میرے گیراج میں ایک اژدہا رہتا ہے (2)


یہ اژدہا ایک یقین ہے۔ ایک گمان ہے۔ غیر مرئی ہے۔ اسے عقل سے سمجھنا اور دلیل کی کسوٹی پر پرکھنا ممکن نہیں ہے تاوقتیکہ اس دلیل کی بنیاد بذات خود اس قیاس پر استوار نہ ہو کہ نادیدہ اژدہا ممکنات میں سے ہے۔ عقیدہ ہے کیا؟ لغوی طور پر تو اس کا مصدر عقد ہے جس کا مطلب باندھنا ہے۔ عقیدہ بعینیہ ایسے خیالات پر مشتمل ہے جو آپ کو باندھ کر رکھتے ہیں۔ عقائد کی درستی یا غلطی موضوع بحث نہیں کیونکہ یہ بات ہر کوئی سمجھتا ہے کہ عقائد کا کوئی آفاقی معیار تو ہے نہیں۔ ہر ایک عقیدے کے پیروکار اپنے کو درست اور ہر دوسرے عقیدے کے ماننے والوں کو غلط سمجھتے ہیں وگرنہ تبلیغ کے دائرے میں ان کا اپنے نظریات کی حقانیت پر اصرار مشکوک ٹھہرتا ہے۔ یہ اختلاف اکثر اوقات متشدد راستے بھی اختیار کر لیتا ہے۔ ہم نے تو آج تک عقائد کی نہ کوئی خوشگوار باہمی بحث دیکھی ہے نہ ہی کبھی کسی ایسی بحث میں ایک فریق کو قائل ہوتے دیکھا ہے۔ ہمارا موضوع تو بس یہ ہے کہ کیا نظریات کو تقدیس کا لباس پہنانا ضروری ہے کہ نہیں اور کیا عقائد پر ایک عمومی تنقید کو برداشت کرنا ہمارے معاشرے کے لیے ممکن ہے۔

بندھے ہونے کی تعریف سے متعلق ہمیں ہمیشہ اوڈرووسکی کا قول یاد آ جاتا ہے کہ پنجرے میں پیدا ہونے والا پرندہ پرواز کو بیماری سمجھتا ہے۔ ہم اپنے ماحول میں موجود عقائد کے پنجرے میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ عقائد معاشرتی یا ثقافتی بھی ہو سکتے ہیں لیکن زیادہ تر ان کی جڑیں ذہنی ترجیحات میں پیوست ہوتی ہیں۔ اور پھر ہم اپنی تمام عمر ان پنجروں میں گزار دیتے ہیں۔ جو پنجرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرے، اس کو باقی ٹھونگیں مار مار اتنا زچ کرتے ہیں کہ وہ یا تو تائب ہو جاتا ہے یا پھر صفحہ ہستی سے غائب ہو جاتا ہے۔ یہ نادیدہ پنجرے ہیں اور انسانی پیروں میں پڑی بیڑیاں بھی نظر نہیں آتیں لیکن اس کے باوجود یہ ٹھوس دیواروں اور لوہے کی زنجیروں سے زیادہ مضبوط ہیں۔ علم کی ترویج شاید وہ واحد ہتھیار ہے جس سے اس زنداں کی دیواروں میں شگاف ڈالنا ممکن ہے۔

اندھا یقین اور عقلی استدلال باہم متصادم ہیں۔ ایقان کو دلیل سے بھی نفور ہے لیکن صاحبان ایقان اصرار کرتے ہیں کہ ان کا یقین دلیل کی کسوٹی پر پرکھا بھی جا سکتا ہے اور عقل اسے تسلیم کرنے پر مجبور بھی ٹھہرے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ممکن ہے تو پھر ایقان کو تقدیس کی ٹوپی پہنانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ ایقان کے تحفظ کے لیے جذبات کی بھٹی کیوں بھڑکائی جاتی ہے۔  ایقان کا دعویٰ رکھنے والے آخری تجزیے میں تلوار پر ہاتھ دھرے کیوں ملتے ہیں۔ ایقان کو جبر کا سہارا کیوں لینا پڑتا ہے اور کیا کبھی ایقان نے دلیل کے ہاتھوں خوش دلی سے شکست تسلیم کی ہے یا نہیں۔

میں اپنے دل پر رکھ کر بات کرتا ہوں۔ میرا ایک نظریہ ہے۔ اس پر زید کوئی بات کرتا ہے جو میری سوچ سے متصادم ہے۔ میں زید سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ میرے نظریے کا احترام کرے۔ پر اس مطالبے کے لیے میرے پاس کیا دلیل ہے۔ یہ طے ہے کہ زید سے میرا یہ مکالمہ لامحالہ ایک عقلی یا شعوری سطح پر ہے کیونکہ میں زید کے شعوری وجود سے مخاطب ہوں۔ اگر زید مر جاتا ہے یا کسی بنا پر طبی طور پر فاتر العقل قرار پاتا ہے تو اس کا شعوری وجود ختم ہو گیا ہے اور اس سے کوئی بھی مطالبہ لاحاصل ہے۔ اور اگر میں زید سے یہ مطالبہ کرتا ہوں اور اس کے عقلی دلائل کو اہمیت نہیں دیتا تو یا تو میں اسے فاترالعقل سمجھتا ہوں یا میں خود فاتر العقل ہوں۔ ان دونوں صورتوں میں یہ مطالبہ بذاتہ بیکار ہے۔

بات طبعیاتی ہو یا مابعد الطبیعیاتی، زید اسے اپنی عقل پر ہی پرکھے گا۔ اس کے سوا انسانی تاریخ میں اور کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا۔ یہ عقلی پیمانہ ہر شخص کا مختلف ہو سکتا ہے۔ حتی کہ تاریخ میں گزرنے والے اوتاروں کی دعوت بھی عقلی پیمانے پر ہی تھی۔ انہوں نے لوگوں کے شعوری وجود کو مخاطب کر کے ایک پیغام ان کے سامنے رکھا تھا اور اس کے حق میں دلائل دیے تھے۔ عقلی استدلال سے استثنیٰ تو انہیں بھی حاصل نہیں تھا۔ کسی اور کے لئے اس حق کا مطالبہ مضحکہ خیز ٹھہرے گا اگر وہ اس کے حق میں معروضی طور پر قابل تصدیق دلیل لانے سے قاصر ہے۔

اگر میں زید کو عقلی سطح پر قائل کرنے میں ناکام رہتا ہوں تو میرے پاس کیا بنیاد ہے جس پر میں اسے یہ تو کہوں کہ تم بے شک یہ بات نہ مانو مگر اس کا احترام کرو۔ فرض کیجیے میں اپنے نظریے کے نام پر قتل و غارت کو جائز سمجھتا ہوں مگر زید کو قائل کرنے میں کسی بھی شعوری سطح پر ناکام رہتا ہوں تو زید سے یہ توقع کیوں رکھوں کہ کل اگر میں کسی انسان کو قتل کرتا ہوں تو زید محض ازراہ احترام اس بارے میں کوئی بات نہ کرے۔

جو ذاتی نظریات آپ کی ذات تک محدود رہتے ہیں ان پر تو کسی کو زید سے بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ مثال کے طور پر میں یہ نظریہ رکھتا ہوں کہ میری دائیں آنکھ کے پھڑکنے کا مطلب ہے کہ آج کا دن برا گزرے گا تو اس پر زید سے بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ بات تو صرف ان موضوعات پر ہوگی جن میں بات بڑھ کر زید کے دروازے تک بھی پہنچے گی۔ میں اپنی ذاتی سوچ کی بنیاد پر زید سے یہ مطالبہ کیسے کروں گا کہ وہ بھی تسلیم کرے کہ آنکھ پھڑکنے کا مطلب بدشگونی ہے اور اس کا مخالف نقطہ نظر بیان نہیں کرنا چاہیے تاوقتیکہ میں اسے کسی دلیل سے قائل کر سکوں کہ میری سوچ درست ہے۔ زید کے لیے یہ دلیل بے معنی ہے کہ میں داخلی طور پر اس بات کا یقین رکھتا ہوں یا میرے نظریات کی رو سے یہ درست ہے۔

تقدیس کے بلا امتیاز احترام کے مطالبے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے ایقان کے ابلاغ میں ناکام ہو گئے ہیں اور اب تقدیس کا ڈنڈا ضروری ہے۔ ہر وہ نظریہ جس کا احترام زور زبردستی سے کرانا پڑ جائے، اس میں کہیں کچھ ایسا ہے جس پر مزید سوچنے کی ضرورت ہے۔ ایسی ہر صورت میں یہ طعنہ دینا مناسب نہیں ہے کہ یہ نظریہ انسانی عقل سے ماورا ہے۔ یا یہ کہ انسانی عقل کامل نہیں ہے۔ اگر نظریہ عقل سے ماورا ہے تو ناقص العقل اسے کیونکر سمجھے گا۔ جو سمجھا رہا ہے وہ بھی تو اسی انسانی عقل کا حامل ہے۔ تو سمجھنے والا کامل نہ سمجھانے والا،   پھر اس پر اصرار کیسا۔ اس طرح تو ہمیشہ ایک خلا رہ جائے گا۔ اور انسان کی عقل کو ناقص کہنے والے اس بات پر مصر کیونکر ہیں کہ وہ غیر مرئی اور موضوعی نظریات کو صحیح سمجھتے ہیں۔ کیا وہی کمی ان کے شعور میں نہیں ہے جس کا الزام وہ اپنے سے اختلاف کرنے والوں پر دھرتے ہیں۔

تصورات اور نظریات کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ ایک نظریے کے غلط ثابت ہو جانے پر دوسرا نظریہ اپنانے والے کیا اس امکان کو تسلیم کرتے ہیں ایک وقت ایسا بھی آ جائے جب صرف معروضی استدلال اور تجرباتی تصدیق کے پیمانے مستند ٹھہریں۔

کوئی نظریہ آفاقی نہیں ہوتا۔ ایک گھر میں ایک ہی سوچ رکھنے والے دو افراد مختلف تشریحات کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں لیکن اجتماعی سطح پر اس تنوع کے اقرار سے منکر ہو جاتے ہیں۔ ایک ہی نظریے کے حاملین بھی جزوی تشریحات پر ایک دوسرے کے ساتھ ہمہ وقت سینگ پھنسائے رکھتے ہیں۔ پھر نظریے کو آفاقی کہنے پر اصرار چہ معنی۔

جب کوئی نظریہ اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہونا شروع کرے گا تو اس پر سوال بھی اٹھیں گے۔ ایقان کا دعویٰ کرنے والوں کو اپنا دل کھلا رکھنے اور ذہن کشادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پر سوال یہ ہے کہ نادیدہ اژدہے کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad