مذہب اور میری زندگی کے کچھ حوالے (3)


1999 کا مارچ۔ آٹھ مارچ عورتوں کا عالمی دن۔ کچھ مہ وشوں سے نیاز رہا۔ رات کا جاگا ہوا 9 مارچ کی صبح تاتار خاتون دوست آلسو کے گھر پہنچا۔ ملتفت ہونے کے بعد اس ہوٹل پہنچا جہاں سے گیا تھا اور جس کے کمرے ہم دو پاکستانی مل کر “سب رینٹ” کرتے تھے۔ پارٹنر کا انتظار تھا کہ وہ آئے تو میں گھر جاؤں۔ وہ آیا تو اس نے میری ٹوپی مانگی کہ اسے آدھ گھنٹے کے لیے کہیں جانا ہے اور معذرت بھی کی۔ ٹوپی لے کر گیا مگر ڈیڑھ گھنٹے بعد لوٹا۔

زیر زمین ریلوے کے پہلے سٹیشن سے ہی مجھے لگا کہ ایک مشکوک اور خطرناک دکھائی دینے والا شخص مجھے تاک رہا ہے۔ دوسری ٹرین میں بھی وہ اسی ڈبے میں تھا جس میں میں اور تیسری اور آخری ٹرین میں تو وہ میرے سامنے آ کر کے بیٹھ گیا۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں گاڑ دی تھیں۔ میں نے جز بز ہو کر اس سے نظریں چار نہ کیں۔ اپنے گھر کے نزدیک سٹیشن سے باہر نکلا۔ سڑک پر چلتے ہوئے کئی بار مڑ کر دیکھا مگر وہ خطرناک شخص نہیں تھا۔ سڑک پار کی۔ ایک چلڈرن پارک سے شارٹ کٹ لیا۔ ہر طرف برف ہی برف تھی۔ کئی جگہ دوڈھائی فٹ اونچے ڈھیر بھی۔ شارٹ کٹ راستے پر مڑ کے دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر شرابی لڑکھڑاتا آ رہا تھا۔ میں بے پروا رہا۔ جونہی بلند عمارت کی اوٹ میں پہنچا، میرے لیے دنیا گم ہو گئی ۔

معلوم نہیں کتنی دیر بعد جب دنیا پھر روشن ہوئی تو میرے کان ناک سے خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔ میں کان ناک پر ہاتھ رکھ کے خون روکتے ہوئے تیز تیز چل پڑا۔ چلتے ہوئے زخمی شخص پر لوگ توجہ نہیں دیتے کیونکہ ان کے خیال میں ایسا شخص شراب پی کر کسی کے ساتھ لڑ کے زخمی ہوا ہوتا ہے۔ گھر تک کوئی دو سوا دوسو قدم تھے۔ آٹھویں منزل پر اپنے اپارٹمنٹ کے دروازے پر پہنچ کر گھر کی بیل دی تو اہلیہ کی آواز آئی کہ چابی تمہارے پاس ہے، خود کھول لو۔ میں نے زور سے کہا کھولو دروازہ۔

جب اس نے مجھے ایسی حالت میں دیکھا تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچی۔ میں نے کہا جلدی سے ایمرجنسی والوں کو بلاؤ۔ اس نے میڈیکل ایمرجنسی کو فون کیا۔ جب تک وہ آئے یہ کان ناک پر کاٹن رکھ کے خون روک چکی تھی۔ میرا ایک کان چرا ہوا تھا۔ مجھے ہسپتال لے جایا گیا۔ پہلے میرا کان سیا گیا تھا۔ پھر سر کا ایکسرے لیا گیا۔ کھوپڑی تین جگہ سے تڑخی ہوئی تھی۔ پھر ایک ڈاکٹر نے ریڑھ کی ہڈی سے مائع لیا۔ میں اسے اس دوران بتا چکا تھا کہ میں بھی ڈاکٹر ہوں۔ اس نے خون آلود مائع سے بھری سرنج مجھے دکھاتے ہوئے کہا تھا،” آپ ڈاکٹر ہیں چنانچہ نتیجہ تو آپ کو معلوم ہوگا”۔ میں نے رسان سے جواب دیا تھا،” موت ” لیکن مجھے پتہ تھا کہ میں نہیں مروں گا۔ بہرحال بعد میں مجھے شدید لقوہ ہوا۔ مجھے انگریزی کا ہر لفظ بھول گیا تھا لیکن میں مرا نہیں۔ ڈاکٹروں نے 24 گھنٹے نازک بتائے تھے جنہیں گذرے اٹھارہ برس ہو چکے ہیں۔

ان ذاتی واقعات کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ بن آئی نہ آئے۔ موت سے خائف ہونا ایک فطری بات ہے۔ اس کی وجہ اصل میں عدم کا خوف ہے۔ جیسے کسی نے کہا تھا کہ پیدا ہونے سے پہلے نہ ہونے کا کونسا قلق تھا جو موت سے خائف ہوں۔ ہم نہ ہونے سے ڈرتے ہیں۔ ہم ڈرتے ہیں کہ دنیا کا سارا حسن و قبح ہم سے اوجھل ہو جائے گا یہ جانتے ہوئے کہ درحقیقت ہم اوجھل ہو جائیں گے۔ ہم حواس خمسہ کے عادی اور غلام ہیں۔ ہم اس کے کیف سے عاری ہونے سے ڈرتے ہیں۔ مرنے کے بعد ہم نہیں ہوتے۔ کیا کسی نےمرے ہوئے کے بارے میں پوچھا کہ فلاں نام کا شخص کہاں لیٹا ہے۔ مردہ، لاش، نعش، جسد خاکی، مرحوم وغیرہ ہی کہا جاتا ہے۔

چونکہ سب جانتے ہیں کہ موت سے مفر نہیں۔ پیدائش ، بڑے ہونا، بیماری یا حادثہ اور پھر موت سے سبھی کو گذرنا ہوتا ہے۔ موت کے خوف کو کم کرنے کی خاطر اگر آپ مذہبی شخص ہیں تو مذہب پر مکمل عمل کریں۔ دنیاوی آسائشیں، سہولتیں پانے اور مذہب پر مکمل عمل درآمد کرنے میں بہت فرق ہے۔ اگر آپ ان دونوں کی آرزو کرتے ہیں تو آپ موت کے خوف سے چھٹکارا نہیں پا سکیں گے۔ آپ خوف، خواہش، خدشے اور امید کی تاروں پہ جھولتے رہیں گے۔ اگر آپ مذہبی شخص نہیں ہیں اور آپ نے مال و دولت اکٹھی کر لی ہے تو موت کے خوف سے جان چھڑانے کے لیے اسے حقداروں، چاہے آپ کے بھائی بند اولاد ہو، میں بانٹ دیجیے یا بل گیٹس کی طرح دان کر دیجیے اور اگر آپ بالکل بھی نہیں ڈرنا چاہتے تو پہلی بات یہ کہ آپ کے پاس بس بنیادی دنیاوی ضروریات پوری کرنے کا وسیلہ ہونا چاہیے، دینے دلانے کا چکر ہی نہ ہو۔ اگر کچھ نہ کچھ ہے تو جن کو دینا ہے دے دیں یا مرنے سے پہلے خود پر خرچ کر ڈالیں۔ اچھی غذا لیں، اچھے کپڑے پہنیں، جہاں جہاں سیر کے لیے جا سکتے ہیں جائیں۔ خرچ کر ڈالیں۔ آخر تو مر جانا ہے۔ لوگ دفنا، جلا دیں گے۔ لاشیں زندوں کے درمیان جگہ نہیں پاتیں۔ اور سب سے بڑھ کر فارسی کے ایک گیت کی سطر،” غصہ مخور عزیزم، زندگی زقشنگ اے” پیارے رنجیدہ مت ہو زندگی حسین ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).