ڈاکٹر حس مزاح سے کیوں محروم ہو چکے ہیں؟


ہماری جدید تحقیق بتاتی ہے کہ کسی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں ڈاکٹر حضرات حس مزاح سے مکمل طور پر محروم ہو چکے ہیں اور شدید ٹینشن اور ڈپریشن کا شکار رہنے لگے ہیں اور یہ خرابیاں عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی دکھائی دیتی ہیں۔

شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بچارے ڈاکٹروں کے کھل کھیلنے کے دن پڑھائی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ پینتیس چالیس برس کی عمر تک یہ کتابیں پڑھتے اور امتحان دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ جاب بھی کرنی ہوتی ہے۔ ایک ایک شفٹ چھتیس سے اڑتالیس گھنٹے کی ہو سکتی ہے۔ اوور ٹائم ملنے کا کیا سوال، ادھر تو بلا تنخواہ جاب کرنے کے لئے بھی سفارش کروانی پڑتی ہے کیونکہ سپیشلائز کرنے کے لئے مقررہ مدت تک جاب کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔

ان مظلوموں کی جوانی کتابوں، 36 گھنٹے کی ڈیوٹی اور بلا تنخواہ جاب میں برباد ہو جاتی ہے۔ پھر جب وہ پچاس پچپن کے ہو کر سکون سے سانس لینے کے قابل ہوتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ جوانی پھر نہیں آنی۔ یہ جان کر وہ شدید دکھی ہو جاتے ہیں اور لطیفوں پر ہنسنے کی بجائے جھنجھلانے لگتے ہیں۔ ساتھ جاب پر ماحول ایسا کہ ایک طرح مریض درد سے کراہ رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف فوت ہونے والوں کے اقارب دھاڑیں مار مار کر روتے دھوتے ہیں۔ بلکہ کئی مرتبہ تو یہ اقارب ڈاکٹروں کو بھی دھو دیتے ہیں کہ کیسے مسیحا ہو کہ حضرت عیسی کی مانند مریض کو زندہ کیوں نہیں کیا۔ بالکل پاکستانی ٹی وی ڈراموں جیسے اداس، رونا اور غمگین ماحول ہوتا ہے ان کی جاب پر۔

ڈاکٹروں کی ڈیوٹی کے اوقات بہت سوچ سمجھ کر ترتیب دیے جاتے ہیں۔ ٹریفک پولیس والے کہتے ہیں کہ نیند پوری نہ ہو تو ڈرائیو نہ کریں ورنہ آپ اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈال دیں گے۔ آپ کو یہ نازک کام کرتے ہوئے جھپکی آئی اور موت کا فرشتہ ساتھ لائی۔ دوائیوں کی ہدایات پر لکھا ہوتا ہے کہ یہ دوائی کھا کر ڈرائیونگ مت کریں اور ہیوی مشینری آپریٹ نہ کریں کیونکہ اس سے غنودگی طاری ہوتی ہے جو کسی جان لیوا حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ مگر محکمہ صحت کہتا ہے کہ ڈاکٹرو چھتیس چھتیس گھنٹے جاگ کر ڈیوٹی کرو، بندوں کی زندگی موت کے فیصلے کرو اور اسی حالت میں آپریشن بھی کر دو۔

تین امکانات ہیں۔ پہلا یہ کہ محکمہ صحت کی نظر میں شاید انسانی جان سے کھیلنا خطرناک کام نہیں ہے اس لئے نیند پوری ہونی ضروری نہیں۔ نیند سے بے حال ہونے کے سبب آپریشن کرتے ہوئے مریض کے پیٹ میں تولیہ قینچی بھولنا یا دائیں کی بجائے بایاں گردہ نکال دینا محکمہ صحت کی نگاہ میں پریشانی کی بات نہیں ہے۔ یا پھر محکمہ صحت نے وطن عزیز کی آبادی کنٹرول کرنے کے لئے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ ڈاکٹروں کو جتنی دیر تک ممکن ہے جگا کر رکھا جائے اور اس حالت میں ان سے مریضوں کی زندگی موت کے فیصلے کرائے جائیں جب ان کو خود اپنی خبر نہیں ہوتی ہے۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ محکمہ صحت کی رائے میں نیند پوری نہ ہو تو ڈاکٹر کے ہوش و حواس تو قائم رہتے ہیں مگر ڈرائیور کے نہیں۔

پھر عالم یہ ہے کہ جس ڈاکٹر کو دن کے دس مریض دیکھنے چاہئیں اسے دو سو مریض دیکھنے پڑتے ہیں۔ جس بیڈ پر ایک مریض ہونا چاہیے ادھر دو تین ہوتے ہیں۔ جس ڈیوٹی پر تین ڈاکٹروں کو ہونا چاہیے ادھر ایک ہوتا ہے۔ حکومت کی طرف سے سہولیات ملتی نہیں ہیں۔ جو لڑکیاں ڈاکٹر بنتی ہیں، ان کے لئے بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ شادی کے بعد اپنے چھوٹے بچوں کا خیال رکھیں یا ڈاکٹری کریں۔ فیصلہ عموماً بچوں کے حق میں آتا ہے۔ جب دس پندرہ سال بعد بچے خود کو سنبھالنے کے قابل ہوتے ہیں تو حکومتی ادارے ان خواتین ڈاکٹروں کو جاب دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بی بی تمہاری سپیشلائزیشن اب گول روٹی بنانے میں ہے، ڈاکٹری میں نہیں۔ کیا حکومت ان لیڈی ڈاکٹروں کو ہسپتال میں بچوں کے لئے ڈے کیئر سینٹر کھول کر نہیں دے سکتی، یا دس سال بعد واپس آنے والی ڈاکٹروں کو ایک ریفریشر کورس کرا کر دوبارہ جاب نہیں دے سکتی؟

بہرحال یہ مظلوم ڈاکٹر پچاس برس کے قریب عمر میں ڈگری کےعلاوہ شکل سے بھی ماہر دکھائی دینے لگتے ہیں تو ان کی مارکیٹ ویلیو بن جاتی ہے۔ اب وہ دن میں دو تین بجے تک تو سرکاری ہسپتال میں کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد تین چار گھنٹے آرام کرتے ہیں اور اس کے بعد پیسے کمانے کے لئے رات نو دس بجے تک پرائیویٹ ہسپتال میں کلینک کرتے ہیں۔ جب ایک شخص کو ساری زندگی آپ ایک مشین بنا کر رکھیں گے تو وہ بچارہ لطیفوں پر ہنسنے کی بجائے روئے گا نہیں تو کیا کرے گا؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar