مذہب اور میری زندگی کے کچھ حوالے (2)


سال غالبا” 1974 کا تھا۔ تب لاہور اور ملتان کے درمیان “غزالہ” نامی ریل کار چلا کرتی تھی۔ اچھے دن تھے، پاکستان ریلوے سفرکا مناسب ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ ریل کار کی آمد و رفت کے اوقات باقی گاڑیوں کی نسبت بہتر تھے، اس لیے بہت سے لوگوں کی طرح طالبعلم بھی سفر کے لیے اسی کو ترجیح دیتے تھے۔

میں لاہور سے واپسی کے لیے اسی ریل کار میں سوار ہوا، تو تھوڑی دیر بعد ایک لڑکا اسی حصے میں آیا اور مجھے خاص طور پر سلام کرکے سامنے والی نشست پر کھڑکی کے نزدیک بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی نیا ڈائجسٹ رسالہ تھا۔ اس کے سامنے والی نشست پر کھڑکی کے ساتھ کوئی اور مسافر بیٹھا تھا جس کے پہلو میں مجھے جگہ ملی تھی۔مجھے لڑکے کی شکل جانی پہچانی لگی، چونکہ اس نے مجھے ہی سلام کیا تھا چنانچہ اس کا نام پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ نشتر میڈیکل کالج میں سیکنڈ ایر کا طالبعلم تھا۔ میں وہاں فائنل ایر میں تھا۔ میں نے اس سے رسالہ لیا اور پڑھنے بیٹھ گیا۔

ریل کار شہر سے نکل چکی تھی۔ میں نے پڑھنا جاری رکھا۔ گاڑی پتوکی سٹیشن پر معمول کے مطابق نہ رکے بغیر آگے نکل گئی۔ یک لخت اس لڑکے نے جس سے میں نے رسالہ لیا تھا اور جو سر نکالے کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، زور کی چیخ ماری اور سیٹ کے ساتھ جیسے جم کر رہ گیا ہو۔ اس کے چہرے کے تاثرات ہیبت ناک تھے۔ میں نے فورا” اٹھ کر دوسری کھڑکی سے دیکھا، تو رسالہ پھینک دروازے کی جانب بھاگا۔

جس سمت میں ریل کار جا رہی تھی، اس کی مخالف سمت سے اسی پٹڑی پر بھرپور گاڑی تیز گام پوری رفتار سے آ رہی تھی۔ ریل کار کا ڈرائیور حاضر دماغ تھا ۔ اس نے گاڑی روک کر پیچھے کی طرف چلانا شروع کر دی۔ چلتی ریل گاڑی سے، اپنے ڈبے کے دروازے سے باہر چھلانگ لگانے والا میں تیسرا چوتھا فرد تھا۔ میں نے زمین پر قدم جما کے چلتی ریل کار کی جانب دیکھا تو ایک آدمی نے اپنا ایک سالہ بچہ میری جانب اچھال دیا، شکر ہے میں نے اسے دبوچ لیا تھا۔ پھر اس آدمی نے بھی چھلانگ لگا دی تھی۔ میں نے بچہ اس کے حوالے کر دیا تھا، جو بری طرح رو رہا تھا۔

اس اثناء میں تیزگام کے ڈرائیور نے بھی ہنگامی بریک لگا دیے تھے۔ ریل کار کی رفتار بڑھ چکی تھی۔ میں نے دیکھا ایک حواس باختہ مرد کھڑکی سے ایک ٹانگ نکالے چھلانک لگانے کو ہے۔ میں نے دونوں ہاتھ ہلا کر اور چیخ کر اسے روکا۔ بتایا کہ کوئی خطرہ نہیں رہا۔ اگر وہ کھڑکی سے گرتا تو لامحالہ اس کی ٹانگیں پہیوں کی زد میں آ کر کٹ جاتیں۔ ریل کار چلتی چلی گئی ہم پچاس ساٹھ آدمیوں کو پیچھے چھوڑ گئی۔ ہم سب ڈیڑھ دو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل چل کر پتوکی ریلوے سٹیشن پہنچے جہاں پہنچ کر ریل کار رک گئی تھی۔

عوامی دور تھا۔ لوگوں نے انچارج سٹیشن ماسٹر کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے۔ وہ اپنی غلطی باور کر کے فرار ہو چکا تھا۔ جس آدمی نے بچہ اچھالا تھا وہ بہت جذباتی ہو رہا تھا۔ کہتا تھا اگر میرا بچہ یہ نوجوان نہ پکڑتا اور وہ گر کے مر جاتا تو۔ وہ گاڑی کے آگے لیٹ گیا تھا کہ ذمہ دار شخص کو پکڑو۔ چند مسافروں اور پولیس نے اسے سمجھا بجھا کر وہاں سے اٹھایا۔ یوں ہماری گاڑی اپنے سفر پر پھر سے روانہ ہوئی۔ تیز گام ہمارے سامنے پتوکی سے گذر چکی تھی۔

جب ہماری ریل کار تیس چالیس کلومیٹر آگے پہنچی تو دوسری جانب کی پٹڑی سے ریسکیو ٹرین گذری، جس میں طبی عملہ جو اپنے سفید کوٹوں سے پہچانا جا رہا تھا اور دیگر مددگار سوار تھے۔ ہم نے انہیں دیکھ کر ہاتھ ہلائے اور وہ بھی متعجب خوشی کے ساتھ ہاتھ ہلاتے آگے گذر گئے۔

گریجویشن کے بعد فوج کی لازمی سروس کے تحت ایبٹ آباد میں ڈیڑھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد میری تعیناتی گلگت کے دور دراز کے علاقے دیامیر میں گوری کوٹ کے مقام پر موجود فیلڈ ایمبولینس میں کر دی گئی۔ یہ سال 1976 کے موسم بہار کا ذکر ہے۔ مجھے فوجی افسروں نے ان مقامات سے جہاں درہ برزل پار کرکے مجھے بھیجا جانا تھا بہت خائف کر دیا تھا کہ وہاں سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔ لوگوں کے خطوط تک نہیں پہنچ پاتے۔ آدمی باقی دنیا سے کٹ کے رہ جاتا ہے۔ میں کرنل کے سامنے ڈٹ گیا تھا کہ میں اگے نہیں جاؤں گا۔ میں نے اس مرض کا بہانہ کیا جو مجھے طالبعلمی کے زمانے میں گرفتاری سے پہلے پولیس کے تشدد کے بعد ہوئی تھی یعنی “کارڈیونیوروسس” جس کی بنا پر مجھے گلگت کے فوجی ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ میں بیمار ہوتا تو آرام کرتا۔ گھومتا پھرتا تھا۔ کرنل کو سب پتہ چل گیا اور اس نے مجھے ڈسچارج کروا کر واپس بلا لیا تھا۔

اس رات کرنل نے مجھے درشتی کے ساتھ کہا کہ کل ہیلی کاپٹر آ رہا ہے اور تمہیں گلتری جانا ہوگا۔ میری کرنل سے چخ چخ ہوئی۔ میں بہانہ کرنے کی وجہ سے خود بودا ہو چکا تھا، چنانچہ جذباتی ہو گیا اور انگریزی میں کہا،” مجھے ایک پستول دے دیجیے، جہاں کہیں گے، چلا جاؤں گا”۔ کرنل صاحب بیچارے دل کے کمزور تھے، آنکھیں پھیل گئیں اور پوچھا “پستول کا کیا کرو گے”۔ یہ چھوڑیں، میں نے کہا۔ ہر سی او کا ایک چمچہ بھی ہوتا ہے۔ کیپٹن گل مجھے ٹھنڈا کرکے میرے کمرے میں چھوڑ گیا تھا۔

صبح بریگیڈ ہیڈ کوارٹر جائے بنا چارہ نہیں تھا کیونکہ میرا مرض کا بہانہ جھوٹا ثابت ہو چکا تھا۔ کیپٹن گل ہی مجھے چھوڑنے گیا تھا جسے پھر مجھے واپس بھی لانا پڑا تھا۔ ہیلی کاپٹر نے ہیلی پیڈ پر اترنا تھا۔ ہم افسر حضرات بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیر داؤد کے استقبال کو کھڑے ہوئے تھے۔ ہیلی کاپٹر اترا۔ اس میں سے بریگیڈیر صاحب اور ایف ڈبلیو اوکے کرنل ضیاء اترے۔ ہم نے سیلیوٹ کیا۔ بریگیڈیر صاحب نے چھڑی لہرا کر انگریزی میں کہا،” کیپٹن مرزا، میں چونکہ کرنل ضیاء کو ساتھ لے آیا ہوں، اس لیے آج تم آگے نہیں جا رہے”۔ یہ کہہ کر وہ دفاتر کی جانب بڑھ گئے، ساتھ ہی باقی افسران بھی۔

میں ہیلی کاپٹر کے نزدیک پہنچا کیونکہ ہیلی پائلٹ میجر چیمہ سے میری گپ شپ تھی۔ ان کے ساتھ دوسرے پائلٹ نیوی کے لیفٹیننٹ خالد تھے۔ میجر چیمہ نے مجھے چھیڑنے کی خاطر ہنستے ہوئے کہا،” میں تمہیں کبھی اپنے ساتھ نہیں لے جاؤنگا”۔۔ پھر میجر چیمہ نے مصنوعی سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے انگریزی میں کہا تھا،” میں کریمینل کو ساتھ نہیں لے جا سکتا”۔ لگتا تھا رات کی گئی پستول والی بات پھیل چکی تھی۔

میں چونکہ چند ملاقاتوں میں ان کے ساتھ بے تکلف ہو چکا تھا چنانچہ اچک کر سیکنڈ پائلٹ کی سیٹ پر بیٹھ گیا اور سٹریپ باندھتے ہوئے کہا،”سر آج تو آپ مجھے لے کے ہی جائیں گے، لیفٹیننٹ خالد سر کو یہیں چھوڑ جائیں۔ ظاہر ہے بریگیڈیر صاحب کے حکم کے بعد میں دل لگی ہی کر رہا تھا۔ اتنے میں ہم دونوں نے دیکھا کہ بریگیڈیر صاحب باقی افسروں کے ہمراہ دفتر سے نکل رہے ہیں۔ میجر چیمہ نے بوکھلا کر پنجابی میں کہا،” اتر جا، کمانڈر آ رہے ہیں”۔

کمانڈر، جنرل ضیاء اور ٹیکنیشن ایلوٹ ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے۔ ہیلی لفٹ کرنے سے پہلے میجر چیمہ نے کھڑکی کے طرف منہ موڑ کر مجھے آنکھ ماری اور شرارت سے مسکرائے۔ ہیلی کاپٹر بلند ہوا اور موڑ کاٹ کر پہاڑی عبور کرنے کو آگے بڑھا۔ میں بیس پچیس قدم پر واقع بریگیڈ کے ایم آئی (میڈیکل انسپیکشن) روم میں گیا، ٹوپی اتار کے پھینکی اور سپاہی صدیق کو کہا، چائے لاؤ جوان۔ اس نے بریگیڈ میں مستقل متعین آئی ایس آئی کے حوالدار یعقوب کا نام لے کر کہا کہ سر وہ کہہ رہا تھا، آپ بڑے سیاسی تھے۔ اگر ان کو اب تک جلسے ولسے کرنے کا شوق ہے تو ہم یہاں بھی انتظام کروا دیں گے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ہر طرف سے سیٹیاں بجنے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ ہم ہڑبڑا کر باہر نکلے۔ سارے فوجی بھاگ رہے تھے افسر کیا اور باقی کیا۔ میں نے ٹوپی کا تردد نہ کیا اور ساتھ ہی کھڑی جیپ میں بیٹھ کر ڈرائیور سے کہا چلو۔ ایک ہی سڑک تھی لوگ دونوں جانب دوڑ رہے تھے۔ جہاں لوگ کم ہوئے میں نے جیپ رکوائی اور لوگوں کے ساتھ پہاڑی کی جانب بھاگا۔ کسی سے پوچھا کیا ہوا تو معلوم ہوا کہ ہیلی کاپٹر گر گیا ہے۔

ایک پہاڑی چڑھی۔ اترائی اتری پھر دوسری پہاڑی چڑھی۔ چوٹی پر پہنچا تو نیچے منظر دیکھ کر جیسے ٹانگیں جواب دے گئیں۔ نیچے ہیلی کاپٹر کا ملبہ بکھرا پڑا تھا اور لاشیں دکھائی دے رہی تھیں۔

اس رات میں نے والدہ کو خط لکھا تھا جس میں کہا تھا، شاید یہ میرا آخری خط ہو۔ لفافہ جیب میں تھا۔ سوچا تھا پائلٹ کو دے دوں گا تاکہ پوسٹ کر دے۔ پہلے تو جیب سے لفافہ نکال کے اس میں سے خط نکالا اور ٹکڑے کرکے پھینکا۔ پھر پہاڑی اترا۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے تینوں افراد یعنی بریگیڈیر، کرنل اور ٹیکنیشن کے علاوہ میجر چیمہ ہلاک ہو چکے تھے جبکہ لیفٹیننٹ خالد کی سانس چل رہی تھی۔ انہیں لوگ اوپر لے جا چکے تھے۔ ہیلی کاپٹر کے پاس ڈی کیو موجود تھے جنہوں نے مجھے کہا جلدی سے اوپر جاؤ کیپٹن گل کا ساتھ دو۔ گل باقی افسروں کے ہمراہ، میڈیکل کٹ کے ساتھ مناسب راستے سے ایک ہی پہاڑی چڑھنے اترنے کے بعد پہلے پہنچ گیا تھا۔

میں پہلے ہی اتنی چڑھائی اترائی کے بعد نڈھال تھا مگر پھر بھی سامنے کی پہاڑی چڑھنا شروع کی۔ ایک مقامی شخص نے میری چال دیکھ کر کہا،”سر میری پیٹھ پر سوار ہوں” میں نے انکار کیا تو اس نے کہا،” سر آپ تھکے ہیں بیٹھیں”۔۔ میں بیٹھ گیا وہ پھرتی کے ساتھ مجھے لے کر اوپر پہنچا تو دیکھا کہ لیفٹیننٹ خالد بھی اس دنیا سے جا چکے تھے اور کیپٹن گل سوگوار کھڑا تھا۔

چند گھنٹے بعد میرا کرنل پہنچا۔ ان کے ساتھ میرا بیٹ مین تھا جو بے اختیار میرے گلے لگ کے رونے لگا تھا۔ رونے کی وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ سر ہمیں کہا گیا کہ کیپٹن مرزا پستول دکھا کر ہیلی کاپٹر دشمن کے ملک کی طرف مڑوا چکا ہے۔ مجھے آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ ایسے نہیں۔ اس بیچارے نے مجھے کچھ معمولی تحفے بھی دیے جو میرے لیے گرانقدر تھے۔ میرا کرنل مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے میں نے ہیلی کاپٹر گرایا ہو یا زندہ بچ کر غلطی کی ہو۔ یہ واقعہ 1976 کا ہے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).