کچھ دل کی باتیں۔۔۔۔۔۔


درد دل کی شریانوں کی بندش کے سبب ہو یا وہ جسے شاعر کہتا “رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا۔۔ تکلیف دہ دونوں ہوتے ہیں۔ تاہم یہ جو شاعرانہ درد ہے اس میں بقول میر لذت پائی جاتی ہے۔ کچھ گواہی آپ بھی اپنے دلوں سے لیجیے۔ یاد کیجیے کسی چلمن کی اوٹ سے جھانکتی آنکھیں، کتاب میں رکھے سوکھے پھول، یونیورسٹی کے سیڑھیوں پر بیٹھے خوبصورت ہاتھ میں تھامے کسی گندے کپ کی یاد، کسی بے قیمت ٹوٹے بریسلٹ کا وہ کالا دھاگہ، کسی ٹشو پیپر میں بسے خوشبو کے چند جھونکے، ہر یاد کے ساتھ کچھ نہ کچھ میٹھا سا احساس ضرور ہو گا۔ (بھائی! سٹاربکس، گلوریا جینز اور کافی پلینٹ میں بیٹھے ڈٹرمنزم، کوانٹم تھیوری یا میورل لینڈ سکیپ ڈسکس کرتے بچوں سے معذرت کہ ہم نائنٹیز کے بچوں کا سرمایہ یہی جھانکتی آنکھیں، کالے دھاگے، سوکھے پھول ہوا کرتے تھے اور ڈسکس کرنے کو قدرت اللہ شہاب کا نائنٹی)۔ البتہ شریان کی بندش والے درد میں بس نری تکلیف ہوتی ہے۔

ہوا یوں کہ جم سے نکلے، اچھا سنیئے! بھائی میرا جم میں پہلا دن نہیں تھا، وسی بابا کا پہلا دن تھا۔ میرے اور جم کے اچھے برے مراسم برسوں پر محیط ہیں، تو پانی کی طلب ہوئی۔ پانی اٹھایا۔ گاڑی میں آکر وسی کو بتایا کہ سینے میں تکلیف سی محسوس رہی ہے۔ وسی نے حسب عادت کوئی نواں سنڈا کھولا۔ میں گاڑی چلاتا رہا۔ تکلیف بڑھتی گئی۔ کوئی دو کلومیٹر بعد گاڑی چلانا محال ہو گیا تو گاڑی سائیڈ پر لگا کر وسی کو کہا کہ گاڑی چلا اور ہسپتال چل۔ وسی جتنی تیز چلا سکتا، اتنی تیز چلا کر ہسپتال پہنچا۔ وسی کو گاڑی کا ریموٹ تھمایا اور خود باہر کھڑے گارڈ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کہا اندر لے کے جا۔ اندر پہنچے تو حسب معمول نفسانفسی کا عالم تھا۔ کاوئنٹر والے بابو نے کہا فارم بھرو۔ ٹیلی فون نمبر بتاؤ؟ رجسٹریشن ہے یا نہیں؟ ایسے میں نظر ایک ڈاکٹر پر پڑی۔ اسے اشارے سے معاملے کی نزاکت سمجھائی۔ بھلا آدمی سمجھ گیا۔ فورا ہاؤ ہو شروع ہوئی۔ ای سی جی، بلڈ سیمپل، انجکیشنز۔۔ اس بیچ وسی پہنچ گیا۔ اسے بٹوہ تھمایا۔ کارڈ کا پن نمبر بتایا۔ وسی نے کچھ مذاق بھی کیا کہ درد کی مزید شکایت کی تو دو مکے رسید کروں گا۔ دل میں میرے بھی آیا کہ بابا جی آج اپنی محبوبہ گاں سمجھ کر معاف کر دو مگر بولا نہیں جا رہا تھا اس لئے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔ فرنود عالم آیا۔ تنویر جہاں پہنچیں۔ یہاں سے آئی سی یو شفٹ کیا۔ یار بیلی سب پہنچ گئے تھے مگر اندر آنے نہیں دیا گیا۔ رات دو بجے تک درد میں کمی آئی۔ اچانک محسوس ہوا جسے کوئی دل کو مسل رہا ہے۔ سانس بند ہوتی محسوس ہوئی۔ بس اتنا یاد ہے کہ سٹاف ممبر سارے چلا رہے تھے۔ ڈاکٹر حسیب نامی ایک نوجوان شاید ابن مریم ثابت ہوئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اصل اٹیک اسی وقت ہوا تھا اور ہارٹ ریٹ 20 تک گر گیا تھا۔ خیر واپس پلٹ آئے کہ یہی زندگی کے جھمیلے ہیں۔

بعد کی کہانی مختصر ہے۔ اڑتالیس گھنٹے آبزویشن میں رکھا۔ پھر گھر جانے کی اجازت اس شرط پر دی کہ سٹریس نہیں لینا۔ فون استعمال نہیں کرنا۔ چلنا نہیں ہے۔ بولنا نہیں ہے۔ عرض کی ڈاکٹر صاحب! صاف بولو کہ جینا نہیں ہے اور میرا ابھی ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اب آگے روٹین کے معاملات ہیں۔ اینجیو گرافی ہو گی تو علم ہو گا کہ اینجیو پلاسٹی سے ہی کام چل جائے گا یا کوئی سپرنگ وغیرہ بھی ڈلے گا۔

یہ تو ہوگئی داستان مگر اس داستان کے ساتھ جڑی ہیں کئی کہانیاں۔ محبتوں کی کہانیاں۔ بے لوث محبتوں کی کہانیاں۔ سب نام لکھوں گا تو انصاف نہیں کر پاوں گا۔ “ہم سب” تو خیر ایک فیملی ہے۔ یہاں تنویر جہاں اور لینہ حاشر جیسی بہنیں موجود ہیں۔ میری تو مائیں بھی ہیں۔ آپ اپنا ہاتھ اٹھا کر خود ہی کسی اژدھے کے منہ میں پھنسا دیں اور پھر آواز دیں تنویر جہاں! اب اژدھے کا منہ ہو یا شیر کا جبڑا، چھڑانا تنویر جہاں کا کام ہے۔ آپ جنت کی کسی نعمت کی آرزو کریں اور آواز دیں لینہ حاشر! اب جو تڑپ ایک مامتا کی اپنے شیرخوار کے لئے ہوتی ہے وہی محبت اس ماں کی آپ کے لئے ہو گی۔ یہاں وجاہت مسعود ہیں۔ وجاہت مسعود سے اتفاق یا اختلاف ہر کسی کا حق ہے مگر ان کے دوست دشمن یکساں تسلیم کرتے ہیں کہ وجاہت مسعود بڑے عالم ہیں۔ وجاہت مسعود برونو مسعود اور کامنی مسعود کے والد ہیں۔ جو بدتمیزیاں، جو لاڈ پشین سے آیا ظفراللہ، وجاہت مسعود کے ساتھ کرتا ہے وہ کامنی اور برونو کہاں کرتے ہوں گے۔ یہاں حاشر ابن ارشاد ہیں۔ یہ میرے لئے قدرت کا فار گرانٹڈ تحفہ ہیں۔ یہ بھائی ہیں۔ دوست ہیں۔ مشیر ہیں۔ سب کچھ ہیں۔ بس آپ کو جو بھی مسئلہ ہو آپ حاشر سے کہہ دو اور خود بھلے بیٹھ کر سوٹے لگاتے رہو( جو اب سختی سے ممنوع ہیں) حاشر جانے اور آپ کا کام جانے۔ کوئی آپ سے پوچھے آپ نے محبت کو انسانی شکل میں دیکھا ہے؟ آپ کہیں روز دیکھتا ہوں۔ صبح فرنود عالم کی شکل میں ملنے آتا ہے۔ شام کو وقار ملک کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور میہنے بعد جب لاہور جاتا ہوں تو محبت جمال میں بدل کر حسنین جمال کی صورت اختیار کرتی ہے۔ محبت کا انسانی روپ لائل پور کا پانچواں درویش ہے جسے لوگ حسن معراج کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ سید مجاہد علی، عثمان قاضی، عاصم بخشی، رامش فاطمہ، عدنان کاکڑ، اختر علی سید، نور الہدی شاہ، لبنی مرزا اور جانے کس کس شکریہ ادا کروں۔

لاہور میں دو درویش رہتے ہیں۔ عمران اور شاہد صاحب۔ سراپا محبت، سراپا نیکی۔ ان کے بارے میں کیا کہوں؟ بولان میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں میرا ایک بلوچ دوست رہتا تھا۔ جب بھی جانا ہوتا تو وہ ہاسٹل کے باہر کھڑا ہوتا ایک ہندو ودیارتھی کی طرح ہاتھ سر کے اوپر باندھ کر پرنام کرتا۔ میں شرمندہ سا ہو کر اسے کہتا واجا ایسا مت کرو یار۔ کہتا، سائیں میرا تو دل کرتا کہ تمہارے قدموں کے نیچے اپنی ہتھیلیاں رکھوں۔ بس ادھر کالج میں ذرا لیڈری کی ٹور بنی ہے تو خیال کر لیتا ہوں۔ اپنی تو ٹور بھی کوئی نہیں بنی۔ لاہور کے درویشوں کے لئے ہاتھوں اور ہتھیلیوں کا پرنام۔

زنیرہ ثاقب جب کہتی ہیں ظفر بھائی تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کہہ رہی ہوں حاشر بھائی۔ عامر عبداللہ انسان کی صورت میں زمین پر فرشتہ ہیں۔ احسان اللہ خان دل من، یار من ہے۔ جواد غامدی دل دریا سمندر کا بہروپ ہے۔ کس کی ہمت ہے کہ آئی سی یو میں پڑے بھائی کو ڈانٹ سکے کہ موٹو میں نے کہا تھا نا کہ سیگریٹ چھوڑ دے؟ یہ کام صرف زینب ڈار کر سکتی ہیں۔ رامش فاطمہ ملتان سے مزاج پرسی کو آنا چاہتی ہیں۔ عمر خان، انعام رانا، ابو علیحہ، عزیر سالار، طیب علی شاہ، ندیم اختر، سید سمیع، معارض، خرم مشتاق، حنا جمشید، امتیاز احمد، سبوخ سید، مجاہد حسین، کوثر آپی، ڈاکٹر عائشہ میمن، تمینہ مرزا، وقاص گورایہ، عامر طاسین، جاوید عابد، حمیرا گل، ام سلمی، ثنا بتول، جمشید اقبال، اکمل محمود، ام سلمہ، نوائے زیست، عابد رندھاوا، خواجہ جاوید، خواجہ کلیم، اسمہ درانی، مونا رضا، طارق عزیز، فائزہ افتخار کس کس کا نام لکھوں؟

عزیز میرا چھوٹا بھائی ہے۔ کوئٹہ میں ہوتا ہے۔ اسے فیس بک کے توسط علم ہوا۔ فون آیا تو اس کی آواز رندھ گئی۔ کہنے لگا، میں کل پہنچنے والا ہوں۔ میں نے منع کر دیا۔ بھلا اتنے سارے اپنوں کے بیچ ہوتے ہوئے چھوٹے بھائی کو کوئٹہ سے بلانے کی کوئی ضرورت تھی؟

وسی بابا نے دوسرے دن بتایا کہ دوست دشمن سب حال پوچھ رہے تھے۔ وسی نے یہ روایتی جملہ کہا۔ دشمنی پر تو ہم یقین نہیں رکھتے۔ فکر کا اختلاف ہو سکتا ہے۔ ایک مثال دیکھ لیجیے۔ جس دن میں بیمار ہوا اسی دن آصف محمود کے جواب میرا کالم چھپا تھا۔ تھوڑا سخت بھی ہو گا۔ آصف محمود صاحب سے میری ایک دو رسمی ملاقاتیں ہیں۔ میرے تو فون بند تھے۔ برادرم آصف محمود نے وسی بابا کو کئی فون کئے تاکہ میری عیادت کر سکے بلکہ اپنی حد تک ہر ممکن مدد کا پیغام بھیجا ۔ اس طرح کے دوستوں کی طویل فہرست ہے جن سے نظری و فکری اختلاف رہتا تھا مگر انباکس عیادت اور نیک تمناؤں کے پیغامات سے بھرا ہوا ہے۔

میں جنگ کو وحشت سمجھتا ہوں۔ میں بے نام زمین کے کسی ٹکڑے کے لئے ہزاروں بیٹوں کا خون بہانا جرم سمجھتا ہوں۔ میں انسانوں کے بیان کردہ کسی ماورائی آدرش کی تکمیل کے لئے انسانوں کو باردو میں جلانا غلط سمجھتا ہوں۔ میں زمین پر پھیلے تمام انسانوں کو ایک کنبہ سمجھتا ہوں۔ میں کسی انسان کے دوسرے انسان پر عقیدے، رنگ، نسل، جنس، قوم، قبیلہ، زبان یا ملک کی بنیاد پر برتری کا قائل نہیں ہوں۔ میں محبت کو انسانیت کی معراج سمجھتا ہوں۔ آپ ان خیالات کی بنیاد پر مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ آپ اپنے دلائل رکھ سکتے ہیں۔ اس میں دشمنی کا کیا سوال۔ میں دشمنی پر یقین نہیں رکھتا۔ کہیں پڑھا تھا، ” میں اچھا ہوں مگر فرشتہ نہیں ہوں۔ میں برا ہوں مگر شیطان نہیں ہوں۔” میں انسان ہوں کچا پکا، آدھا ادھورا۔

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اس سماج میں ایک دریائے آشوب کے کنارے کھڑا ہوں۔ مجھے اپنے درست ہونے کا کبھی زعم نہیں رہا۔ تاہم مقدور بھر کوشش صرف اتنی ہوتی ہے کہ اس آشوب زدہ زمین میں مسکراہٹ کے کچھ بیج بوئے جا سکیں تاکہ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے لئے ہنسنے کا سامان بن سکیں۔

میں اپنے تمام دوستوں کا انتہائی شکرگزار ہوں۔ عرض کرنا صرف یہ مقصود ہے کہ زندگی میں انسان کچھ اور کمائے، نہ کمائے لیکن اگر محبت کما لے تو گویا زندگی سپھل ہو گئی۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah