(1) میرے گیراج میں ایک اژدہا رہتا ہے


میرے گیراج میں ایک اژدہا رہتا ہے

“واقعی”
“ہاں، کوئی عام اژدہا نہیں، آگ اگلنے والا ۔ ایک ڈریگن”

کسی نے کبھی کوئی ڈریگن نہیں دیکھا۔ آپ مبہوت ہو جاتے ہیں۔ تجسس کے مارے آپ کے قدم اپنے دوست کے گیراج کی طرف بڑھتے ہیں ۔ دوست دروازہ کھولتا ہے۔ آپ ڈرتے ڈرتے گیراج کے اندر قدم رکھتے ہیں ۔ پر یہ کیا ۔ گیراج تو خالی ہے۔ ایک کونے میں آٹے کی ایک بوری، ایک پینٹ کا اسپرے،ایک سیڑھی، ایک بوسیدہ سائیکل  اور ایک حرارت ماپنے کا آلہ پڑا ہے۔ آپ اپنے دوست کی طرف مڑتے ہیں ۔

“اژدہا کدھر ہے؟”

“ اوہ۔ وہ یہیں ہے۔ میں دراصل بتانا بھول گیا تھا کہ یہ ایک نادیدہ اژدہا ہے۔ اس لیے تم اسے دیکھ نہیں سکتے ”
آپ کا دوست آپ کو یقین دلاتا ہے

آپ ادھر ادھر دیکھتے ہیں اور پھر آپ کے ذہن میں اچانک  ایک  خیال آتا ہے
“ کیوں نہ ہم آٹے کو زمین پر پھیلا دیں۔ جب اژدہا زمین پر چلے گا تو آٹے پر نشان بن جائیں گے اور ہمیں اس کی موجودگی کا پتہ چل جائے گا”

آپ کا دوست یوں آپ کی طرف دیکھتا ہے جیسے آپ نے کوئی بچگانہ بات کہہ دی ہو
“ یہ ڈریگن ہے ۔ یہ صرف ہوا میں محو پرواز رہتا ہے۔ میں نے اسے کبھی زمین پر قدم رکھتے نہیں دیکھا”

آپ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ پر ابھی اور راستے ہیں
” تو کیوں نہ ہم حرارت ماپنے والے آلے کو ادھر ادھر لے کر چلیں۔ جب اژدہا آگ اگلے گا تو حرارت پیما پر پتہ لگ جائے گا”

آپ کا دوست اپنے سر پر ہاتھ مارتا ہے ” ارے یار۔ یہ آگ تو اگلتا ہے لیکن اس میں حرارت نہیں ہوتی۔ نادیدہ آگ جو ہوئی”
آپ ابھی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں

“ اچھا ایک کام کرتے ہیں ۔ یہ سپرے پینٹ ہوا میں کرتے ہیں جہاں اژدہا اس وقت تیر رہا ہے۔ پینٹ اس کے جسم پر گرے گا تو ہمیں وہ نظر آ جائے گا”

“خیال تو اچھا ہے” آپ کا دوست تاسف سے سر ہلاتا ہے ” پر اس اژدہے کا جسم غیر مادی ہے اور پینٹ مادہ ہے۔ وہ اس کے آر پار چلا جائے گا اور اس پر چپکے گا نہیں۔ اس لیے یہ نظر نہیں آئے گا”

دیکھیے اب کہانی تقریبا ختم ہو گئی۔ مادی پیمائشوں کو رد کر دیا گیا۔ آپ کے پاس جاننے کا کوئی طریقہ نہیں کہ آپ کا دوست سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔ آپ ایسے اور طریقے سوچتے رہیں جن سے ایک نادیدہ آتش دہن اژدہا دیکھنا ممکن ہو اور آپ کا دوست ہر طریقے کو ایک عجیب و غریب وضاحت سے مسترد کر دے گا۔

اب آپ یہ سوچیے کہ ایک بارد وجود، غیر مادی جسم رکھنے والے نادیدہ اژدہے اور ایسے اژدہے میں کیا فرق ہے جو ہے ہی نہیں۔ لیکن  آپ کا دوست یہ ماننے کو تیار نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ چونکہ آپ یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ اژدہا موجود  نہیں ہے اس لیے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اژدہا موجود ہے بے شک اسے دیکھنا، اسے محسوس کرنا یا اس کے وجود کی پیمائش کرنا ناممکن ہو۔ یا یہ کہ اگر وہ اسے ثابت نہیں کر پایا تو آپ بھی اسے مسترد کرنے میں ناکام ہیں۔

یہ مثال مشہور مصنف اور سائنسدان کارل سیگان نے اپنی کتاب “توہمات کی دنیا” میں تحریر کی تھی۔ سیگان کے نزدیک جو شے کسی تجربے یا شہادت پر پرکھے جانے کے قابل نہ ہو، اس کو ثابت نہیں کیا جا سکتا پر ہماری دنیا میں اس پر یقین کیا جاتا ہے۔ لوگ اس یقین کے داعی بھی ہوتے ہیں اور اس کے اثبات پر مصر بھی رہتے ہیں۔ اس سے بھی ایک قدم آگے اگر آپ یہ کہیں کہ کم ازکم موجودہ شہادت اس اژدہے کے لیے کافی نہیں ہے تو وہ باقاعدہ ناراضگی کا اظہار کریں گے۔ آپ کے انکار کو استہزاء، تمسخر اور بدگمانی سے تعبیر کریں گے اور آپ کو اس بات کا مشورہ دیں گے کہ آپ کو ان کے اژدہے کی تحقیر کا کوئی حق نہیں پہنچتا ۔ آپ کو اژدہے کا احترام کرنا چاہیے۔

اب یہ سوچیے کہ صرف ایک دوست نہیں، محلے کے کئی لوگ یہ دعوی کریں کہ ان کے گیراج میں بھی ایسا ہی ایک اژدہا ہے۔ اب آپ چکرا جائیں گے۔ کیا یہ سب لوگ جھوٹے ہیں ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ واقعی اژدہا موجود ہو۔ کچھ دن بعد ایک گیراج میں اژدہے کے زمین پر پڑے آٹے پر بنے نشانات کے بارے میں کوئی بتائے گا مگر یہ نشان اس وقت نہیں بنیں گے جب آپ جیسا کوئی شکی اس کے ہونے کا انتظار کیے وہاں کھڑا ہو گا۔ دو روز اور گزریں گے تو ایک شخص اپنی سوختہ انگلی لیے حاضر ہو گا اور دعوی کرے گا کہ یہ اس نادیدہ آگ کی وجہ سے جلی ہے جو اژدہا اگلتا ہے۔ پر ایسا بار بار نہیں ہو گا کیونکہ اب اگر آپ اپنی انگلی لیے گیراج پہنچیں گے تو اژدہا دوبارہ اپنی آگ کو بے تپش کر چکا ہو گا۔  ایسی کوئی بھی شہادت ایک ایسے ذہن کے لیے جو اژدہے میں یقین نہیں رکھتا کافی نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ شہادت ایک کنٹرولڈ ماحول میں دہرائی جانا ممکن نہیں تو آپ اژدہے کے وجود پر کیونکر اعتبار کریں۔ ہاں، آپ یہ ضرور سوچیں گے کہ بظاہر اتنے عقلمند نظر آنے والے اتنے بہت سے لوگ اژدہے پر کیونکر “یقین” رکھتے ہیں۔

اچھا چلیے اژدہا ہے یا نہیں۔ اس سے آپ کی صحت پر کیا فرق پڑتا ہے۔ شاید عام حالات میں کوئی نہیں۔ اگر میرا ہمسایہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے گیراج میں ایک نادیدہ اژدہا موجود ہے تو اس سے میری زندگی کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آئے گا لیکن ایک لحظہ ٹھہریے۔ کل اگر وہ سڑک پر آپ کی گاڑی روک لے کہ اس کا اژدہا سڑک عبور کرنا چاہتا ہے تو پھر۔ یا آپ سے یہ مطالبہ کرے کہ رات کو آٹھ بجے تک آپ اپنی روشنیاں گل کر دیں کیونکہ گیراج کے روشندان سے آپ کی روشنیاں اژدہے کی نیند میں خلل ڈال رہی ہیں۔ اب اژدہا صرف اس کے گیراج تک مقید نہیں رہا۔ اس نے آپ کی زندگی میں دخل دینا شروع کر دیا ہے۔ آپ اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے جذبات پھر سے مجروح ہو جاتے ہیں کہ آپ نے اس کے اژدہے کا انکار کیسے کیا۔ مسئلہ دلیل کا نہیں ہے اس کے جذبات کا ہے۔ اب آپ بے بس ہیں۔ بتائیے کیا کریں گے۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad