ارسطو کے کردہ اور ناکردہ گناہ


پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں تقریباً چالیس برس تدریسی فرائض سرانجام دیے ہیں۔ اس دوران میں متعدد کورسز پڑھانے کا اتفاق ہوا لیکن سب سے زیادہ عرصہ، یعنی تقریباً چوتھائی صدی، منطق پڑھانے کی نذر ہوا۔ منطق سے مراد استخراجی منطق ہی ہے۔ اتنا طویل عرصہ اس مضمون کو پڑھانے کے بعد مجھ پر یہ حیرت افزا انکشاف کیا گیا ہے کہ میں ایک معدوم مضمون کو پڑھانے پر اپنا وقت ضائع کرتا رہا ہوں۔ ایک صاحب علم نے دعویٰ کیا ہے : ”لوگ نہیں جانتے کہ استخراجی منطق (Deductive Logic )  کا دور گزر چکا۔ ارسطو کی منطق اب مدارس میں باقی ہے یا کتابوں میں“ ۔

کیا واقعتا ایسا ہی ہے۔ یہ درست ہے کہ یونیورسٹیوں کو بھی مدارس قرار دیا جا سکتا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی علم کی تدریس کتابوں کی مدد سے ہی کی جاتی ہے، لیکن کیا اس دعوے کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ استخراجی منطق کا دور گزر چکا ہے۔ ہر برس پوری دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں طلبہ و طالبات یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں اور ان میں ہزاروں کی تعداد میں منطق کا کورس ضرور پڑھتے ہیں۔ گزشتہ صدی میں ایک امریکی ارونگ کوپی نے سنہ 1953 میں جدید منطق پر ایک تعارفی کتاب لکھی۔ اس کے اب تک چودہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، اس کی تعداد اشاعت کئی ملین تک پہنچ چکی ہے اور یہ شاید دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی نصابی کتاب ہے، خود میں نے کئی برس اس کتاب کو پڑھایا ہے۔ اس کے علاوہ ہر سال تازہ بتازہ نصابی کتب لکھی جا رہی اور پڑھی جا رہی ہیں۔ بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ ترقی یافتہ دنیا کی جامعات میں فلسفے کے مضمون کا جواز زیادہ تر دو ہی کورس فراہم کرتے ہیں اور وہ ہیں منطق اور اخلاقیات۔

فلسفیانہ فکر میں ترقی کے پیمانے کا استعمال اس انداز میں نہیں کیا جا سکتا جس طرح سائنسی علوم میں ترقی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ تاہم فلسفے کے کسی شعبے میں گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں اگر ترقی ہوئی ہے تو وہ منطق کا شعبہ ہے۔ انیسویں صدی کے آخری ربع میں جرمن ریاضی دان گوٹلب فریگہ نے ارسطو کے بعد منطق میں نئی اختراعات کیں۔ اس کے کام کو برطانیہ میں وائٹ ہیڈ اور برٹرینڈ رسل نے آگے بڑھایا۔ استخراجی منطق میں اس پیش رفت کا نتیجہ ہے کہ اب ارسطو کی منطق جدید منطق کا چھوٹا سا منطقہ ہے۔ ارسطو کے چار قضایا اور قیاس کی نئی تعبیرات اورتوجیہات پیش کی جا چکی ہیں۔

مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مندرجہ بالا دعوی نہ صرف غلط ہے بلکہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ غلط فہمی یہ ہے کہ ارسطو کی منطق کو استخراجی منطق کے مترادف قرار دے دیا گیا ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ فکر میں ارسطو وہ شخص ہے جس نے علم منطق کی بنا استوار کی اور اس کے اصول و ضوابط وضع کیے۔ اس کا یہ ایسا کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یادگار رہے گا۔ اس کی بدولت دو ہزار برس تک انسانی اذہان پر جس طرح اس نے حکومت کی ہے شاید کسی اور فرد کو کبھی نصیب نہ ہو۔ مسلمانوں نے بھی اسے معلم اول کا لقب دیا۔ یہاں تک کہ ارسطو کی منطق اور عقل ہم معنی قرار پائے۔ کسی بات کے معقول ہونے کا معیار یہ تھا کہ وہ ارسطو کی منطق کے مطابق ہو۔ اسی بات سے چڑ کر برطانوی فلسفی جان لاک نے کہا تھا کہ خدا اتنا بے بس نہیں تھا کہ انسان کو پیدا تو کر دیتا لیکن اسے عقل نہ سکھا سکتا اور عقل سکھانے کے لیے اسے ارسطو کے سامنے پیش کر دیتا کہ لیجیے اب آپ اسے عقل سکھا دیجیے۔

ارسطو بلاشبہ منطق کے ڈسپلن کی بنیاد رکھنے والا ہے لیکن اس نے منطق کے قوانین دریافت نہیں کیے تھے بلکہ انہیں منضبط طور پر بیان کیا تھا۔ منطق کے بارے میں ارسطو کے ہاں اچھا خاصا ابہام پایا جاتا ہے۔ اس نے بہت سی ایسی باتیں اس میں شامل کر دی تھیں جن کا اصلاً منطق سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ مابعد الطبیعیات کے مسائل ہیں۔ اس کی بڑی مثال اس کے دس مقولات ہیں۔ اس کے علاوہ اس نے تعریف یا حد پر جو زور دیا ہے وہ بھی بنیادی طور پر علمیات اور مابعد الطبیعیات سے متعلق ہے۔

ارسطو کا منطقی قضایا اور استدلال کا تصور بہت محدود اور تنگ تھا۔ قضایا کو اس نے موضوع اور محمول پر مبنی چار قضایا تک محدود کر دیا تھا اور منطقی استدلال کو قیاس تک محدود کر دیا تھا۔ قیاس میں دو مقدمات سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ جدید منطق میں درست منطقی قضایا اور استدلال کی صورتوں کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے۔ اس کی ایک معرف مثال یہ دلیل ہے جو منطقی طور پر صحیح ہے لیکن ارسطو کی منطق میں اسے صحیح ثابت کرنا ممکن نہ تھا: تمام گھوڑے حیوان ہیں۔ چنانچہ ایک گھوڑے کا سر ایک حیوان کا سر ہے۔ جدید منطق میں اس استدلال کو بآسانی درست ثابت کیا جا سکتا ہے۔

یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ جدید منطق ارسطو کے منطقی اصولوں کو غلط ثابت نہیں کرتی بلکہ ان کی توسیع کرتی ہے۔ ارسطو کے بیان کردہ تین منطقی اصول اور صحیح استدلال کی تعریف آج بھی درست ہے۔ ارسطو کے بیان کردہ تین اصول فکر یہ ہیں:

اصول عینیت: اگر کوئی قضیہ صادق ہے تو وہ صادق ہے۔

اصول مانع اجتماع نقیضین: کوئی قضیہ بیک وقت صدق و کذب کا حامل نہیں ہو سکتا۔

اصول خارج الاوسط: ہر قضیہ یا صادق ہوتا ہے یا کاذب۔

اصول مانع اجتماع نقیضین کا مطلب ہے کہ ایک جملہ اور اس کی نفی دونوں نہ بیک وقت سچ ہو سکتے ہیں نہ جھوٹ۔ ان میں سے ایک لازماً سچ ہو گا اور دوسرا جھوٹ۔ ”عورتوں کا ڈرائیونگ کرنا شریعت کے منافی ہے اور عورتوں کا ڈرائیونگ کرنا شریعت کے منافی نہیں ہے“۔ ”زمین گول ہے اور زمین گول نہیں ہے“۔ یہ جملے تناقض کے حامل ہیں اس لیے ہر حال میں کاذب ہیں۔ کوئی ممکنہ صورت احوال ایسی نہیں ہو سکتی جس میں یہ جملے صادق ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان مرکب جملوں میں کونسا صادق ہے اور کونسا کاذب۔ یہ جاننے میں منطق ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ منطق صرف اتنا بتاتی ہے کہ اگر کوئی فرد اس جملے” عورتوں کا ڈرائیونگ کرنا شریعت کے منافی ہے اور عورتوں کا ڈرائیونگ کرنا شریعت کے منافی نہیں ہے، کو سچ تسلیم کرتا ہے تو پھر اس کے کسی بھی بات کو سچ تسلیم کر لینے میں کوئی امر مانع نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ بھی تسلیم کر سکتا ہے کہ چاند نورپور مکھن کا بنا ہوا ہے۔ چنانچہ یہ ا اصول بہت اہم ہے جس کے اطلاق کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ علم کا کوئی شعبہ اس کے دائرہ اطلاق سے باہر نہیں ہو سکتا۔

ارسطو نے منطقی استدلال کی صحت کا جو اصول مقرر کیا تھا وہ آج بھی درست تسلیم کیا جاتا ہے اگرچہ اس میں بہت نفاست پیدا کی جا چکی ہے۔ منطقی استدلال کی صحت کا معیار یہ ہے کہ نتیجہ لازمی طور پر مقدمات سے برآمد ہوتا ہے اور مقدمات سے ضعیف ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ منطقی استدلال کے نتیجہ میں کوئی ایسا بات بیان نہیں کی جا سکتی جو قبل ازیں مقدمات میں مذکور نہ ہو۔ مقدمات کی صداقت نتیجے کی صداقت کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ یعنی مقدمات اگر صادق ہیں تو نتیجہ بھی صادق ہو گا۔ ہم دو عام فہم مثالوں سے اس بات کو واضح کر سکتے ہیں۔

تمام انسان فانی ہیں اور جیکی ایک انسان ہے؛ چنانچہ جیکی فانی ہے۔

تمام انسان فانی ہیں اور جیکی فانی ہے؛ چنانچہ جیکی ایک انسان ہے۔

پہلا استدلال درست اور دوسرا نادرست ہے۔ گزشتہ مہینے میرے ہمسایوں کا کتا فوت ہو گیا اور اس کا نام جیکی تھا۔ مراد یہ ہے کہ جیکی کے انسان ہونے سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا کہ وہ فانی ہے، لیکن اس کے فانی ہونے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ انسان ہے؛ کیونکہ انسان کے علاوہ دوسرے جاندار بھی فانی ہیں۔

درست استدلال کی یہ تعریف اتنی جامع ہے کہ استقرا کے حامی آج تک کوشاں ہیں کہ کسی طرح استقرائی استدلال کو منطقی صحت کا حامل قرار دیا جا سکے۔ استقرائی استدلال میں یہی خرابی ہے کہ اس میں مقدمات کی صداقت نتیجے کی صداقت کی ضمانت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ یعنی مقدمات کے صادق ہونے کے باوجود نتیجہ کاذب ہو سکتا ہے۔ اس لیے اب وہ صحیح استقرا کے بجائے قوی اور ضعیف استقرا کا ذکر کرتے ہیں۔

منطق کے متعلق ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ منطق ہمیں درست طور پر سوچنا سکھاتی ہے۔ اسی بنا پر عام طور اس کی تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ قوانین فکر کے مطالعے کا نام ہے۔ انسانی ذہن کس طور پر سوچتا ہے یہ نفسیات کا موضوع ہے نہ کہ منطق کا۔ منطق ہمیں یہ نہیں بتاتی اور نہ اس کا یہ کام ہے کہ ذہن کس طرح تفکر کرتا ہے۔ منطق کا کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہم فکر کے نتائج کو الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ منطق فکر کے نتیجے کو پرکھتی ہے نہ کہ فکر کے عمل کو۔ یہی وہ غلط فہمی ہے جس کی بنا پر ابن تیمیہ نے یونانی منطق پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وہ چیز ہے جس کی ذہین آدمی کو ضرورت نہیں اور بے وقوف کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا ہے استخراجی منطق ارسطو کی منطق تک محدود نہیں اور نہ یہ ازکار رفتہ ہے۔ اس کے اطلاق کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ علم کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں اس کا اطلاق نہ ہوتا ہو۔ کمپیوٹر اسی پر کام کرتے ہیں۔ الیکٹرک سرکٹ اسی کی مدد سے بنائے جاتے ہیں۔ کمپیوٹر پروگرامنگ میں بھی استعمال ہوتی ہے، یہاں تک کہ معاشیات میں بھی۔ منطق ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم صرف ان نتائج کو تسلیم کریں جن کی تائید میں قوی شواہد موجود ہوں اور نتیجہ ان شواہد پر مبنی ہو۔ فکری معاملات میں تناقض سے احتراز، اور تناقض کو دور کرنے کی سعی کرنا منطق علم کا تقاضا ہی نہیں بلکہ اخلاقیات علم کا منشا بھی ہے کیونکہ تناقض کا شعور نہ ہونا، یا اس کو درست تسلیم کرنا بھیانک نتائج کا موجب ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).