وادی سون کے نیلے چشموں تک


ہماری ہائیکنگ اینڈ ٹریکنگ سوسائٹی کے ہر دلعزیز ممبر فہیم انور خان جنجوعہ قزاقستان میں ملازمت کرتے ہیں اور میسنجر پر روزانہ ان کی آمد پر ایک مہم پر جانے کی تیاریاں ڈسکس کی جاتیں۔ فہیم انور خان اس مہم میں شرکت کے لئے بہت پرجوش تھے۔ انہوں نے ہائیکنگ سے متعلق ڈھیروں سامان خریدا۔ دبئی سے ٹینٹ بھی خرید لیا۔

ہمارے دوسرے خصوصی مہمان گرامی عامر مغل تھے۔ انہوں نے جب فیس بک پر وادی سون جانے کی پوسٹ لگائی تو ان کے احباب چیخ اٹھے۔ انہوں نے عامر مغل کے سامنے وادی سون کا وہ نقشہ پیش کیا جیسے وادی سون داعش کے زیر قبضہ کسی شامی علاقے میں ہو۔ بھلا ہو عامر کا۔ وہ تو تنہا گھر سے نکلنے پر آمادہ ہو گئے کہ ان کے دوست اویس نے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ دونوں رات دس بجے سوزوکی 150 پر لاہور سے چلے اور براستہ فیصل آباد صبح سویرے خوشاب آن پہنچے۔اسی سفر سے ان کی ٹریکنگ سے جڑی محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

خوشاب میں ٹیم کافی عرصہ بعد ایک دوسرے سے ملی۔ اور ہم تھے کون۔ فہیم انور خان جنجوعہ ، محمد دانش بٹ، محمد ارشد اعوان ، احمد ملک ، عامر مغل ، اویس اور یہ ناچیز اعجاز اعوان۔ خوشاب سے نکلے تو بلال ہوٹل پیل چوک جا کر بریک لگی۔ رستے میں عامر نے کچھ خوب صورت فوٹو بنائے۔ پیل چوک سے ڈٹ کر ناشتہ کیا گیا۔ کھبیکی میں ہماری کور ٹیم کے کمانڈر عدنان عالم اعوان ہمارے انتظار میں تھے۔ وہ گذشتہ شب پشاور سے اسلام آباد پہنچے تھے۔ پانچ بجے اسلام آباد سے چلے اور ہم سے پہلے کھبیکی پہنچ گئے۔ نئے دوستوں سے تعارف ہوا اور پھر ہم گاڑیوں میں روانہ ہوئے۔

اور اس بار ہم لوگ جا رہے تھے وادی سون کے ان چشموں کی تلاش میں جن کے پانیوں کا رنگ نیلا بتایا گیا۔ حیرت انگیز طور پر اکتوبر کے ابتدائی دنوں میں موسم گرم تھا۔ جہاں سے ہم نے اپنی مہم کا آغاز کیا یہ وادی سون کے کھبییکی گاؤں کے پچون ایریا کی ڈھوک لدال تھی۔ ایک دلکش تالاب کے کنارے گاڑیاں پارک کی گئیں۔ مقامی بچے اور بڑے حیرت سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ہلکے پھلکے سامان کے ساتھ نکلا جائے باقی سامان گاڑی میں رہے گا اور شام کو جہاں بھی کیمپنگ کرنا ہو گی گاڑیوں سے ٹینٹ اور دیگر سامان وغیرہ نکال کر لے جائیں گے۔

یوں ہم کافی ہلکے پھلکے ہو کر چلنے کو تیار ہوئے۔ فہیم بھائی نے ہمیں دو عدد تھرمس پکڑا دیئے کہ یہ چائے ہے جو دوران ٹریک پی جائے گی۔ ہم چونکہ خالی ہاتھ چلنے کے چکر میں تھے اس لئے ہم نے ایک تھرمس اویس کے بیگ میں ڈالا اور دوسرے کے لئے دانش بٹ سے درخواست کی جو وہ نہایت خوش دلی سے مان تو گئے لیکن انہوں نے ایک شاپنگ بیگ ہمیں پکڑا دیا۔ پوچھا کہ اس میں کیا ہے تو فرماتے ہیں کہ اس میں وہ لنچ ہے جو آپ کی فرمائش پر پندرہ آدمیوں کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ شاباش ہے بٹ کو۔ جب ہم نے اس مہم کا اعلان کیا تھا تو پچاس لوگوں نے ساتھ چلنے کا وعدہ کیا تھا جو روز بروز کم ہوتے گئے اور آخری دن ہم وہی پاٹے پرانے ٹریکر ہی ایک دوسرے کے ساتھ چل رہے تھے۔ البتہ عامر اور اویس کی مہربانی کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔

آخری گھر کے قریب سے گزرے اور پھر ایک وسیع و عریض میدان ہمارے سامنے تھا۔ یہ وادی سون کا شمالی علاقہ ہے یہاں سب سے عجیب بات یہ ہے کہ یہاں وادیوں کے دونوں طرف پہاڑوں کی شیپ ایسی ہے کہ جیسے یہ پہاڑ کبھی آپس میں ملے ہوئے تھے لیکن پھر کسی وجہ سے جدا ہو گئے۔ آج صدیوں بعد بھی ان کی شیپ یوں ہے کہ اگر کسی طریقے سے ان کو جوڑ دیا جائے تو وہ بہت آسانی سے یوں جڑ جائیں کہ ان میں کوئی لکیر تک باقی نہ رہے۔

بہت عرصے بعد ہائیکنگ پر نکلے تھے۔ سبھی دوست بہت تیزی سے چلے اور یوں دو دو تین تین کی ٹولیوں میں بٹ گئے۔ بارشیں نہ ہونے کے سبب کھیت سوکھے پڑے تھے۔ وہاں سے نکلے تو کانٹے دار بوٹی نے آن لیا جس کے کانٹے جاگرز کے اندر تک مار کرتے تھے اور چلنا دشوار بنا دیتے تھے۔ ایک بابا جی سے ملاقات ہوئی جو اپنے مویشی چرا رہے تھے۔ انہوں نے کچھ اچھی ٹپس دیں اور نیلے پانی کے چشمے تک کا آسان رستہ بتایا۔

اونچے نیچے رستوں پر ہوتے ہم ڈھلوان کی طرف چلے۔ دونوں طرف پہاڑ بلند ہوتے گئے۔ عامر اور فہیم بھائی فوٹو گرافی میں مصروف تھے۔ ایک جگہ پر بہت دور اور بہت اونچے پہاڑ پر عامر نے زوم کیا اور بتایا کہ یہاں کسی نے کبھی گنیش کا نشان بنایا تھا۔ اور ہم نے اس کے بنائے ہوئے فوٹو دیکھے تو یہی لگا کہ واقعی کسی نے اپنے ہاتھوں سے گنیش دیوتا کا نشان بنایا ہوگا۔ اس کی تصویر البم میں شامل ہے۔ گرمی البتہ زوروں پر تھی۔ اکتوبر میں گرمی کی لہر عجب تھی۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کا اثروادی سون پر بھی ہو رہا ہے جہاں کبھی اکتوبر ایک معتدل مہینہ سمجھا جاتا تھا لیکن اس بار یوں محسوس ہو رہا تھا کہ مئی جون کی گرمی لوٹ آئی ہو۔ بہت آگے گئے تو ایک پہاڑ کے کنارے پر ایک عجیب سے چیز دکھائی دی۔ اس کے بارے میں خیال آرائی کرتے ہوئے آگے بڑھے۔

ایک جگہ پر پانی چلنے کی آواز سنائی دی۔ خوشی ہوئی کہ شائد کوئی چشمہ ہے لیکن چشمہ دکھنے سے پہلے ہی ایک عجیب سی بُو بھی آئی۔ عدنان بھائی نے بتایا کہ زیر زمین گندھک اور دیگر کیمیکلز کی وجہ سے پانی میں یہ بُو شامل ہو گئی ہے۔ ہم اس چشمے کے ساتھ ساتھ چلے۔ اب ہم بہت نیچے گہرائی تک پہنچ چکے تھے۔ یہاں سے ہمیں مشرقی سمت والے پہاڑ پر چڑھنا تھا۔ ایک جگہ پر ذرا پیچھے ہٹ کر ایک گول شکل میں پہاڑ کٹا ہوا تھا اندازہ لگایا گیا کہ بارشوں کے موسم میں اوپر سے پانی آبشار کی صورت میں بہتا ہو گا اور یہ سب منظر بہت خوب صورت ہو گا لیکن افسوس کہ ہم یہ آبشار نہ دیکھ پائے۔ یہاں سے اوپر کو چلے۔ تھوڑا اوپر ایک میدان نما تھا۔ جس کے تینوں اطراف دیوار کی صورت پہاڑ تھے۔ اور ہم نے انہی میں سے کسی کو سر کر کے دوسری جانب جانا تھا۔ گروپ کمانڈر عدنان صاحب نے ایک رستہ دریافت کیا۔ یہ سیڑھی نما رستہ سیدھا اوپر کو جاتا تھا جہاں پتھروں کو ہاتھوں سے پکڑ کر ہی چڑھنا ممکن تھا۔ یہ سخت مرحلہ بھی طے کر تو لیا لیکن پھر اس کے بعد سبھی کوئی نہ کوئی سایہ تلاش کرنے لگے۔ یہ کافی اونچی جگہ تھی۔ یہاں سے شمال کی طرف پوٹوھار کا اختتامی علاقہ دکھائی دیتا ہے۔ عدنان صاحب عامر مغل کو اس علاقے کے بارے میں بتانے لگے۔ اور ہم سب ایک درخت کے نیچے براجمان ہو گئے۔

پانی نکالا گیا تو وہ نیم گرم تھا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد عدنان عالم نے بہت دور اور بہت گہرائی میں ایک جگہ کے بارے میں بتایا کہ یہاں وہ نیلے چشمے ہو سکتے ہیں جن کی تلاش میں ہم لوگ آئے ہیں۔ وہ چشمے دیکھنے کے بعد واپس یہیں آنا ہے۔ عامر نے یہ سنا تو تھوڑا مزید ریلیکس ہوتے ہوئے کہا کہ بھئی آپ وہ چشمے دیکھ آئیں۔ ان کا ساتھ دینے کو ہمیں بھی رکنا پڑا۔ ساتھیوں نے الوداع کہا۔ ہم کافی دیر تک ان کو نیچے جھاڑیوں میں رستہ تلاش کرتے دیکھتے رہے۔اور پھر وہ انہیں جھاڑیوں میں کہیں گم ہو گئے۔ مجھے چائے کی طلب ہوئی تو بیگ میں سے تھرمس تلاش کیا۔ اور پھر سارے ہی بیگ کھول ڈالے مگر چائے کے وہ دو تھرمس جو چلتے وقت رکھے تھے کہیں نہ ملے۔ کمال ہی ہو گیا تھا۔ عامر اور میں گپ شپ کرتے رہے۔ اور ہمارے ساتھی گرتے پڑتے چشمے تلاش کرنے میں لگے رہے۔ بالآخر انہوں نے چشمے تلاش کر لئے۔ گوکہ ان کا پانی نیلا نہیں بلکہ سبز ہو رہا تھا۔ ایک دو نہیں اکٹھے پانچ چشمے قریب قریب سے پھوٹ رہے تھے۔

 ٹیم ممبر گرمی سے اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ سبھی نے باری باری پانی میں چھلانگ لگا دی۔ جب عامر اور میں گرمی میں ایک درخت کے نیچے سستا رہے تھے تو ہمارے ساتھی چشمے کے پانیوں میں غسل فرما رہے تھے۔ یہیں قریب ہی پتھروں کی ایک دیوار سی بنی ہوئی تھی جس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ کسی مائی صاحبہ کا مزار ہے اور یہاں پر وہ لوگ آ کر منتیں مانتے اور اشنان کرتے ہیں جنہیں خارش اور جلدی امراض کا مسئلہ ہو۔ جی بھر کر نہانے کے بعد ٹیم واپس لوٹی اور دور سے ہی اپنی آمد کا احساس دلایا۔ واپس آتے ہیں دانش بٹ سے پوچھا کہ چائے کے تھرمس کہاں ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ جو شاپنگ بیگ آپ نے اٹھائے ہوئے تھے انہی میں وہ تھرمس رکھ دیئے تھے۔ اوہ خیر، میں نے اس شاپنگ بیگ کے علاوہ ہر جگہ تلاش کیا تھا۔ بہر حال چائے پی گئی کچھ کھایا پیا گیا اور واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اس بار یہ سفر بہت جلدی طے ہوا۔ سبھی کسی ایسے ٹھکانے تک پہنچنے کے لئے بے تاب تھے جہاں وہ دن بھر کی تھکن اتار سکیں۔ جہاں پینے کے لئے ٹھنڈا پانی دستیاب ہو۔ جی ہاں ، پہلی بار ایسا ہوا کہ ہمارے اندازے غلط ہو گئے اور پینے کا پانی ختم ہو گیا۔ شائد بہت زیادہ گرمی کی وجہ سے پانی زیادہ پیا گیا۔

اور اس بارے ہمارے لئے ریسکیو 1122 کی صورت میں آ رہے تھے ہمارے پیارے راج دلارے عدنان احسن ملک ، جو دن کی ٹریکنگ پر تو نہ پہنچ پائے تھے مگر اب شام کو آ رہے تھے۔ ساتھ میں ڈنر کے لئے تازہ چکن ، کولڈ ڈرنکس اور ٹھنڈے پانی کی بوتلوں کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ ہمارے دوست بار بار انہیں کال کرتے۔ ان سے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لانے کی فرمائش کرتے۔اپنی لوکیشن بتاتے۔

شام سے کچھ پہلے ہماری واپسی اس جگہ ہوئی جہاں ہماری گاڑیاں کھڑی تھیں۔ اگرچہ ہم نے قلعہ اکراند یا اس کے سامنے والے اونچے پہاڑ پر کیمپ لگانا تھا لیکن اب دیر ہو رہی تھی۔ سورج کی روشنی میں قلعہ اکراند جانا ممکن نہیں رہا تھا اس لئے طے پایا کہ یہیں کہیں ہموار جگہ دیکھ کر کیمپ لگا لئے جائیں۔ تو ہم نے سرسبز گھاس سے بھرے ایک قطعے کو منتخب کیا۔ یہ خبر ملتے ہی کہ اب ہم نے مزید نہیں چلنا۔ ٹیم نے سکھ بھرے سانس لئے اور گھاس نشین ہوتے گئے ، عامر اور اویس تو گھاس پر ہی لیٹے اور گہری نیند سو گئے۔

وہ گذشتہ لاہور سے چلے تھے اور پھر اب انہیں آرام کا موقع ملا تھا۔ کچھ مقامی لوگ آن پہنچے ان سے گپ شپ ہوئی۔ انہوں نے مہمان نوازی کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے ہاں ٹھہرنے کی پیش کش کی۔ ان کے نزدیک یہ بہت عجیب تھا کہ کچھ لوگ مکان قریب ہوتے ہوئے بھی ٹینٹ میں کیوں رہنا چاہتے ہیں۔ ان کا شکریہ ادا کیا گیا۔ وہ بابا جی بھی آن پہنچے جو صبح ہمیں ملے تھے۔ انہوں نے نہایت رازداری سے پوچھا کہ کیا جس چیز کی تلاش میں ہم گئے تھے وہ ہمیں ملی یا نہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہم سے اکثر پوچھا جاتا ہے لوگوں کا خیال ہے کہ ہم جو جنگلوں میں گھومتے رہتے ہیں تو شائد ہمیں کسی خزانے کی تلاش ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان جنگلوں میں جا کر ہم وہاں کی فضا میں جو سانس لیتے ہیں وہی ہمارے لئے سب سے بڑا خزانہ ہے۔

عدنان بھائی کے حکم پر ٹینٹ لگانا شروع کیا گیا۔ اور اسی وقت ہمیں گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی۔ ہمارے لئے ٹھنڈا پانی ، کولڈ ڈرنکس ، ڈنر کے لئے چکن آن پہنچا تھا۔ عدنان احسن ملک ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ ہمیں ملے۔ ٹھنڈا پانی پی کر سب کی جان میں جان آئی۔ گپ شپ لگنے لگی۔ قہقہے گونجنے لگے

فہیم بھائی ساتھیوں کے لئے قزاقستان سے ٹیونا فِش لائے تھے جس کے کباب بنوا کر وہ گھر سے لائے ساتھ میں روسٹ چکن پیس تھے۔ ہم نے دوپہر کو باضابطہ لنچ نہیں کیا تھا چنانچہ طے پایا کہ فی الحال فہیم بھائی اور دانش بٹ کے لائے گئے کھانوں سے انصاف کیا جائے اور اس کے بعد مزید کام کیا جائے۔ ٹیونا فِش کے کباب نہایت لاجواب تھے ، باقی لوازمات نے بہت لطف دیا کہ سبھی کو ایک دم سے بھوک محسوس ہونے لگی تھی۔ اس کے بعد کچھ دیر گپ شپ لگائی گئی۔ دن کے تجربات شیئر کئے گئے۔ اسی گہما گہمی میں ٹینٹ لگائے گئے۔ فہیم بھائی نے اپنا ٹینٹ کسی دوست کو کچھ دن کے لئے دیا تھا۔ ستم ظریف نے اسے یوں بے دردی سے استعمال کیا جیسے فہیم بھائی سے کوئی پرانا بدلا چکا نا ہو۔ بالآخر ٹینٹ لگ گئے۔ قریبی واٹر سپلائی کی ٹینکی سے سب نے ہاتھ منہ دھویا۔ فریش ہوئے۔ کچھ دیر بعد چکن کڑاہی بنانے کا سوچا گیا۔ ہم پر پہلی بار اپنے ساتھیوں کے جوہر کھلے۔ بٹ صاحب نے فوری طور پر چکن کڑاہی بنانے کا کام سنبھال لیا۔ ہم چکن کو لیکر ٹینکی پر دھونے کے لئے گئے وہاں بٹ صاحب نے اپنی مہارت کے ابتدائی جوہر دکھائے۔ فہیم بھائی نے چولہا بنا کر لکڑیاں اکٹھی کیں اور یوں چکن کڑاہی بنانے کا کام شروع ہوا۔ ارشد بھائی بٹ کا ساتھ دے رہے تھے اور انہوں نے چکن کڑاہی بنانا سیکھی بھی۔ اگلی مہم میں ارشد بھائی چکن کڑاہی بنائیں گے۔ اور چکن کڑاہی واقعی لاجواب تھی۔ ساتھ میں احمد نے توے پر روٹیاں بنائیں۔ عامر اور اویس کو جگایا گیا جنہوں نے کڑاہی کی بے انتہا تعریف کی۔ دانش بٹ کا گورا چٹا چہرہ مزید کِھل کر گلنار ہو گیا۔ وہیں محفل جمی رہی۔ رات سرد ہوتی گئی۔ کسی نے چادر تو کسی نے جیکٹ نکالی۔ چائے کا دور چلتا رہا۔ اور یہ ایک نہایت دلکش اور شاندار رات تھی۔ ہم نے چاند کو طلوع ہوتے دیکھا۔ آخری راتوں کا یہ چاند نہایت شرمیلا شرمیلا پہاڑیوں کی اوٹ سے بلند ہوا۔ عامر مغل نے چاند کی چند عمدہ تصویریں بنائیں۔ آسمان پر بے شمار ستارے تھے۔ جو شہروں میں تو دکھائی ہی نہیں دیتے۔ بہت رات بیت چکی تھی جب سونے کے لئے اٹھے۔ اور جب سوئے تو صبح ہی آنکھ کھلی۔ اور وادی سون میں صبح بھی بہت جلدی ہو جاتی ہے۔ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ ہم سب اٹھ بیٹھے۔ ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کیا۔ فہیم بھائی نے چائے چولہے پر رکھ دی تھی۔ جلدی سے ٹینکی پر جا کر ہاتھ منہ دھویا۔ سورج طلوع ہو رہا تھا اور عامر تالاب کے قریب اپنے کیمرے پر جھکا ہوا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس نے طلوع آفتاب کی چند بہت عمدہ تصویریں بنائی ہیں۔

چائے پی گئی۔ کیمپ پیک کیا گیا۔ عامر کی فرمائش تھی کہ کنہٹی گارڈن بھی جانا ہے جو یہاں قریب ہی تھا۔ مقامی دوستوں کو الوداع کہہ کر روانہ ہوئے۔ عدنان احسن نے اوچھالی جانا تھا انہوں نے ہم سے رخصت لی۔

وادی سون میں کنہٹی گارڈ ن جیسا باغ ایک عجوبے سے کم نہیں۔ ایک بڑے قدرتی چشمے کے قریب یہ باغ ایک انگریز کا خواب تھا۔ انگریز چلے گئے مگر اپنی یادگاریں چھوڑ گئے۔ کنہٹی گارڈن میں لگائے گئے مالٹے جون میں پک کر تیار ہوتے ہیں۔ آج کل حکومت اسے ایک جدید تفریح گاہ میں تبدیل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ عامر کو باغ کی خوبصورتی نے مبہوت کر دیا

 اس نے یہاں کچھ سوغاتیں خریدیں۔ کچھ دیر گھومنے کے بعد ہم یہاں سے چلے تو کھبیکی آن پہنچے۔ برادر عدنان عالم اعوان نے نوشہرہ جانا تھا۔ انہیں الوداع کہہ کر چلے تو ایک بار پھر سے بلال ہوٹل پیل جا کر بریک لگائی گئی۔ ناشتہ کیا گیا اور پھر خوشاب پہنچے۔ عامر اور اویس اچھی یادیں اور خوشاب کا ڈھوڈا لیکر لاہور روانہ ہوئے اور ہم سب بھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).