اسلامسٹ احباب سے دس سوال (2)


گذشتہ قسط میں بحث یہ رہی کہ ہم سیاسی اصطلاحات کو من مانے اور مفید مطلب معنی پہنا دیتے ہیں۔ بغیر کسی واضح مفہوم کے یہ اصطلاحات اجتماعی مکالمے کا حصہ بنتی ہیں تو رائے عامہ گمراہ ہوتی ہے۔ اب دیکھیے، سامراج تو ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا ایک تاریخی تناظر ہزاروں برس پر پھیلا ہوا ہے۔ ایک خاص مفہوم پچھلے ایک ہزار برس کی یورپی تاریخ میں جڑیں رکھتا ہے اور اس اصطلاح کو مارکسی فکر نے بیسیویں صدی میں ایک خاص رنگ دیا۔ محمد حسن عسکری نے لکھا تھا کہ ترقی پسند مصنف کو نالی کے کنارے پڑا مردہ چوہا بھی نظر آ جائے تو وہ سامراج کے خلاف دو گالیاں جھاڑ دیتا ہے۔ افغان جہاد کے دوران ہم نے سامراج کا خطاب روس کے لیے رکھ چھوڑا تھا اور یہ مفہوم دینے والے مہربان وہی تھے جو آج کل روس کے صدر پوتن کو چھینک آنے پر وضاحت کرتے ہیں کہ اس سے پاک روس دوستی کے راستے ہموار ہوں گے۔

لکیر کی دوسری طرف بائیں بازو کے سرفروش تھے۔ جو جنگ ویتنام کے تناظر میں امریکہ کو سامراج قرار دیتے تھے۔ کئی دہائیوں تک ماسکو اور پیکنگ میں کٹا چھنی کی فضا رہی۔ عین مین یہی نقشہ تھا جو آج کل ایران اور سعودی عرب میں ہے۔ ترے درویش بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا۔۔۔ بائیں بازو کے اساتذہ نے کبھی واضح نہیں کیا کہ پیکنگ اور ماسکو ایک دوسرے کو سامراج کہتے ہیں تو کارل مارکس مرحوم کو کس کھاتے میں رکھا جائے گا۔ بہرحال یہ طے ہے کہ آج کل پاکستان میں سرکاری موقف امریکہ سے شکوے شکایات رکھتا ہے۔ چنانچہ امریکہ عصر حاضر کا سامراج ہے۔  لاہور کی مال روڈ پر ون ویلنگ کرنے والا نوجوان بھی امریکی سامراج پر چڑھ دوڑنے کے تصور سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کی پہلی اینٹ بیرونی سہاروں کی امید پہ رکھی تھی۔ پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کو کمیونسٹ دنیا اور آزاد دنیا یعنی سرمایہ داری کے درمیان حد فاصل سمجھنے کا مطلب تھا کہ ہمیں خود کفالت کے بجائے دریوزہ گری میں دن گزارنا ہیں۔ سامنے کا راستہ تو پارلیمانی جمہوریت کا تھا۔ جس میں وفاق کی سلامتی تھی۔ حکمرانی میں عوام کی شرکت تھی اور اقتصادی سرگرمیوں کی مدد سے عام آدمی کا معیار زندگی بہتر کیا جا سکتا تھا۔ ایک نسخہ ہمارے ترقی پسند دوست بتاتے تھے اور وہ یہ تھا کہ پاکستان کی ریاست قائم ہوئی ہے، عوام آزاد نہیں ہوئے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ حکومت کا تختہ الٹ کر مفروضہ پرولتاریہ کی آمریت قائم کر دی جائے۔ اسی سوچ سے راولپنڈی سازش پر غور و فکر کا راستہ نکلا۔ یہ الگ بحث ہے کہ پرولتاریہ کی تعریف پر اتفاق نہیں تھا۔ نیز یہ کہ 1951ء میں بائیں بازو کی قیادت سوویت یونین کے بارے میں اتنا ہی جانتی تھی جتنا 1989ء میں کامریڈ جمال نقوی جانتے تھے۔ ایم این رائے نے تو سٹالن کی آنکھین دیکھ رکھی تھیں، بھلے آدمی کچھ ان سے پوچھ لیا ہوتا۔ کمنٹرن میں روسی وفد کی قیادت کے باوجود  1927 میں ایم این رائے سٹالن کے قہر کی جھلک دیکھ کر فرار ہو گئے تھے اور پرولتاری آمریت کے شکنجے پر برطانوی راج کی قید کو ترجیح دی۔

پاکستان میں اسلامی سوشل ازم کی اصطلاح پہلے پہل لیاقت علی خان نے استعمال کی۔ قائد ملت شہید اپنی سیاسی گلوری پر ایک خاص ترتیب سے جمہوریت، تعلقہ داری، خلافت اور سوشلزم کا چونا کتھا لگاتے تھے۔ سیاسی اصطلاحات کی صراحت خان صاحب کا خاصا نہیں تھا۔ لیاقت علی خان جب اسلامی سوشلزم کا نام لے رہے تھے تو چودھری خلیق الزمان بلاد عرب میں پین اسلامزم تلاش کر رہے تھے۔ علامہ اسد اسلامی تعلیمات بورڈ میں اسلامی مملکت کے خدوخال پر غوروفکر کر رہے تھے۔ شبیر احمد عثمانی قرارداد مقاصد کی نوک پلک سنوار رہے تھے اور پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر کی ہدایت پر ایک بریگیڈئیر (نوابزادہ شیر علی خان) اور ایک میجر (یحیی خان) پاکستانی فوج کا مذہبی تشخص طے کر رہے تھے۔ حوالے کے لیے دیکھیے نظریہ پاکستان کے خالق لیفٹنٹ جنرل شیر علی خان کی خودنوشت۔

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ نظریہ پاکستان کی کوئی تعریف موجود ہوتی تو حیدر آباد ٹریبیونل میں عبدالولی خان کو بتا دی جاتی۔ اب تو خدا کے فضل سے نظریہ پاکستان کے شارح کیپٹن صفدر ہیں۔ اسلام اور سوشلزم کی بحث نے ساٹھ کی دہائی میں فیصلہ کن رخ اختیار کیا۔ ہفت روزہ نصرت کے “اسلامی سوشلزم نمبر” کا مطالعہ مفیدمطلب ہو گا۔ ایک طرف کراچی کے ایک نودولتیا سیٹھ اے کے سومار تھے اور دوسری طرف صفدر میر اور حنیف رامے، تب سوال اٹھایا گیا تھا کہ اسلام جیسے کامل مذہب میں سوشلزم کی پخ کیوں؟ اس کے جواب میں مولانا جعفر شاہ پھلواری نے تاریخ اسلامی سے ابوذر غفاری (رضی اللہ عنہ) کے سوانح کو طبقاتی رنگ دیا۔ فروری 1970ء میں 113 علما نے سوشلزم کو کفر قرار دیا تھا۔ انتخابات میں اسلام پسند شکست کھا گئے اور سوشلسٹ سیاسی سوچ کامیاب رہی۔ سلیم احمد مرحوم نے ایک طویل نوحہ لکھا تھا، مشرق ہار گیا۔ جماعت اسلامی کے احباب شدومد سے کہا کرتے تھےکہ بے شعور عوام میں صالح قیادت کو پہچاننے کی صلاحیت ہی نہیں۔  بالکل ایسے ہی جیسے آج کل تحریک انصاف کے حامی عوام کی بے شعوری سے نالاں ہیں۔

حقیقت یہ تھی کہ مذہب کی جیسی کچھ پاسداری جماعت اسلامی میں تھی، پیپلز پارٹی کا سوشلزم بھی کم و بیش ایسا ہی استوار تھا۔ جے اے رحیم، خورشید حسن میر، معراج محمد خان، ڈاکٹر مبشر حسن اور مختار رانا کے علاوہ ہشت نگر کے کسانوں اور سائٹ کراچی کے مزدوروں نے بھی پیپلز پارٹی کے سوشلزم کو بخیروخوبی ملاحظہ کیا۔ 1977 آتے آتے بازی پلٹ گئی، اسلام پسندوں کو ضیا آمریت میں پناہ مل گئی اور سوشلسٹ عناصر جمہوریت کے جھنڈے تلے عقوبتیں جھیلتے رہے۔ تاریخ کا کوئی معمولی طالب علم بھی دیکھ سکتا ہے کہ مذہب اور سیاست کو خلط ملط کرنے سے کیا نتائج برامد ہوئے نیز یہ کہ اتھلی انقلاب پسندی سے کیا نتیجے نکلے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).