اسپتالوں کے باہر زچہ خانے


پنجاب میں اسپتال کے باہر تیسرے بچے کی پیدائش کی خبر نے میڈیا کو ایک بار پھر ہلا دیا ہے۔ یہ واقعہ فیصل آباد میں پیش آیا۔۔۔ جہاں ٹی ایچ کیو تاندلیانوالہ اسپتال میں حاملہ خاتون کو اسپتال انتظامیہ نے داخل کرنے سے انکار کردیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ خاتون کا پہلے سے نام نہیں لکھوایا گیا تھا۔ خاتون نے ایمبولنس کے باہر ہی بچے کو جنم دیا۔

 اس سے پہلے لاہور کے سر گنگا رام اسپتال میں خاتون نے ٹھنڈے فرش پر بچے کو جنم دیا تھا کیونکہ اسے ڈاکٹرز کی سہولت میسر نہیں تھی۔ ڈاکٹرز ڈیوٹی پر ہی موجود نہیں تھے۔

رائے ونڈ کی تحصیل ہید کوارٹر اسپتال میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آ چکا ہے۔ کچھ عرصے قبل ہی کنری کے ایک گاؤں میں حاملہ خاتون کو جب اسپتال لے جایا گیا تواسپتال انتظامیہ نے خاتون کو دھتکار دیا کیونکہ اسپتال میں خون کی سہولت موجود نہیں تھی۔

یہ پاکستان ہے، یہاں خواتین اسپتالوں میں نہیں بلکہ رکشوں، سڑکوں اور اسپتالوں کے باہر بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ یہاں مسیحا جان نہیں بچاتے بلکہ آئے روز ہڑتال پر جاتے ہیں۔ کوئی مریض جاں بلب ہو لیکن ان کی بلا سے۔

اسپتالوں کے باہر بچے جننے والی کئی خواتین جس کرب اور تکلیف سے گزر چکی ہیں وہ الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ ڈاکٹرز اور اسپتال انتظامیہ کے اس سلوک کو انسانیت کی تذلیل اور بے توقیری کہا جائے یا پھر اربابِ اختیار کی لاپرواہی، ایسے موقعوں پر نہ عرش ہلتا ہے نہ زمین میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ اور نہ ہی ایوانوں میں بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کی زبانوں میں لکنت آتی ہے۔

ذرا سوچیے یہ پیدا ہونے والے بچے جب بڑے ہوں گے تو کیسا محسوس کریں گے کہ انہوں نے سڑک پر جنم لیا۔ اسپتال کے باہر جنم لیا، یہ بچے بڑے ہو کر کیا یہ سوال نہیں کریں گے کہ کیا ہم کے آزاد شہری نہیں تھے جو ہمیں پیدا ہونے کے لئے بھی اتنی ذلت کا سامنا کرنا پڑا؟ کیا ہم اب بھی انگریزوں کی غلامی کے دور میں جی رہے ہیں؟

انگریزوں کی بات کریں تو کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکا، کینیڈا اور برطانیہ سمیت ایسے کئی یورپی ممالک ہیں جہاں ایک غیر ملکی بچے کی پیدائش پر اسے اس ملک کی شہریت دے دی جاتی ہے، یہی نہیں ساری زندگی تعلیم اور صحت کی سہولیات اسے مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ اسے اس ملک کا شہری تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جہاں اسپتال اور سہولیات کے باوجود آئے روز ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔

 ڈاکٹرز جنہیں مسیحا کہا جاتا ہے شائد اب مریضوں سے زیادہ اپنی فکر کرنے لگے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز کو دیکھ کر آدھی بیماری دور ہو جاتی ہے لیکن جہاں ڈاکٹرز ہی دھتکار دیں تو پھر مریض کہاں جائیں۔

مانا کہ ملک کو دہشت گردی، انتہا پسندی، غربت اور کرپشن جیسے مسائل کا سامنا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی مسائل کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ خواتین کسی بھی معاشرے کا اہم جز ہوتی ہیں ان کی گودوں میں مستبقل کے معمار پلتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی ایسا سلوک معاشرے کی زبوں حالی کی تباہ کن مثال ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).