بھینسوں کے ساتھ دوڑ…. مستنصر حسین تارڑ کے لیے!


\"waqarتارڑ صاحب نگر میں تھے اور میں ابھی لاہور سے ڈرائیو کر کے مانسہرہ پہنچا تھا۔ مانسہرہ سے بشام تک کانوائے کے ساتھ سفر کرنے کا ارادہ تھا۔

رات دو بجے کانوائے بشام روانگی کے لیے تیار تھا۔ میں نے کار پولیس پائلٹ جیپ کے پیچھے کھڑی کر دی، میں کانوائے کی تمام بسوں میں سب سے آگے رہنا چاہتا تھا۔

پولیس نے اپنی گاڑی کا سائرن بجانا شروع کیا اور اس کی نیلی گھومتی بتی مجھے اور کار کے اندرونی ماحول کو ہر ایک ثانیے بعد نیلو نیل کر نے لگی۔ میرے پیچھے چالیس بسیں صرف ہارن بجانے پر اکتفا نہیں کرتیں تھیں بلکہ ہر ڈرائیور ریس کو گھٹا بڑھا بھی رہا تھا۔

میرے بالکل پیچھے سلک روٹ کی بس تھی اس سے پیچھے مشہ بروم بھاں بھاں کر رہی تھی۔ مشہ بروم کی دم کے ساتھ نیٹکو کی تھوتھنی تھی۔

میں خوش تھا کہ پائلٹ کے پیچھے تھا۔ بشام تک چار سے پانچ گھنٹے کا سفر سکون سے گزر جائے گا۔

میں خوش تھا اور احمق تھا،

مجھے نہیں معلوم تھا کہ سلک روٹ ، محافظ، کے ٹو ، مشہ بروم اور نیٹکو کی بسیں میری زندگی کے ساتھ کیسا کھیل کھیلنے کو بے تاب تھیں….

مانسہرہ سے نکلے بیس منٹ ہوئے تھے جب ڈھوڈیال کے نزدیک میں نے دروازے والے عقبی شیشے میں دیکھا کہ سلک روٹ کی بس مجھے کراس کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تقریبا میرے متوازی آ کر اس نے پریشر ہارن بجایا جو اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھا۔

سامنے دیکھا تو پولیس کی گاڑی پر مسلح اہلکار ہنس رہے تھے۔ ساتھ ہی ایک موڑ آیا جس کی وجہ سے سلک روٹ بس کو پیش قدمی وقتی طور پر روکنی پڑی۔

\"12822063_10154096178308578_949729309_n\"مجھے سمجھ نہیں آئی کہ سلک روٹ بس پائلٹ کو کراس نہیں کر سکتی تو کہاں جانا چاہتی ہے۔

ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے ہو ں گے کہ میں نے عقبی شیشے پر نظر دوڑائی اور منظر سانس منجمد کرنے کے لیے کافی تھا۔ سلک روٹ اور نیٹکو دونوں ایک دوسرے کو بھی اور مجھے جو ایک ننھی سی شیور لیٹ پر سوار تھاکراس کرنے کے لیے آچکی تھیں۔ اب منظر یہ تھا کہ تین گاڑیاں یعنی کار اور دو دیو ہیکل بسیں سڑک پر یکساں رفتار سے متوازی تھیں ۔

تماشا یہ بھی تھا کہ دونوں بسیں زوردار ہارن بھی بجارہیں تھیں ۔ آگے پولیس پائلٹ کی گاڑی تھی جو یہ منظر دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے۔

میں نے یہی مناسب سمجھا کہ بریک پر پاﺅں رکھوں اور ان دیو ہیکل جنات کو نکلنے دوں لیکن ٹھہریے ۔۔۔

جیسے ہی میں نے یہ فیصلہ کیا اور عقبی شیشے کی جانب دیکھا تو روح فنا کرنے کا ایک اور منظر تھا۔ میری گاڑی کے پچھلے بمپر سے بمشکل ایک فٹ کے فاصلے پر مشہ بروم کی بس سر جوڑے تھی ۔ اور اس پر مزید میرے رونے کے وسیع تر امکانات کو روشن کرنے کے لیے مشہ بروم کے ڈرائیورنے بھی پریشر ہارن پر ہاتھ رکھ لیا۔ اب آپ تخیل پر زور دیجیے تو تین بھینسوں میں ایک پھنسے معصوم خرگوش کی بے بسی دیکھ سکتے ہیں۔ تینوں نے مجھے سینگوں پر اٹھا لیا جیسے میں کسی مقدس روایت کی توہین کا مرتکب ہوا ہوں۔
اور وہ ٹھیک تھے۔ میں واقعی ایک مقدس روایت کی توہین کا مرتکب ہوا تھا۔

کانوائے میں تمام بسوں اور کوسٹرز کو پائلٹ کی رفتار کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔ یہ پائلٹ بھی اچھی خاصی رفتار سے چلتی ہے لیکن نیٹکو اور قراقرم ہائی وے پر چلنے والی دوسری کمپنیوں کی بسوں کے مطلوبہ معیارِ رفتار کو کہاں پہنچتی ہے۔ اب کیوں کہ کوئی گاڑی پائلٹ کی گاڑی کو کراس نہیں کر سکتی اور گھنٹوں کے لیے ان مشاق ڈرائیورز کے لیے بوریت کا سامان پیدا ہو جاتا ہے۔ ان ڈرائیورز نے اپنے لیے دلچسپی کے لیے ایک اختراع ایجاد کی۔یعنی نر ڈرائیور وہ ہوگا جو اپنی بس کو پائلٹ \"12084175_10154096178323578_1541071685_n\"کے سب سے قریب رکھے۔ پورے کانوائے میں سب سے آگے ہو ۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس کے لیے چلاس تک دس پندرہ گھنٹے تک تگ و دو رہتی ہے۔ عموما یہ اعزاز نیٹکو کے پاس ہی رہتا ہے۔

لیکن وہ رات ایک عجب رات تھی۔ ایک منحنی سا آدمی جو ایک منحنی سی گاڑی پر سوار تھا بے خبری میں یہ اعزاز لے بیٹھا تھا۔ اور اب اس سے یہ اعزاز لینے کے لیے تین بھینسوں نے اسے سینگوں پر رکھ لیا تھا۔ میں نے مشکل سے گاڑی کچے پر کی اور اعزاز سے بقائمی ہو ش و حواس اور بہت ہی خوش اسلوبی سے دستربردار ہوا۔ اس اعزاز کا مجھے پہلے علم ہوتا تو میں سب سے آخر میں آتا اور روایت کی توہین کا مرتکب کبھی بھی نہ ہوتا۔

اب جبکہ میں بٹل کا قصبہ عبور کر رہا تھا تو میرا نمبر چوتھا تھا اور پانچویں نمبر پرمحافظ جیسی کوسٹر بھی مجھ پر چڑھائی کر رہی تھی۔ شارکول کی چڑھائی سے پہلے الحمد اللہ میں بارہویں نمبر پر تھا اور شکر بجا لاتا تھا اس ذات کا کہ جس نے بارہویں نمبر پر رکھ کر مجھے پہلی دفعہ گہرے سانس لینے کا موقع میسر کیا۔

گذشتہ زندگی میں جب کبھی کانوائے دیکھتا تھا تو سوچتا تھا ان کے ساتھ سفر کرنے میں کیسا مزہ آتا ہو گا۔ ہر موڑ مڑتے وقت دور تک گاڑیوں کا طویل قافلہ نظر آتا ہو گا۔ لیکن اس وقت کی بے ہودہ خواہش کی قیمت اب ادا کرنے کا وقت آچکا تھا۔

میرے لیے کے کے ایچ پر سفر کا یہ حصہ یعنی شنکیاری سے تھاکوٹ تک بہت خوشگوار رہتا ہے ۔ میں ونڈ سکرین سے زیادہ چھتر پلینز دیکھتا ہوں، رات کو بٹل اور بٹ گرام کی تاحد نظر جگنوﺅ ں جیسی بتیاں دیکھتا ہوں لیکن یہ تب ہوتا تھا جب میں کانوائے میں نہیں ہوتا تھا۔ اب حالت یہ تھی کہ شارکول کے بعد بٹ گرام کی اترائی اترتے وقت مجھے احساس ہوا کہ گذشتہ تین گھنٹوں سے میری کمر سیٹ سے جدا ہے اور گردن اور کندھوں میں ایک دکھن ہے۔میں ونڈ سکرین اور عقبی شیشے کے علاوہ کہیں نہیںدیکھ رہا اور دل زیادہ رفتار سے دھڑک رہا تھا اور میں سانس بھی کم لے رہا تھا کہ کہیں یونہی جاتے جاتے کسی اور مقدس اور پوترروایت پر لاعلمی
میں پاﺅں نہ رکھ دوں۔

بٹ گرام عبور کرنے کے بعد آسمان پر ایک سپیدی سی نظر آئی ۔

یہ وقت میرے شیر ہونے کا تھا۔ للکارنے کاتھا۔چنگھاڑنے کا تھا۔

\"12803981_10154096178313578_1888273812_n\"میں شیر ہوا۔ للکارا اور چنگھاڑا بھی۔

میں نے کمال غرور سے اپنے سے آگے بسوں کو کراس کیا اور رعونت سے پائلٹ کی گاڑی بھی کراس کر گیا کہ پرائیویٹ گاڑی کو کانوائے کے ساتھ چلنے کی پابندی نہیں ہوتی۔ اب میں سو کلومیٹر کی رفتار کو چھوتا تھا اور عقب میں کانوائے کو ہر پہاڑی موڑ پر بتدریج غائب ہوتے دیکھتا تھا۔

غرور اللہ کو پسند نہیں۔ میرے علم میں نہیں تھا کہ صبح کے وقت آخری ایک گھنٹہ سفر کے لیے بعض اوقات پولیس کی پائلٹ جیپ رک کر کانوائے کو اشارہ کر دیتی ہے کہ جاﺅ تم سب ایک گھنٹہ یعنی بشام تک کے لیے آ زاد ہو۔ پھر وہ دھما چوکڑی مچتی ہے کہ الامان۔ میں خوش خوش اڑا جاتا تھا کہ بشام کانوائے سے آدھا گھنٹہ پہلے پہنچ جاﺅں اور رضوان کے ساتھ ناشتہ کر کہ تروتازہ ہو جاﺅں کیونکہ اسی کانوائے کی کسی بس میں مجھے مزید سفر کرناتھا، کار ایف ڈبلیو او کے کیمپ میں کھڑی کرنی تھی۔

مقدس صبح بہت سی جگہوں پر اترتی ہے ۔ ایسے کہ تخلیق کائنات کا اذن ابھی ابھی ہو ا ہے اور آج پہلی دفعہ سورج اپنے پورے جلال کے ساتھ نمودار ہو رہا ہے۔ پرندوں کو پہلی بار صبح کو دیکھنے کا تجربہ ہو رہا ہے اس لیے وہ جوشیلے نغموں سے ماحول کو پر جوش بنارہے ہیں۔ درخت ایک دوسرے کے سبز رنگ کو دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں خوش ہو رہے ہیں کہ ہم تو سمجھے تھے کہ ہم سیاہ بھوت ہیں ارے ہم تو سبزیلے خوبصورت شہزادے ہیں۔ نیلا پائن باد صبا سے جھومتا ہے اور جھومتے ہی اس لمحے کا انتظار کرتا ہے کہ کب صنوبر کا کان اس کے نزدیک آتا ہے ۔ اس لمحے میں نیلا پائن صنوبر کو کہتا ہے دیکھو دیکھو درالو کو دیکھو ، جانور اس پر
منہ ماریں تو قے کرتے پھرتے ہیں

لیکن صبح کے وقت یہ درالو کا بچہ کتنا خوبصورت دکھائی دے رہا ہے ۔جنگل کو سبز پہچان تو یہ درالو ہی دے رہا ہے۔

صنوبر کہتا ہے ، نیلے پائن تم بھی کم نہیں ہو ، اور نیلا پائن جھینپ جاتا ہے۔باد صبا کے اگلے جھونکے سے شرمیلے پن کے ساتھ دوسری طرف جھک جاتا ہے بھول جاتا ہے کہ صنوبر نے اس کی تعریف کی ہے تو مروت میں اس کو بھی ایک آدھ جملہ اس کے جوبن پر کہنا چاہیے تھا۔

یہ مقدس صبح بہت سی جگہوں پر اترتی ہے اور ایسی ہی صبح نندی ہار اور تھاکوٹ کے درمیان اترتی ہے۔

نہ جانے میرے اندر ایک منکسر المزاج ہندو کب سے آلتی پالتی مار کر بیٹھا ہے جو دریائے سندھ کی پہلی جھلک دیکھ کر سر جھکاتا ہے دونوں ہاتھوں سے پرنام کرتا ہے۔

\"12822115_10154096178298578_1311108409_n\"تھاکوٹ میں جاتے ہوئے جب سندھو پر پہلی نظر پڑتی ہے اور واپس آتے ہوئے جب آخری نظر پڑتی ہے ۔۔ ایک بھری ہو ئی آنکھ سے پرنام کرتا ہے۔

بات کہیں اور نکل جائے گی لیکن موقع اچھا ہے بتاتا چلوں کہ گلگت بلتستان میں دو ہستیاں ایسی ہیں جن کو میں دعا کا کہتا ہوں ۔ ہمیشہ ۔۔

جب بھی ان سے الوداع ہونے لگتا ہوں ان سے التجا کرتا ہوں کہ میری گلگت بلتستان جلد واپسی کے لیے دعا کریں۔

یہ دو ہستیاں ہیں، سندھو دریا اور راکا پوشی۔

چاہے یہ بات آپ کو احمقانہ لگے ، لیکن بے ضرر یقین کی اس حرکت پر آپ کی سر زنش بنتی نہیں ہے۔

تھاکوٹ پر سامنے ہمدم دیرینہ اور عمر میں بھی کوئی خاص فرق نہیں (چند لاکھ برس ہی کا فرق ہے) دریائے سندھ پر نظر پڑتی ہے۔ پرنام کے لیے ہاتھ اٹھانے کا قصد کیا ہی تھا کہ میری کار کی پشت پرقیامت کا اعلان کرنے والا وہ ہرکارہ ۔۔وہ وحشی کانوائے زورسے ٹاں ٹاں ٹاں کرتا پہنچ گیا اور میں نے دیکھا کہ پائلٹ کا نام و نشان نہیں اور کھلے ریوڑ کی طرح بھینسے پھر میرے پیچھے ہیں۔

مجھے اس دن عورت کی بے بسی کا ادراک ہوا اور میں نے تحریک نسواں کا جھنڈا اٹھا لیا۔

مجھے ایسے لگا جیسے مانسہرہ سے مسلسل پانچ گھنٹے میں ان وحشی بھینسوں سے اپنی عزت بچانے کی کوشش میں مصروف ہوں ۔

لیکن بے شک قدرت کمزروں کی مدد کرتی ہے۔ مشہور زمانہ پاک چین دوستی کی علامت تھاکوٹ پل کے پار پولیس نے کانوائے کو روک کیا۔ مجھے معلوم ہوا چالیس بسوں کی چیکنگ میں آدھا گھنٹہ لگے گا۔ میں نے کاغذات چیک کروائے اور بشام کی جانب روانہ ہوا۔ اب کی دفعہ میں نے بسوں کی جانب غرور سے نہیں دیکھا۔ انکساری سے بشام کی جانب رخ کیا۔ میں خوش تھا کہ مجھے بشام میں اب ایک گھنٹہ مل جائے گا۔

بشام پہنچا تو رضوان انتظار کر رہا تھا۔قراقرم ہائی وے پر کچھ ہوٹلز ، ہوٹلز نہیں ہیںگھر ہیں۔ بشام مڈ وے اور پی ٹی ڈی سی بشام کسی زمانے میں بین الاقوامی سیاحوں کے گھر تھے۔ اور میرے جیسے مقامیوں کے آج بھی گھر ہیں۔ بشام کی رات اور بشام کی صبح داستانوی ہیں۔ وہ گلگت بلتستان کا کون سا سفر نامہ ہے جس میں تارڑ صاحب نے بشام کا ذکر محبت سے نہ کیا ہو۔ ان کا ایک باب ’شام ہمیشہ بشام میں آتی ہے‘ بشام کے لیے مخصوص ہوتاہے۔

گلگت بلتستان کا ہر ٹور، دو جگراتوں سے شروع ہوتا ہے۔ ایک رات تیاریوں اور ہیجان زدگی میں اترتی ہے کہ یقین نہیں آ رہا ہوتا کہ چوبیس گھنٹوں بعد آپ بشام داسو اور برسین میں ہوں گے۔ دوسری رات مسلسل سفر میں گزرتی ہے۔ بشام مڈ وے پہنچ کر رضوان اور دوسرے دوستوں کومختصر سلام کیا جاتا ہے اور جاتے ہی بستر پر ڈھیر ہو جاتے ہیں،

\"12835055_10154096178318578_592636286_n\"سامان گاڑی بٹوے، سب کچھ رضوان کے حوالے کہ داروغہ جنت جو ہوا۔

دس گھنٹوں کی طویل نیند کے بعد صبح آنکھ کھلتی ہے تو دریائے سندھ اور نالہ خوان خڑ کا شور سنائی دیتا ہے۔ آنکھیں کھولتا ہوں تو کھڑکی سے آتی روشنی چندھیاتی ہے۔ میں پھر آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور دل کو شکر سے معمور پاتا ہوں۔ شکر کے اظہار کے لیے لفظ نہیں ملتے تو خاموشی اور ماتھے پر تشکر کے جذبات کے زیر اثر بنی سلوٹوں کو اظہار شکر کا ذریعہ بناتا ہوں۔

ناشتے کے لیے جب باہر لان میں جو، نالہ خوان خڑ کے سامنے ہے آتا ہوں۔ ساتھ آئے دوستوں کے دمکتے چمکتے چہرے دیکھتا ہوںجو اس طویل نیند کے بعد جگمگا رہے ہوتے ہیں، یہ سوجن والی آنکھیں لیے چہرے کرسی پر بیٹھ کر کبھی نالہ خوان خڑ میںنہاتے بچوں کی قلقاریاں سنتے ہیں تو کبھی آسمان کو باتیں کرتے پہاڑوں پر نقطے برابر ان گھروں کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کوئی تو ان کے مکین ہوں گے۔ اٹھ چکے ہو ں گے۔ خوبصورت بچے ان گھروں میں کیا کھیل کھیلتے ہوں گے۔ یقینا فاصلے پر قائم ان گھروں میںبچوں کی آپس میں دوستیاں ہوں گی اور صبح اٹھتے ہی دور دوست کے گھر کی جانب تکتے ہوں گے۔ اور شاید انہی گھروں میں کہیں عشق کی تازہ تازہ واردات بھی ہوئی ہو گی۔اور دونوں عاشقوں کو زندگی کس قدر خوبصورت لگتی ہو گی۔ کوئی دادا ، اپنے پوتے کے چہرے میں ، اپنے اور اپنے بیٹے کے نقش ڈھونڈتا ہو گا۔

بشام یاداشتوں کو تحلیل کرنے کی پہلی واردات ڈالتا ہے۔ چلاس تک آپ بھول چکے ہوتے ہیں کہ آپ کے پاس کتنے کریڈٹ کارڈ ہیں اور ان کے بل کب ادا کرنے ہیں، آپ کس ادارے میں نوکری کرتے ہیں، آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے، کن سے پیدا ہوئے اور وہ جو آپ سے پیدا ہوئے کون ہیں۔ دودھ کابل کتنا آتا ہے، لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کیا ہے، آپ کے ملک میں کون سا طرز حکومت رائج ہے۔ یہ سب کچھ محو ہو جاتا ہے۔

لیکن یاداشت کو تحلیل کرنے کے لیے پہلا زوردار وار بشام کرتا ہے۔

بس ایسا ہی ہے ہمارا بشام اور بشام کا رضوان۔

رضوان سے ملتا ہوں تو لگتا ہے میری زندگی کے دو ہی مقصد تھے۔ رضوان اور صبح ِ بشام….

نہ جانے رضوان ، ہمیں الوداع کرتے وقت تین ٹھنڈے یخ پانی کی بوتلیں کیوںتھماتا ہے؟

اور اس پیارے ہنزائی دوست کی بوتلوں سے پہلا گھونٹ لیتے وقت تمام دوست ایک دوسرے کو یہ کیوں کہتے ہیں ۔۔۔’پانی ہی ہے؟‘

(جاری ہے)

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments