مذہب اور میری زندگی کے کچھ حوالے (1)


یہ بات 1971 سے پہلے کی ہے۔ ہمارا گھرانہ مذہبی تھا۔ جنونی نہیں، علمی حوالے سے مذہبی۔ مذہب سے بغاوت جسے گھر کی مذہبیت سے انکار کہنا زیادہ مناسب ہوگا، کے جراثیم تو پہلے ہی پنپنے لگے تھے جب میں گورنمنٹ کالج لاہور کے اقبال ہوسٹل کے صحن کے گول گراسی گراؤنڈ میں اذان دے کر کافی دیر تک منتظر کھڑے رائے ونڈ کے رہائشی داڑھی والے لڑکے مولوی ستار کی توجہ کامن روم سے بلند ہوتے قہقہوں کی جانب کروا کے فی البدیہہ شعر پڑھ دیا کرتا تھا:

قہقہے گونج رہے ہیں واں طرب خانے میں

نہ نمازی کوئی اب تک سوئے مسجد آیا

ستار (سنا ہے بعد میں وہ بہت ماڈرن پلے بوائے بن گیا تھا) خجل مسکراہٹ دیتا تھا اور میں ہنس کر کے آگے بڑھ جاتا تھا۔

ایف ایس سی کرکے نشتر میڈیکل کالج ملتان آنا پڑا کیونکہ گھر والوں کے خیال میں گھر کا یہ اچھا بچہ لاہور جا کر خراب ہو گیا تھا۔ اس اچھے بچے کو ایک اچھی بچی سے پیار ہو گیا تھا، جس کی بہت مخالفت ہوئی تھی۔ حالانکہ ہم دونوں کا رشتہ اتنا ہی معصوم تھا جتنا سوچا جا سکے۔ (بعد میں اس لڑکی کی بہنیں بالترتیب میرے سگے چھوٹے بھائی، میرے سگے بھتیجے اور میرے سگے بھانجے کی بیویاں بنیں) مگر روایات اور تعصبات میں دلیل کون مانتا ہے۔ خیر جب پیار سے دور ہوا، پہلے مذہب میں پناہ لی۔ زیادہ وقت نشتر میڈیکل کالج کی مسجد میں گذرا کرتا تھا۔ تبلیغی جماعت کی جانب راغب ہو گیا۔ کئی سہ روزہ لگانے کے بعد چلے پر نکل گیا۔ قصہ مختصر پہلا قیام ہی جی سی لاہور کی مسجد میں تھا۔ اس کا قصہ پھر کبھی۔ وہاں سے پنڈی، پنڈی سے چارسدہ، اس کا قصہ بھی مستقبل پر چھوڑتے ہیں۔ پھر پشاور یونیورسٹی کی مسجد، یہاں کا قصہ بھی محذوف قرار دیتے ہیں۔ پشاور سے لوٹنا تھا۔ جو ویگن کرائے پر لی تھی، اس کا پٹھان ڈرائیور سڑک پر چلتی ہر لڑکی کو دیکھ کر ہارن بجاتا تھا۔ میں شیریں مقال مبلغ تھا۔ مجھے رائے ونڈ کے مولانا وہاب بھی پسند کرتے تھے چنانچہ ہمارے فزیالوجی کے ڈیمانسٹریٹر اور تبلیغی ساتھی ڈاکٹر کمال نے مجھے کہا کہ تم اگلی سیٹ پر جا کے ڈرائیور کے پاس بیٹھو اور اسے دین کی تبلیغ کرو۔ آگے جو بھائی بیٹھے تھے، انہیں پیچھے میری نشست پر بٹھا دیا گیا۔

میں نے ڈرائیور سے اس کے حالات زندگی پوچھ کر اس کی قبائلی زندگی سے گفتگو کی ابتدا کی اور سمجھاتا گیا۔ اس کے ساتھ پنڈی پہنچانے کا طے ہوا تھا لیکن وہ میری تبلیغ سے اتنا متاثر ہوا کہ بولا،” آپ اچا لوگ اے، لہور بی ام لے جائے گا اور رعایت سے لے جائے گا”۔ ہمیں تو سواری ہی چاہیے تھی سو مان گئے۔

گوجر خاں کے نزدیک اس نے مجھے کہا دیکھو ام یہ موڑ کیسے کاٹے گا۔ پیچھے سے کمال صاحب نے کہا،” ارے بھائی احتیاط سے”۔ اس نے گردن موڑ کر کہا،” چپ کرو مولوی صیب، تم کہتا اے سب اللہ کرتا ہے، ڈرتا کیوں اے” اور موڑ کاٹ دیا۔ ویگن لڑھکنیاں کھاتی ہوئی کھائی میں جا رہی تھی۔ مجھے سب کچھ الٹا سیدھا ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ شکر ہے موڑ پر لگا ایک ڈرم بھی آگے آگے لڑھکتا جا رہا تھا، چنانچہ بیس پچیس میٹر کی گہرائی میں جا کر جس چٹان کے سہارے، چھت کے بل ویگن ساکت ہوئی اس کے ساتھ وہی ڈرم لگ کے پچک گیا تھا، مگر بچت ہو گئی۔ میں سر نیچے ٹانگیں اوپر ویگن میں باقی لوگوں کی طرح بند تھا۔ کہنی مار کے شیشہ توڑا تو کوئی گرم گرم مائع میری دونوں آنکھوں میں پڑ گیا۔ بہت جلن ہوئی مگر میں نے پہلے سر کھڑکی سے باہر نکالا اور پھر کھسک کر نکل آیا۔ دونوں آنکھوں پر ہاتھ تھے۔ ایک طرف کی آنکھ کی ریخ سے دکھائی دیا کہ ڈرائیور سر پکڑے ایک پتھر پر بیٹھا ہے اور اس کے ماتھے پر خون کی لکیر ہے۔ ایک کھڑکی سے علی شمس القمر (اب ریٹائرڈ کرنل ڈاکٹر) کا سر نکلا ہوا ہے۔ وہ بے ہوش ہے اور اس کے سر سے خون کا فوارہ نکل رہا ہے۔

اوپر مسافر بسیں رک چکی تھیں، لوگ مدد کے لیے نیچے اتر آئے تھے۔ کسی نے مجھے اوپر لے جانا چاہا تو میں نے کہا کہ پہلے قمر کو نکال کر لے کے جاؤ۔ قمر کو میں راغب کرکے ساتھ لے گیا تھا۔ خیر مجھے کوئی پکڑ کر چڑھاتے ہوئے اوپر لے آیا تھا اور ایک بس کی آخری لمبی سیٹ (اس زمانے میں ہوتی تھیں ) پر لٹا دیا تھا۔ وہاں بیٹھی کسی مہربان عورت نے میرا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور کہے جاتی تھی،” ہائے نی کسی دا ویر، کسی دا پتر، کڈا سوہنا اے۔ اللہ ایدھی اکھاں دی خیر” میں مسکراتے ہوئے اسے تسلی دے رہا تھا۔

گوجر خان سول ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ اتفاق سے اس روز پنڈی سے ماہر چشم بھی آئے ہوئے تھے جنہوں نے آپریشن تھیٹر میں لے جا کر میری آنکھوں کو بورک ایسڈ سے دھو دیا اور مجھے بیڈ پر پہنچا دیا۔ میری ایک آنکھ کے پہلو کی ریخ سے ہی دکھائی دیتا تھا۔ مجھے گریبان پر کچھ گرا ہوا لگا، میں نے جھاڑا تو جہاں جہاں نشان تھے وہاں سے کپڑا ہی جھڑ گیا۔ میں چیخا “سر یہ تو ایسڈ تھا” اصل میں میری آنکھوں میں بیٹری کا تیزاب پڑ گیا تھا۔ مجھے فوری طور پر تھیٹر لے جایا گیا اور اس بار آنکھوں کو الکلی سے دھویا گیا۔

اس کے بعد ایک ماہ تک نیم نابینا رہا۔ آنکھوں میں کبھی Atropine کے قطرے تو کبھی Esserine کے۔ پتلیاں پھیل جاتیں تو روشنائی جبھتی اور سکڑ جاتیں تو اندھیرا ہو جاتا۔ میں آج تک Photosensitive gray glasses پہنتا ہوں۔

ڈر گیا کہ اندھا ہو جاتا تو مسجد میں بٹھا دیا جاتا۔ اب مذہب سے بالکل ہی گریزاں ہو گیا۔ ذہن میں “اس” کے “ہونے” اور ” نہ ہونے” کی جنگ تھی:

وہ ضرور ہے!

لیکن کہاں؟ اور کون؟

میں بتا سکتا ہوں

سوچ، سمجھ، ادراک، وقوف

تو تمہارے چار ہوئے ناں!

پاگل! یہ تو “وحدت ا لوجود” ہے

اور جاہل! وحدت الشہود بھی

ہنہ—(طنز و تمسخر سے بھرپور زہر خند)

چلو بتاؤ کیسے؟

(توقف اور تجاہل عارفانہ—-)

دلیلوں اور تاویلوں سے فائدہ ؟

ختم اللہ علی قلوبھم وعلی—-

(جھنجھلاہٹ)———-

اچھا چلو تم ہی بولو، کون کہاں اور کیسے ؟

بس ہے (تیقن سے)

(نگاہوں کا الجھاؤ—-بےبسی)

تو ھم دونوں اندھیرے میں ہیں (دونوں دھیرے سے

نہیں! نہیں، ہم تو بینا ہیں،وہ ہی اندھیرے میں ہے

(ڈگمگاتے ایقان کے ساتھ)

واہ! وہ تو نور ہے

ہوتا رہے (اکتاہٹ)

آنکھیں موندیں اور سو جائیں

سوچا اپنی جان لے لی جائے تاکہ اس کرب سے جان چھوٹے۔ اپنی جان لینا اتنا اسان نہیں ہوتا۔ اس زمانے میں بہت قوی خواب آور گولی Soneryl کے نام سے ہوا کرتی تھی۔ نوکر کے ہاتھ پچیس تیس منگوا لیں۔ حوصلہ نہیں ہوتا تھا۔ روز ایک لے لیتا تھا۔ جب اٹھارہ بیس کے قریب بچ رہیں تو اپنی بزدلی پر غصہ آ گیا۔ سوچا آج کھا ہی لوں گا۔ منصوبہ یہ تھا چونکہ نوکر روزانہ چارپائی چھت پر بچھا ہی آتا ہے، گولیاں کھاؤں گا اور جا کر لیٹ رہوں گا، صبح تک قصہ تمام ہو جائے گا۔

نوکر کے آنے سے پانچ منٹ پہلے باتھ روم میں جا کر ساری گولیاں منہ میں ڈالیں اور پانی کے دو تین گھونٹ بھرے۔ آج بھی میں ایک گولی مشکل سے نگلتا ہوں۔ چار پانچ ہی نگلی جا سکیں، باقی ہتھیلی پر الٹ دیں۔ لمحہ دو لمحہ سوچا کہ گڑ بڑ ہو گئی۔ ہمت کرکے باقی بھی نگل لیں۔ باہر نکل کر کسی ہم جماعت سے تھوڑی گپ شپ کی اور کمرے میں لوٹ آیا۔ آج اتفاق سے نوکر آیا ہی نہیں تھا۔ چارپائی کمرے ہی میں تھی۔ پرائیویسی میں ایسٹ پاکستان سے لوٹا ہوا ایک دوست رہتا تھا۔ کمرے کی بجلی بجھاتے ہوئے اسے کہا،”یار میں سو رہا ہوں” اس نے پوچھا اتنی جلدی۔ میں نے کہہ دیا ہاں نیند آ رہی ہے۔ اب دیکھیے، مشرقی پاکستان سے آیا ہوا ایک اور لڑکا جو بہت کم آتا تھا، کمرے میں داخل ہوا اور بجلی کا سوچ دبانے لگا تو میں نے درشتی سے کہا ،”مت دباؤ”۔ اس نے بلب روشن کیا اور بولا،” میں تمہیں ملنے آیا ہوں اور تو سو رہا ہے”۔ میرا درشت لہجہ سن کر پرائویسی میں بیٹھا دوست بھی کمرے میں آ گیا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور پوچھا،” وہ تمہاری گولیاں کہاں ہیں؟” اس نے بعد میں بتایا کہ میرے چہرے پر پسینے کے قطرے دیکھ کر اس نے پوچھا تھا۔ میں نے لاعلمی ظاہر کی۔ اس نے سختی سے پوچھا، “کھا تو نہیں لیں”۔۔ میں نے پھر انکار کیا۔ اس نے انے والے سے کہا،” بیٹھو یار، ابھی تھوڑی دیر میں یہ بے ہوش ہوگا۔ ہم اسے ہاتھ پاؤں پکڑ کر لے کے جائیں گے پھر اسے اپنی بے عزتی کا معلوم ہوگا”۔۔ میں نے لجاجت سے گولیاں نگلنے کا اعتراف کرتے ہوئے منت کی کہ مجھے مر جانے دو یار۔ اس نے چیخ کر کہا اٹھو چلو ہسپتال۔ میں چار و ناچار ان کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ وہ دونوں بیچارے نئے نئے اس کالج میں منتقل ہوئے تھے۔ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ کہاں لے جانا ہے۔ دونوں مجھے لے کر ساتھ کے ہوسٹل میں ایک مشترکہ دوست کے پاس پہنچے اور اسے بتایا کہ اس ۔۔۔۔ نے گولیاں کھا لی ہیں مرنے کے لیے۔ میں نے سوچا میرا روم میٹ تو تیز ہے، جس کے پاس لے کر گئے تھے وہ سادہ لوح۔ میں نے اداکاری کرتے ہوئے کہا،” یار میں نے مذاق کیا اور یہ سچ مان گئے”۔۔ اس سادہ طبع نے کہا،” یار یہ روز کہتا ہے ، مر جاؤں گا، مرتا ہے نہیں۔ جھوٹ بولتا ہے” لیکن مجھے لے جانے والے ڈٹ گئے کہ نہیں چلو اسے ایمرجنسی میں لے کر چلتے ہیں۔ جب اس ہوسٹل سے نکلے تو مجھے شدید نیند آنے لگی اور میں نے کہا،” مجھے سونے دو یار”۔

جب آنکھ کھلی تو ایمرجنسی میں تھا۔ قصہ مختصر میں اگلے روز زندہ تھا اگرچہ آنکھیں وریدیں پھٹنے کی وجہ سے لال انگارہ ہو چکی تھیں۔ مرنے سے پہلے جو رقعہ لکھا تھا، اس میں درج کیا تھا، ” مجھے خدا نہیں مار رہا، میں خود مر رہا ہوں”۔۔ میں آج بھی حیات ہوں۔ روم میٹ دو سال پہلے طبعی موت مر چکا اور جس مشترکہ دوست کے پاس لے گئے تھے اس نے 1976 میں “کامیاب” خود کشی کر لی تھی۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).