرائیور کو گالیاں دیتے تھے کہ اپنے ذاتی کام سے جا رہا ہے اور ہماری ناک میں دم کرتا ہے۔ اس دن پہلا خیال یہی آیا کہ اگر کوئی اس خالی گاڑی کو راستہ نہ دیتا تو؟ ہم لوگ کتنی دیر تک ایسے ہی بے یار و مددگار وہاں کھڑے رہ سکتے تھے؟ مطلب خالی ایمبولینس کو راستہ دینا کس قدر اہم ہے یہ اس دن اندازہ ہوا۔ حتیٰ کہ اکیلا ڈرائیور بھی اگر جا رہا ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ بلڈ بیگز کی ترسیل کر رہا ہے یا کوئی آپریشن کا سامان لے کے جا رہا ہے، یا کسی ڈاکٹر کو لانے کے لیے بھاگتا ہے، تو ایسا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایمبولینس کو راستہ نہ دینے کی معمولی سی کاہلی کر کے ہم کتنی جانیں ضائع ہونے کی وجہ بن سکتے ہیں، کوئی آئیڈیا لگانا ممکن نہیں ہے۔

ہمیں یہ کہنے کی ضرورت بھی کیا ہے کہ ”ایمبولینس کو راستہ دیں، اس میں کوئی آپ کا پیارا بھی ہو سکتا ہے‘‘ارے پوری دنیا میں بسنے والا ہر انسان کیا آپ کو پیارا نہیں ہے؟ کوئی بھی ہو، کسی بھی علاقے سے ہو، انسان ہی ہو گا نا؟ تو بھائی ہارن بجاتی، چیختی چلاتی، لائٹس گھماتی ایمبولینس جتنی دور سے نظر آ جائے خدا کے واسطے اسے راستہ دینے کے لیے جگہ بنا لیں، کسی ماں، بیٹے، بھائی، بہن، باپ یا بیوی کی زندگی داؤ پر لگی ہو گی، ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر دل کے دورے کا مسئلہ ہے تو اس میں تو جتنی جلدی مریض ہسپتال پہنچ جائے اتنا کم نقصان ہوتا ہے۔ ایسے سمجھ لیجیے کہ پندرہ منٹ دیر سے پہنچنے کا مطلب ہو گا دل کو پندرہ فیصد زیادہ نقصان ہوگیا ۔ تو اس نقصان کے ہر ایک فی صدی حصے میں راستہ نہ دینے والے برابر کے شریک ہوں گے!
غور کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اس جذبے سے بھی ایمبولینس کو راستہ نہیں دینا کہ آج ہم کسی کو راستہ دیں گے تو کل کوئی ہماری ایمبولینس کو راستہ دے گا، نہیں، ہو سکتا ہے ہمیں وقت پڑنے پر ایمبولینس ہی نہ ملے یا راستہ نہ ملے لیکن جو آج زخمی ہے، جو آج بچ سکتا ہے کیا وہ ہمارے کل کے ممکنہ حادثے سے زیادہ اہم نہیں ہے؟ ہر چیز میں اپنی ذات کو انوالو کرنے کی بجائے صرف زخمی اور بیمار انسان کا سوچا جائے، اس کے لیے ہمدردی رکھی جائے تو یہ جذبہ مل ملا کر خود ہی سوک سینس کو جنم دے سکتا ہے۔

جہاں جہاں میٹرو بن چکی ہے وہاں تو ڈیزاسٹر مینجمنٹ والوں کو ٹریننگ دینی چاہئے کہ بم دھماکوں یا زلزلے کی صورت میں ایمبولینس کو میٹرو ٹریک دے دیا جائے اور بسیں ایک آدھ دن کے لیے معطل کر دیں۔ اسی طرح سڑکوں پر الگ ایمرجنسی ٹریک بنائے جا سکتے ہیں، جہاں ہر سو تارکول کا جال بچھ رہا ہے وہاں کچھ اعلیٰ تر انسانی مقاصد کے تحت بھی کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ پھر ایمبولینس کے نام پر جو گاڑیاں گھومتی ہیں ان میں سے مکمل ایمبولینسز صرف 1122 یا ریڈ کراس والی پائی گئی ہیں۔ باقی گاڑیوں میں تو ویسے ہی ایمرجنسی کا سامان اس قدر کم ہوتا ہے کہ وہ اڑ کر بھی ہسپتال پہنچنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔ ایک آکسیجن سلنڈر اور فرسٹ ایڈ کٹ کے ساتھ سیریس مریض کتنا چل سکتے ہیں؟ پھر بھی چلتے ہیں اور پہنچتے ہیں اور بچائے بھی جاتے ہیں، سلام بابا ایدھی، سلام فیصل ایدھی!

موٹر سائیکل ایمبولینس پاکستان کے لیے ایک نیا آئیڈیا ہے اور دو سو موٹر سائیکلوں کے ساتھ اسی مہینے سے لاہور میں یہ شروع ہو چکا ہے۔ یہ سسٹم بھی 1122 کے انڈر آتا ہے۔ اندرون شہر تنگ راستوں میں جہاں گاڑی نہیں جا سکتی وہاں یہ جائیں گے اور صورت حال دیکھ کر پیچھے گاڑی والوں کو بھی الرٹ کر دیں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا یہ اچھا فیصلہ جلد از جلد پورے ملک میں کاپی پیسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ لاہور سے زیادہ اس کی ضرورت ان جگہوں پر ہے جہاں کھڑکھڑاتے ڈالے میں پڑی چارپائی ایمبولینس کہلاتی ہے اور مریض خود ڈرپ کو ہاتھ سے اٹھا کر لیٹا ہوتا ہے۔

آخری بات؛ اگر کوئی سفید موٹر سائیکل شور مچاتی بھاگتے ہوئے نظر آئے اور اس پہ زرد اور سبز ڈبے بنے ہوں تو اسے بھی گالیاں نہیں دینیں، راستہ دینا ہے۔ وہ پولیس نہیں ہے، وہ آپ کا لائسنس چیک نہیں کریں گے، انہوں نے کسی کی جان بچانی ہے۔ ایمبولینس کو راستہ دیں، زندگی کو راستہ دیں!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain